خواتینسماجیمذہبیمضامین

حیاء نہیں ہے زمانہ کی آنکھ میں باقی…

(بضمن یوم حیاء۔14فروری)

از قلم: شازیہ عرش ماہ بنت نقیب خان عمرکھیڑ

اللہ سبحانہ و تعالیٰ کا ارشاد ہے:-
اور بے شرمی کی باتوں کے قریب بھی نہ جاؤ خواہ وہ کھلی ہوں یا چھپی۔
(سورۃ الأنعام آیت نمبر 151)

اشرف المخلوقات ہونے کے ساتھ رب العالمین نے انسان کو عقل وشعور اور قوتِ فیصلہ جیسی عظیم نعمتوں سے نوازا نیز دوسری مخلوقات سے ممتاز وممیز کرنے میں ایک نمایاں صفت اس کی شرم وحیا کی حِسّ اور جذبۂ عفّت عطا کی۔ دین اسلام نے حیاء کی اہمیت کو خوب اجاگر کیا ہے تاکہ مومن باحیاء بن کر معاشرے میں امن وسکون پھیلانے کا ذریعہ بنے۔ باعث حیاء انسان کے قول و عمل میں حسن و جمال اور مخلوق کی نظر میں پرکشش نیزرب العالمین کے ہاں مقبول ہوتا ہے۔لہٰذا جوشخص حیاء جیسی نعمت سے محروم ہوجاتا ہے وہ حقیقت میں محروم القسمت ہے۔

حیاء:
حیا کے لغوی معنی وقار، سنجیدگی اور متانت کے ہیں۔ یہ بے شرمی اور بے حیائی کی ضد ہے۔
اصطلاحی طور پر اس کا مطلب ہے ’’نفس کا کسی کام کے کرنے میں انقباض،تنگی محسوس کرنا، ملامت، سزا کے ڈر سے اسے نہ کرنا‘‘حیاء کے زمرے میں شامل ہے۔
شریعت کی اصطلاح میں حیاء وہ صفت ہے جس کے ذریعے انسان بے ہودہ ، قبیح اور ناپسندیدہ کاموں سے رک جاتا ہے۔ایسی عادت حیاء کہلاتی ہے جو بُری چیز سے اجتناب پر ابھارے اور حق والے کے حق میں کمی سے روکے۔ حیاء کو ایمان کا حصہ قرار دیاگیا ہے اسے دیگر نیک اعمال کی طرح کوشش اور محنت کرکے حاصل کیا جاسکتاہے۔شریعت میں حیاء کا بہت اہم مقام حاصل ہے اور اسے اپنانے کا حکم دیا گیا ہے تاکہ معاشرہ پرامن بنے اور فساد کی جڑیں مضبوط نہ ہونے پائیں۔حیاء نہ صرف اخلاقیات میں ریڑھ کی ہڈی کی طرح ہے بلکہ اخلاق حسنہ کے تاج میں جگمگاتا ہیرا ہے۔اسی شرم و حیاء سے خاندانی زندگی پرسکون، تعلقات مضبوط ، عفت و پاکدامنی کا رواج نیز انسان کو معززومعتبر بنا دیتی ہے۔وہی بےحیائی کی وجہ سے خاندانی نظام کا شیرازہ بکھرکر معاشرے کو جہنم زار بنادیتا ہے اور زندگیوں میں یاس و ناامیدی چھا جاتی ہے۔گو انسان جس قدر باحیاء بنے گا اتنی ہی خیر اس میں بڑھتی جائے گی۔
نبی کریم ﷺنے حیا کو ایمان کا ایک شعبہ قرار دیا ہے۔ اس سے معلوم ہوا کہ جس شخص میں شرم وحیا نہیں، گویا اس میں ایمان نہیں۔جس‌‌میں حیاء نہ ہو وہ ہرذلت وپستی میں گرنے کے لیے ہروقت آمادہ وتیار ہوتا ہے۔

حیاء احادیث کے تناظر میں:-
’’بے شک ہر دین کے لیے ایک خلق ہے اور اسلام کا (خلق) حیاء ہے۔‘‘ ( مشکوۃ)
حیاء ایمان سے ہے اور ایماندار جنت میں داخل ہوگا بے حیائی بد اخلاقی ہے اور بد اخلاق کا مقام دوزخ ہے۔‘‘ (بخاری)
’’ حیاء خیر ہی کی موجب ہوتی ہے۔‘‘ (مشکوۃ)
’’حیاء تمام کی تمام خیر ہے۔‘‘ (مسلم)
’’ حیاء ایمان کی شاخوں میں سے ایک شاخ ہے۔‘‘ (بخاری ، مسلم)
حیاءانسانی زندگی میں ایک ضروری حیثیت رکھتی ہے ۔ افعال میں ہو ، اخلاق میں ہو یا اقوال میں، جس میں حیاء کا جذبہ نہ ہو اس کے لیے ہر آن گمراہ ہونے کا خطرہ ہے۔

حیاء کی اقسام:
١)اللہ تعالیٰ سے حیاء :
یہ حیاء دین کی قوت اور یقین کی صحت سے حاصل ہوتی ہے۔
٢)لوگوں سے حیاء :
لوگوں سے حیاء کا مفہوم یہ ہے کہ ان کو تکلیف نہ پہنچائی جائے اور فضول بات پر دشمنی مول نہ لی جائے۔
٣)اپنے آپ سے حیاء :
اس کا مفہوم پاک دامنی اور تنہائیوں کی حفاظت سے پورا ہوتاہے یہ نفس کی فضیلت اور اچھی نیت سے حاصل ہوتی ہےاللہ تعالیٰ سے حیا پر رسول اللہ ﷺ کا ارشاد ہے:

’’لوگوں اللہ سے حیاء کرو اور حیا کا حق ادا کرو ، کسی نے آپ ﷺ سے سوال کیا یا رسول اللہ ﷺ ! ہم اللہ سے شرماتے تو ہیں ، آپ ﷺ نے جواب دیا یہ حیاء نہیں بلکہ دماغی تخلیات پر پورا قابو رکھا جائے قبر میں ہڈیوں کے گل جانے کا دھیان رہے ، پیٹ کو حرام سے بچایا جائے، موت کو ہمیشہ یادر کھا جائےجو شخص آخرت کا ارادہ رکھتا ہے دنیا کی زینت کو ترک کر دیتاہے جس نے یہ کام کئے اس نے درحقیقت اللہ کی حیاء کا حق ادا کر دیا۔‘‘ (ترمذی)
جب انسان میں تینوں طرح کی حیاء مکمل ہوگی تو اس میں خیر کے اسباب بھی کامل ہوجائیں گے اور برائی کے اسباب کی نفی ہوجائے گی۔ رسول اللہ ﷺ کا ارشاد ہے کہ ’’ حیاء سے فقط بھلائی ہی حاصل ہوتی ہے۔‘‘ (مسلم)
فحشاء حیاء کی ضد ہے ، جس سے فحش اور فحاشی کے الفاظ نکلے ہیں جس کا مطلب ہے : بے شرمی، بے حیائی، انتہا درجے کی بے غیرتی اور سرعام برائی اور نافرمانی کرنا۔
قرآن میں بے حیائی پھیلانے والوں کے بارے میں سخت وعید ہے ، اللہ سبحانہ و تعالیٰ کاارشادہے :
’’جو لوگ مسلمانوں میں بےحیائی پھیلانے کے آرزو مند رہتے ہیں ان کے لئے دنیا اور آخرت میں دردناک عذاب ہیں اللہ سب کچھ جانتا ہے اور تم کچھ بھی نہیں جانتے۔‘‘(سورہ النور۔۱۹)

تقویٰ اور حیاء کا تعلق :
’’تقوی‘‘ دل کے اندر اللہ کے خوف سے پیدا ہوتا ہے اور ظاہر اعمال پر اثر کرتا ہے اور ’’حیاء‘‘ تقوی کے زیر اثر( اللہ کا ، لوگوں کا یا اپنا) لحاظ رکھ کر اس کے سامنے شرمندہ نفس ہوکر دل کے اندر غلط کا م پر احساسِ ندامت سے بچنے کی خواہش اور کوشش کا نام ہے جو غلط کام سےروک دیتاہے۔
جتنا زیادہ تقوی ہوگا اتنی حیاء زیادہ ہوگی رسول ﷺ کا ارشاد ہے :
’’حیاء اور ایمان دونوں ایک ساتھ ہیں اگر ان میں سے ایک اٹھا لیا جائے تو دوسرا خود اُٹھ جاتاہے۔‘‘ (الحاکم)
حیاء اور ایمان اکھٹے کئے گئے ہیں پھر جب ان میں سے ایک اٹھ جاتاہے تو دوسرا بھی چلا جاتاہے۔ ( مشکوۃ)
قرآن میں مرد وعورت دونوں کو حیاء کا رویہ اپنانے کا حکم دیاگیا ہے۔قرآن میں کہا گیا:مسلمان مردوں سے کہو کہ اپنی نگاہیں نیچی رکھیں اور اپنی شرم گاہوں کی حفاظت کریں یہ ان کے لئے پاکیزگی ہے، لوگ جو کچھ کریں اللہ تعالیٰ سب سے خبردار ہے مسلمان عورتوں سے کہو کہ وہ بھی اپنی نگاہیں نیچی رکھیں اور اپنی عصمت کی حفاظت کریں اور اپنی زینت کو ظاہر نہ کریں ۔

اس میں مرد وعورت دونوں کو اپنی نگاہیں نیچی رکھنے کا حکم دیا گیا ہے کیونکہ مومن بے حیاء نہیں ہوتا اور ایمان والی عورت کا اصل زیورحیاء اور پردہ ہے۔
رسول اللہ ﷺ کا فرمان ہے :
’’ جس میں حیاء ہوگی اس میں ایک خاص قسم کی زینت ہوگی۔ ‘‘ ( ترمذی)
عورتوں کے لئے تمام ازواج مطہرات اور صحابیات حیاء کی بہترین مثال ہے اورمردوں کے لیے حیاء کی بہترین مثال آپ ﷺ کی ذات مبارک ہے اور سیدنا عثمان رضی اللہ عنہ کی مثال بھی ہے ۔ رسول اللہ ﷺ کا ارشاد ہے کہ
’’عثمان رضی اللہ عنہ شرم وحیا کے پیکر تھے۔‘‘ (بخاری ومسلم)

’’حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: ایمان کی ستر یا ساٹھ سے زیادہ شاخیں ہیں۔ ان میں سب سے افضل شاخ لاالہ الا اللہ اور کم تر شاخ راستے سے تکلیف دہ چیز کو ہٹا دینا ہے اور حیا بھی ایمان کا حصہ ہے۔
ایمان درحقیقت زبان سے اقرار اور دل سے تصدیق کا نام ہے۔ اس کی تکمیل اعمال وکردار سے ہوتی ہے۔ہر انسان فطری طور پر زیور حیا سے آراستہ ہوتا ہے۔ اس کے اندر خیر اور بھلائی کے کاموں سے محبت ، عفت وپاکدامنی کے جذبات، سخاوت وفیاضی اور انسانی ہمدردی کی بنیادی صفات موجود ہوتی ہیں۔حیاء کی بنیادی صفت بچپن ہی سے ہر انسان کے اندر ہوتی ہے، اگرچہ کچھ تفاوت ہوتا ہے۔

بعض افراد کے اندر یہ صفت بہت اُبھری ہوئی ہوتی ہے، جب کہ بعض کے اندر کمزور ہوتی ہے۔ انسان کے اندر جو فطری حیا ہے اسلام نہ صرف اس کو باقی رکھنے پر زور دیتا ہے بلکہ اس میں اضافے پر اُبھارتا ہے۔ اسلام تعلیم وتربیت اور تزکیہ نفس کا ایک محکم نظام دیتا ہے جس کو اختیار کرکے فرد اور معاشرہ میں حیا کا چلن عام ہوسکتاہےاوربے حیائی اور فحاشی کے امور سے حفاظت ہوسکتی ہے۔ وہ عبادات کا ایک محکم نظام دیتا ہے جس کے ذریعے حیا کو تقویت ملتی ہے۔ اسلام نظروں کو پست رکھنے اور عورتوں ومردوں کو اپنے ستر کے حصوں کو ڈھانکنے اور چھپانے کاحکم دیتا ہے۔ آزادانہ اختلاط مرد وزن پر پابندی عائد کرتاہے، بے حیائی اور بے شرمی کے کاموں پرسزاؤں کا اعلان کرتاہے۔ وہ ایسے قوانین دیتا ہے جن سے بے حیائی اوربے شرمی کے کاموں کو پروان چڑھنے کا موقع نہ مل سکے ۔سماج ومعاشرے میں خیر کے پروان چڑھنے کے لئے پوری طرح سے فضاہموار ہو قرآن مجید میں تمام انسانوں کو تقوی کا لباس اختیار کرنے کا حکم دیاگیاہے۔

تقویٰ کا لباس، اللہ کا تقویٰ اور اس کا خوف ہے جوشیطان کے وسوسوں اور اس کی چالوں سے آگاہ رہنے سے عبارت ہے۔ شیطان انسان کو اللہ کی نافرمانی اور بے حیائی کی دعوت دیتاہے، اس لئے اسلام جہاں ظاہری لباس زیب تن کرنے کاحکم دیتاہے وہیں ظاہروباطن میں ہر جگہ اللہ کاخوف رکھنے اور تقویٰ کالباس اختیار کرنے کا حکم بھی دیتاہے۔

جس طرح ظاہری لباس انسان کے لئے حفاظت اور ڈھال کا کام کرتاہے، اسی طرح تقویٰ کالباس بھی انسان کو ہلاکتوں اور گناہوں سے بچاتا ہے۔ اسلام نے جہاں ظاہری لباس سے سترپوشی کا حکم دیا ہے وہیں تقویٰ کا لباس اختیار کرکے بے حیائی اور بے شرمی کے کاموں اور باتوں سے بچنے کی تلقین کی ہے۔
اللہ تعالیٰ نے انسانوں کے اندر خیر وشر، بھلائی اور برائی دونوں طرح کے جذبات رکھے ہیں۔اللہ سبحانہ و تعالیٰ کا ارشاد ہے:
’’پھر اس پر اس کی بدی اور پرہیزگاری الہام کردی۔‘‘(الشمس:۸) یعنی نیکی اور بدی دونوں کے رجحانات اور میلانات رکھ دیئے ہیں۔ جس شخص کے اندر جو جذبہ اور رنگ غالب آجاتا ہے، اس کااثر اور رنگ اس کی شخصیت پر نمایاں طور پر دیکھا جاسکتاہے۔

حیا بھلائی وخیر کے جذبے کااظہار ہے۔ یہ ایک ایسی صفت ہے جس سے متصف ہونے پر انسان کامیلان خیر اور معروف کے کاموں کی طرف ہوتاہے۔ اور برے کاموں ومنکرات سے اسے نفرت ہوجاتی ہے۔ حیا سے خیر کی ہی اُمید ہوتی ہے۔ حیا پوری کی پوری بھلائی اور خیر ہے۔
اللہ تعالیٰ کے بے پایاں احسانات اور اس کی نعمتوں سے فائدہ اٹھا کر انسان کے اندر شکر کاجذبہ پروان چڑھتا ہے پھر ان نعمتوں کے چھین جانے کا خوف ہوتاہے تواللہ کی پکڑکا خوف، اللہ کی معرفت اور بندگی کا محرک ثابت ہوتے ہیں۔ بندہ خود کو اللہ کی بندگی اور اس کی غلامی میں دے دیتا ہے۔
چنانچہ ایمان خیروبھلائی ، اطاعت وفرماں برداری اور خدا کاہوکر رہنے کااعلان واعتراف ہے۔ اللہ کے ان انعامات اور احسانات کو دیکھ کر اس کی نعمتوں سے مستفید ہوکر، اللہ کی نافرمانی اور ناشکری کی روش اختیار کرتے ہوئے حیا اور شرم دامن گیر نہیں ہوتی ہے۔ جس خدانے اتنے کرم، اتنے احسانات پر غور وفکر کرکے اُس کی نافرمانی کرتے ہوئے انسان کا دل پسیج کررہ جاتا ہےاور حیا کی وجہ سے وہ ہر طرح کی بے شرمی کی باتوں اور کاموں سے باز رہتا ہے۔
حیا خیر اوربھلائی کے کاموں کا داعی اور شرومنکرات سے نفرت کا ذریعہ ہے۔ جس طرح ایمان ہر طرح کے خیر وبھلائی کا داعی اور برائیوں سے نفرت کاذریعہ ہے۔

حیا ایمان کاجز ہے۔ ایمان انسانی زندگی کا چراغ ہے اور حیا اس کی روشنی ہے۔ جس طرح چراغ اور روشنی لازم وملزوم ہیں اسی طرح حیا اور ایمان کا باہم رشتہ ہے۔ اس کی اہمیت کااندازہ اس سے لگایاجاسکتا ہے کہ انبیاء علیہم السلام کی تعلیمات میں حیاکا اعلیٰ مقام رہاہے۔

حیاء کے فوائد:
روایات میں حیاء کے بہت سے فوائد ذکر ہوئے ہیں خواہ وہ دنیوی ہوں یا اخروی، انفردی ہوں یا اجتماعی، نفسانی ہوں یا عملی ۔ان میں کچھ فوائد میں خدا کی محبت،عبادتوں میں لذت،عفّت اور پاکدامنی،گناہوں سے پاک ہونا،نرمی، مہربانی، ظاہر اورمخفی دونوں صورتوں میں خدا کو نظر میں رکھنا، سلامتی، برائی سے دوری، خندہ روئی، لوگوں کے درمیان کامیابی اور نیک نامی، یہ ایسے فوائد ہیں جنہیں عقلمند انسان حیا سے حاصل کرتا ہے۔
حیا انسان کو بے حیائی کے کاموں، نازیبا اور خلاف ادب باتوں اور حرکتوں سے روکتی ہے، اس لئے کہا گیا ہے کہ جب حیااور شرم نہیں تو انسان جو چاہے کرے۔ اس کو روکنے والی کوئی چیز باقی نہیں رہتی ہے۔

ان تمام ارشادات کوسامنے رکھتے ہوئے ہم موجودہ حالات کا جائزہ لیں کہ کس طرح ہمارے حیا و عفت والے معاشرے کو ایک سوچے سمجھے منصوبے کے تحت شرم و حیا سے عاری معاشرے میں ڈھالنے کی مذموم کوششیں کی جا رہی ہیں ، دن رات فلموں ، ڈراموں ، اخباروں ،حیا سوز لٹریچروں ،مغربی مخلوط تہواروں اور مخلوط طرزِ تعلیم کے ذریعے ہماری نوجوان نسل کو آوارگی کا درس دیا جارہا ہے۔ اگر ہم خاموش تماشائی بن کررہ گئے تو اپنے وقار و تہذیب سے محروم ہوجائیں گے۔ہمیں حیا ،پاکدامنی اور عفت کے لیے اہم کردار ادا کرنا ہے ، اس کا سب سے پہلا اور مؤثر مرحلہ یہ ہے کہ ہم خود اپنی ذات سے شروع کرکے خود کو حیا و پاکدامنی کے زیور ِحسن سے آراستہ کریں ، تبھی ایک پاکیزہ اور پرامن معاشرہ تشکیل پا سکتا ہے۔

اللہ سبحانہ و تعالیٰ نے انسان کو بنا کر یونہی بیکار نہیں چھوڑ دیا بلکہ اسے ایک کامیاب اور پرسکون زندگی جینے کے لیے جس طرح کچھ اصول بتادیئے ہیں جن کے تحت وہ خوشگوار اور پر سکون زندگی گزار سکتا ہے اور ان اصولوں کے ساتھ اس کی زندگی کی راحت جوڑ دی ہے جن سے انحراف کرکے وہ کہیں اطمینان نہیں پاسکتا، اسی طرح خدا نے انسانوں کو بے شمار فطری خوبیوں سے نوازا ہے جن میں سے ایک اہم خوبی شرم و حیا ہے، جو اسلامی تہذیب و تمدن کے لیے روح کی حیثیت رکھتی ہے اور اسی پر پاکیزہ معاشرے کی اساس اور بنیاد ہے۔جن قوموں اور معاشروں سے شرم و حیا رخصت ہو جاتی ہے وہ پستی اور ذلت کی اتھاہ گہرائیوں میں گرتے چلے جاتے ہیں ، وہ خوداور ان کی نسلیں تباہی و بربادی سے دوچار ہوجاتی ہیں۔

بد قسمتی سے ہمعصر دور میں ہمارے تعلیمی اداروں میں طالبات کو ابتدائی عمرہی میں حیا کے قیمتی زیور سے محروم کرنے کا اہتمام کیا جاتا ہے۔ذرائع ابلاغ نے لوگوں کا مزاج اس قدر بگاڑ دیا ہے کہ شرم وحیا پر مبنی لباس ہو یا ادب، کتاب ہو یا خطاب، اس معاشرے میں اجنبی بن کر رہ گئے ہیں۔

آج ہم شیطان کے حملوں کے سامنے ترنوالہ بن چکے ہیں۔ ہمیں اپنے دین وایمان، ملی تشخص اور دینی روح کو محفوظ کرنے کے لیے شرم وحیا کا کلچر عام کرنے کی یقینی کوشش کرنی ہے۔ہم اس نبی کی امت ہیں، جس نے حیا کو ایمان کا شعبہ قرار دیا اور خود زندگی بھر اس پر یوں کاربندرہے۔ ہمارے معاشرے میں خیروبھلائی اور ہماری زندگیوں میں حسن وخوبی اسی صورت میں پیدا ہوسکتی ہے کہ ہم اپنی ذات، گھر، اداروں، گلی محلوں، تقریبات اور ملبوسات، ہرچیز کو قرآن وسنت کی تعلیمات کے تابع کردیں۔ اس کام کا آغاز اگر ہم اپنی ذات اور گھر سے کردیں تو دیکھتے ہی دیکھتے اس کے اثرات پھیلنے لگیں گے اور یوں پورا معاشرہ معطّر ہوجائے گا۔

بقول شاعر:
حیاء نہیں ہے زمانہ کی آنکھ میں باقی
خدا کرےکہ جوانی تری رہے بے داغ

اللہ سبحانہ و تعالیٰ ہم تمام کو حیاء کے زیور سے آراستہ فرمائیں ۔آمین

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

error: Content is protected !!