خبریںعلاقائی

وادی میں رہنے والے تمام ہندو کشمیری پنڈت نہیں: جموں و کشمیر ہائی کورٹ

جسٹس سنجیو کمار نے کچھ ہندو گروپوں اور سکھوں کو کشمیری پنڈتوں کے لئے جاری کردہ وزیر اعظم ملازمت پیکیج میں شامل کرنے کے مطالبہ والی عرضی کو خارج کرتے ہوئے کہا کہ ٹارگیٹ گروپ ایک علیحدہ شناختی برادری ہے

سرینگر: جموں و کشمیر ہائی کورٹ نے اپنے ایک حالیہ فیصلے میں کہا ہے کہ وادی کشمیر میں رہنے والا ہر ہندو کشمیری پنڈت نہیں ہے اور ان مخصوص نوکری سکیموں کے فوائد حاصل نہیں کر سکتا، جن کا تعلق خصوصی طبقات کے ارکان سے ہے۔ جسٹس سنجیو کمار نے منگل کے روز کچھ ہندو گروپوں اور سکھوں کو کشمیری پنڈتوں کے لئے وزیر اعظم کے نوکری پیکیج میں شامل کرنے کے مطالبہ والی عرضی کو خارج کر دیا۔

جسٹس سنجیو کمار نے کہا کہ ٹارگٹڈ گروپ ایک علیحدہ شناختی برادری ہے جو وادی میں رہنے والے دیگر ہندوؤں جیسے راجپوتوں اور برہمنوں کے علاوہ کشمیری پنڈتوں، ایس سی، ایس ٹی اور دیگر افراد سے علیحدہ ہے۔ درخواست گزاروں نے استدلال کیا تھا کہ سکھ برادری کے علاوہ دیگر ہندو گروہوں کو بھی بہت زیادہ نقصان اٹھانا پڑا ہے اور انہیں غیر مہاجر کشمیری پنڈتوں کے فوائد کی طرح غور کرنا چاہیے۔

تاہم عدالت نے اس دلیل کو بے تکا قرار دیا کہ انہیں کشمیری پنڈتوں کے طور پر رکھا جا سکتا ہے اور کہا کہ اسے قبول نہیں کیا جا سکتا۔ انہوں نے کہا، ’’اس حقیقت سے انکار نہیں ہے کہ عام بول چال میں، کشمیری پنڈت کشمیری بولنے والے برہمنوں کی ایک برادری ہے جو وادی میں نسلوں سے رہ رہے ہیں اور ان کی شناخت ان کے لباس، رسم و رواج اور روایات سے واضح ہے۔”

سال 2009 میں اس وقت کے وزیر اعظم، منموہن سنگھ نے کشمیری تارکین وطن کی وادی کشمیر میں واپسی اور بحالی کی سہولت مقصد سے ایک پرائم منسٹر پیکج جاری کیا تھا۔ اس سکیم کے تحت مہاجر پنڈتوں کے لیے 6 ہزار سرکاری ملازمتوں کا اعلان کیا گیا۔ حالانکہ 4000 اسامیاں پہلے ہی پُر کی جا چکی ہیں، حال ہی میں جموں و کشمیر سروس سلیکشن بورڈ کی جانب سے 2000 کی تشہیر کی گئی تھی۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

error: Content is protected !!