ٹاپ اسٹوری

عمر گوتم کی گرفتاری شہریوں کی مذہبی آزادی پر شدید حملہ ہے: ملک معتصم خان

نئی دہلی: مولانا عمر گوتم اور مفتی قاضی جہانگیر عالم قاسمی کی حالیہ گرفتاریاں ایک اکیلا واقعہ انہیں ہے بلکہ مذہب یا عقیدہ کی تبدیلی کے حق کو ختم کرنے کے لئے پچھلے کچھ سالوں سے یوپی حکومت اور اس کی ایجنسیوں کی پالیسیوں ، قوانین اور سیاسی بیانیہ کے ذریعہ کی گئی منظم کوششوں کا نتیجہ ہے۔

اے پی سی آر کے جنرل سکریٹری ملک معتصم خان نے اس واقعے کو اس ملک کی شہریوں کی مذہبی آزادی پر حملہ قرار دیا۔ انہوں نے کہا ہندوستان کے آئین میں فراہم کردہ “مذہب کا آزادانہ اقرار، عمل اور تبلیغ  کا حق” ” مذہب یا عقیدہ کی تبدیلی کے حق” کی سب سے وسیع بیانات میں سے ایک ہے، جوکے انسانی حقوق کے عالمی منشور میں فراہم کردہ ایک انسانی حق بھی ہے۔ شفین جہاں بمقابلہ اسوکان کے ایم (“ہادیہ کیس”) میں عدالت عالیہ نے بھی مذہب یا عقیدہ  کی تبدیلی کے حق کو آرٹیکل 21( زندگی اور ذاتی آزادی کے حق) کے ایک پہلو کے طور پر تسلیم کیا ہے۔   

انہوں نے مزید کہا کہ “یہ حکومت کا آئینی فریضہ ہے کہ وہ ہر فرد کے  پسندیدہ مذہب یا عقیدے کو اپنانے کے حق کو فروغ دے اور اس کا تحفظ کرے لیکن اس کے برعکس حکومت ان حقوق  پر عمل کرنے پر پابندی لگانے کے لئے زیادہ بے چین اور جھکی ہوئی دکھائی دیتی ہے۔ کچھ ریاستی حکومتیں مذہبی تبادلوں کو مجرمانہ بنانے کے لئے ایسے قوانین لے کر آئیں ہیں ، جو مذہب کی تبدیلی کرنے والوں کے ساتھ نہ صرف معاندانہ رویے کو تقویت  دیتے ہیں بلکہ ہندوستان کے آئینی مینڈیٹ اور بین الاقوامی ذمہ داریوں کو بھی متاثر کرتے ہیں۔ یہ متنازعہ قوانین جبر کا آلہ کار بن چکے ہیں جو مساوات کو کمزور کرتے ہیں ، امتیازی سلوک کو فروغ دیتے ہیں اور سب کے لئے مذہبی آزادی سے انکار کرتے ہیں۔

انہوں نے یہ بھی کہا کہ میڈیا کو محض مفروضے اور شک پر مبنی رائے قائم کرنے اور بیانیہ مرتب کرنے سے باز رہنا چاہئے اور مجرم ثابت کرنے کے قانون کے اصول کی پاسداری کرنی چاہئے جو کہتا ہے کہ “ہر ملزم کو قصوروار ثابت ہونے تک بے گناہ  ہی سمجھا چاہیے” اور ان کی ملزمان اور ان کے  عقیدہ کے خلاف تہمت لگانے کی مہموں کو بند ہونا چاہئے۔

ایسوسی ایشن فور پروٹیکشن آف سول رائٹس درخواست کرتی ہے۔ تبدیلی مذہب پر پابندی کے ان خصوصی قوانین کو فوری طور پر منسوخ کرنا جو آئینییت کے امتحان میں بری طرح ناکام ہیں اور مبلغین اور ان ک مذہب پر مبنی جماعتوں کے خلاف ظلم و ستم اور نفرت انگیز جرائم کے بڑھتے واقعات  کے لئے  زمہ دار ہیں۔ دونوں ملزمان کے لئے ایک آزاد اور منصفانہ مقدمے کی سماعت اور تفتیش جس کی ضمانت آئین ہند کے آرٹیکل 14 اور 21  دیتے ہیں۔ معزز الہ آباد ہائیکورٹ  کو اس معاملے کا از خود نوٹس لینا اور ایف آئی آر کو ختم کرنا ہے جو یوپی اے ٹی ایس کے بے بنیاد دعوؤں اور مبالغہ آمیز الزامات  پر مبنی ہے۔ حکومت اور میڈیا مذہب تبدیل کرنے والوں کی رسوائی  بند کرے اور ان کے آئینی حقوق کے فروغ اور ان کی تائید پر زور دے ۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

error: Content is protected !!