غزل
فرینک حسرت
کسی بھی پھول میں نکہت نہ ہوگی
مرے رب کی اگر رحمت نہ ہوگی
تجھے کچھ عشق میں حاصل نہ ہوگا
کہ دل میں جب ترے ہمت نہ ہوگی
بجھے گی آگ نفرت کی نہیں گر
تو یہ دنیا کبھی جنت نہ ہوگی
جہاں لاشوں کی اتنی سسکیاں ہیں
وہاں انسان کی قیمت نہ ہوگی
ہے میرے گھر کا اب ماحول ایسا
بری عادت بری عادت نہ ہوگی
یہ مذہب کی لڑائ چھوڑ دو تم
ہمارے ملک میں ہیبت نہ ہوگی
کٹے ہر رات سجدے میں تمہاری
کہ اس کے بعد کچھ حسرت نہ ہوگی