حالاتِ حاضرہمضامین

مایوسی کی انتہا یا آگے بڑھنے کی نئی حکمت عملی

اسانغنی مشتاق رفیقی، وانم باڑی

ایک کمزور اور بے بس لڑکی کے جسم پر پچاس سے زیادہ گہرے زخم، اور ان زخموں کے پیچھے تشدد کی ا یسی کہانی کہ زبان بولنے سے اور قلم لکھنے سے قاصر ہو۔ لیکن اس پر سماج میں کہیں بھی کوئی ہلچل نہیں، کوئی احتجاج نہیں، آہ و بکا کا شور اٹھ رہا ہے تو صرف مظلوموں کے صفوں سے، کیا معاشرہ سچ میں بے حس ہو چکا ہے؟ یا کوئی اور بات ہے۔ ہائے افسوس!!  مایوسی کی انتہا ہوتی جارہی ہے۔ ظالموں کے حوصلے اتنے بلند ہوچکے ہیں کہ انہیں ملکی قانون کا ڈر ہے نہ خدائی قانون کا۔ ظلم، بربریت اور سفاکی کا مظاہرہ اتنی بے باکی سے ہورہا ہے کہ انسانیت شرمسار ہے۔

اب تو شاید ہی کوئی دن ایساگذرتا ہے جب کہیں سے بربریت کی کوئی خبر نہ آتی ہو۔ پتہ نہیں مجبور لڑکیوں کے جسم کے ٹکڑے ٹکڑے کر کے یامعصوم بچوں پر ذود کوب کر کے یا کمزور مجبور اور لاچار اکیلے آدمی پر ظلم اور تشدد کی انتہا کر کے، بیچ سڑک پر کھلے عام اسے لاٹھیوں سے پیٹ پیٹ کر مار دینے میں ان فاشسٹ جنونیوں کو کس قسم کا حظ ملتا ہے۔

آخر وہ اور اُن کے سیاسی سرپرست اپنے ان گھناؤنی حرکات سے دنیا کو کیا پیغام دینا چاہتے ہیں۔اگر وہ اس بات پر مغرور ہیں کہ طاقت کامنبع ان کے ہاتھ میں ہے، کوئی اُن سے، اُن کی کسی بھی حرکت پر باز پرس نہیں کر سکتا تو وہ سخت مغالطہ میں ہیں، تاریخ گواہ ہے ظلم کی عمر لمبی نہیں ہوتی، قدرت کا انصاف جب ظاہر ہوتا ہے تو چنگیز و ہلاکو کی ٹڈی دل فوجوں کو سرچھپانے کی جگہ نہیں ملتی، ہٹلر اور مسولینی منہ چھپا کر خود کشی پر مجبور ہوجاتے ہیں، عالمی طاقت کے گھمنڈ میں مبتلا مملکت تاش کے پتوں کی طرح بکھر کر رہ جاتی ہے۔ ظالموں کو یہ بات یاد رکھنی چاہئے کہ بھلے سے ان کے شور و غل میں مظلوم کی کراہیں اور چیخ آج ان سنی رہ جائیں لیکن ایسا ہمیشہ نہیں ہوگا۔قریب یاروہے روز محشرچھپے گا کشتوں کا خون کیونکرجو چپ رہے گی زبان خنجر لہو پکارے گا آستیں کا

جس طاقت کی اساس جھوٹ پر قائم ہو وہ طاقت دائمی نہیں ہوتی۔آج ملک عزیز میں نام نہاد وطن پرست برسر اقتدار گروہ نے جو سیاسی طاقت حاصل کی ہے وہ جھوٹ اور مکاری کی بنیاد پر ہے۔ اس کا ایجنڈا وہ نہیں ہے جو وہ ظاہر کرتی ہے۔ سرمایہ داروں کی سر پرستی میں دو سے چار،چار سے چالیس، چالیس سے چار سو کی اکثریت حاصل کر کے اقتدار پر قابض اس گروہ کا اصل نشانہ یہاں ایک ایسی سرمایہ دارنہ نظام کو فروغ دینا ہے جس میں عام آدمی سوچنے سمجھنے کی صلاحیتیں کھو کر سرمایہ داروں اور برسر اقتدار طبقے کا غلام بن جائے۔ اس کے لئے وہ، ہر وہ چال چل رہی ہے جس سے عوام پر اس کی پکڑ مضبوط ہو۔ مذہب کے نام پر اکثریت کا جذباتی استحصال اس کا پہلا ہتھیار ہے اور یہ اس کی نظر میں ایک کامیاب ہتھیار ہے کیونکہ اسی کے بل پر ہی وہ آج اس مقام تک پہنچی ہے۔ اس کی پوری کوشش یہی ہے کہ یہ ہتھیار کبھی کند نہ ہو۔

اس کے لئے وہ وقتاً فوقتاً مذہب سے وابسطہ مدعے اٹھا تی رہتی ہے۔گزشتہ سات سالوں سے جب سے یہ گروہ اقتدار پر قابض ہوا ہے، وطن عزیز میں شاید ہی کوئی لمحہ ایسا گذرا ہو جس میں اقلیتوں اور کمزور طبقوں کے خلاف بالخصوص مسلمانوں کے خلاف اکثریت کے دل میں ان کے تئیں نفرت پیدا کرنے کے لئے کوئی شوشہ نہ چھوڑا گیا ہو۔ کوئی ہوّا نہ کھڑا کیا گیا ہو۔ تیسرے اور چوتھے درجے کے رہنماؤں کے ذریعے مارو کاٹو کی باتیں پھیلا کر، دوسرے درجے کے لیڈروں کے ہاتھوں تشدد پھیلانے والوں کو ہار پہنا کر ان کی حوصلہ افزائی کرکے، صف اول کے رہنماؤں کے ذریعے ذو معنی بیانیہ عام کر کے منصوبہ بند طریقے سے سماج میں نفرت کو ہوا دی گئی اور آج یہ حالات پیدا ہوگئے ہیں کہ کوئی دن ایسا نہیں گذرتا جب کہیں سے مسلمانوں اور دلتوں پر ہجومی تشددکی کی خبر نہ آتی ہو، ان کے عورتوں، بچوں اور بوڑھوں کو نشانہ نہ بنا یا جاتا ہو۔

یہی نہیں،پہلے ہی سے مسلسل لاک ڈاؤن کی وجہ سے معاشی طور پر تباہ حال مسلمانوں اور کمزور طبقات کے لوگوں کو سڑک کے کاروبار سے بھی روکا جارہا ہے۔ اپنے ان کرتوتوں پر اکثریت سے شاباشی کے لئے اور ان کا مسیحا کہلوانے کے خاطر جھوٹ اور عیاری کا سہارا اتنا ڈھڑلے سے لیا جاتا ہے کہ شیطان بھی شرما جائے۔ لیکن وہ یہ نہیں جانتے کہ جھوٹ کی اس ناؤ کو ڈبونے کے لئے سچ کی ایک ہلکی سی تھپیڑ ہی کافی ہے۔جہاں تک ہم مسلمانوں کا تعلق ہے ہماری سب سے بڑی کمزوری ہماراداخلی انتشار اور اختلافات ہیں۔ اسی وجہ سے ہم آسانی سے فاشسٹ طاقتوں کا تر نوالہ بنتے جارہے ہیں۔ کتنی تعجب کی بات ہے، ستر سے زائد سالوں سے فسادات کے لامتناہی سلسلوں کے کاری زخم کھا کر اور گذشتہ سات سالوں سے ظلم و بر بریت کی انتہا سہتے ہوئے بھی ہماری صفوں میں دراڑیں ہی دراڑیں ہیں،اجتماعیت کا فقدان ہے۔

کیا ابھی بھی وقت نہیں آیا ہے کہ ہم اپنی صفیں سیدھی کریں، ان میں موجود کجی کو دور کریں، دراڑیں پاٹیں۔ آخر کب تک ہم بغیر کسی حکمت عملی کے صرف زبانی جمع خرچ پر اپنے آپ کو سر خرو کرنا چاہیں گے۔یہ بات طے ہے کہ وطن عزیز میں موجودہ حالات میں بدلاؤ فوری طور پر ناممکن ہے، صرف سیاسی محاذ پرہی نہیں سماج اور معاشرے میں بھی ہمیں جس طرح بے وقعت کر دیا گیا ہے اس کو پھر سے بحال کرنے اور اپنی حیثیت منوانے کے لئے ایک طویل جدوجہد درکار ہے اوریہ جدوجہد باقاعدہ منصوبہ بند طریقے سے ہوتبھی کچھ ہوسکتا ہے۔ اتنا یاد رکھ لیں کہ سیاسی محاذ پر ہماری حیثیت اب صفر ہو کر رہ گئی ہے، ہماری شرکت اور عدم شرکت سے کسی بھی پارٹی کو کوئی فرق نہیں پڑنے والا، اگر ہم الگ سے بھی اپنی کچھ سیٹیں بڑھوا لیں تو بھی ہماری آواز نقار خانے میں طوطی کی آواز کی طرح ان سنی ہی کی جائے گی۔ اس کا یہ بھی مطلب نہیں کہ ہم سیاسی میدان سے با لکل کنارہ کر لیں۔

بات بس اتنی ہے کہ ہم اپنا سارا دھیان سیاسی میدان میں ہی صرف کرنے کے بجائے اس کے رخ کو تھوڑا موڑ لیں۔ کیونکہ برسر اقتدار طبقے سے ہو یا حزب اختلاف سے، موجودہ حالات میں کسی سے بھی کسی بھلائی کی امید رکھنا بے وقوفی ہے۔ بر سر اقتدار طبقے کا اقتدار ہی ہماری دشمنی اور مخالفت کے بیساکھیوں پر کھڑا ہے، ایسے میں وہ یہی چاہے گا یہ فضا یونہی قائم رہے اور ممکن حد تک اس کی تمازت میں اضافہ ہوتا رہے تاکہ اس کا اقتدار مضبوط ہو۔ مندر مسجد، گؤ رکھشا، تین طلاق اور لو جہاد کا مدعا آج اس کے یہاں سر فہرست تو کل وہ کوئی اور ایسا مدعا نکال لائے گا جس سے سماج میں نفرت کی دیواریں مظبوط ہوں، اکثریت اس کی ہمنوا ہو کر آنکھ بند کر کے اس کی تائید کرے۔ حیرت کی بات ہے وہ اپنی سیاسی اور معاشی ناکامیوں کا ٹھیکرا بھی ہمارے سر پھوڑتی ہے، او ر ایک بڑی اکثریت آنکھ بند کر کے اس کی ان غیر منطقی باتوں پر یقین بھی کر لیتی ہے۔

جہاں تک حزب اختلاف کا تعلق ہے اسے بھی اس بات کا خدشہ ہے کہ اگر وہ ہماری طرف تھوڑا بھی جھکاؤ دکھائے تو سیاسی محاز پر اس کا بڑا نقصان ہو سکتا ہے۔ اکثریت کی نگاہ میں اس کی حیثیت مشکوک ہو سکتی ہے۔ایسے میں معاشی اور تعلیمی میدان ہی واحد ذریعہ ہیں جہاں سے ہم اپنے آپ کو منوانے کی کوشش کرسکتے ہیں۔ یہ بات سچ ہے کہ ان میدانوں میں بھی ہزار مشکلیں ہیں، یہاں بھی نفرت اور تعصب اپنے پنجے گاڑ چکی ہے لیکن پھر بھی یہاں کچھ کرنے کے مواقع ابھی بھی دستیاب ہیں۔ اپنی حیثیت پہچان کر ہم سے جس حد تک ممکن ہو سکے ان میدانوں میں اپنے آپ کو مستحکم کرنے کی کوشش ہی اب حالات میں بہتری لانے کا واحد راستہ ہے۔

منصوبہ بندی کے ساتھ چھوٹی چھوٹی اکائیاں بنا کر اگر ہم ان میدانوں میں مواقع ڈھونڈیں اور حکومتی بیساکھیوں سے مکمل بے نیاز ہو کر صرف اپنے اوپر، اپنے خالق کل پر اعتماد کرتے ہوئے محنت کریں تو امید ہے سماج اور معاشرے کے لئے ایک دن ہماری حیثیت اتنی ناگزیر ہوجائے گی کہ وہ مجبورا ہی سہی ہماری طرف متوجہ ہو گا اور ہمارے مسئلوں کو اپنا مسئلہ سمجھ کر اسے حل کرنے کی کوشش میں ہمارا ساتھ دے گا۔ لیکن اس کے لئے ایک طویل سفر درکار ہے۔ صبر و استقامت کے ساتھ، نئی حکمت عملی وضع کر کے آگے بڑھنا ہوگا۔

یقینا مایوسی کی انتہا ہوتی جارہی ہے۔ لیکن مسلمان کے لئے مایوسی کفر ہے۔ ہمارا ایمان اگرخالق کائنات پر مضبوط ہے تو ہمیں کسی بھی بات کا خوف اور ڈر نہیں ہونا چاہئے۔ ایک اچھے مومن کی پہچان یہی ہے کہ وہ ظلم سے نہیں گھبراتا،نہ ہی ظالموں سے اُسے خوف آتا ہے اُسے تو اُن کے انجام کا سوچ کر اُن پر ترس آتا ہے، مظلو موں کی آہوں اور آنسوؤں کی دھمک وہ اپنے سینے میں محسوس کرتا ہے۔ اللہ ہمیں صحیح سمجھ دے۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

error: Content is protected !!