جو یقیں کی راہ پر چل پڑے… انہیں منزلوں نے پناہ دی!
مولانا محمد عمرین محفوظ رحمانی
ہمارے آباء و اجداد کی ایک زریں تاریخ ہے کہ سخت ترین حالات، پریشان کن مشکلات اور ہمت شکن دشواریوں کے وقت بھی نہ تو انہوں نے صبر و عزیمت کی راہ چھوڑ ی، نہ باطل طاقتوں اور قوتوں کی بالادستی قبول کی، نہ وہ تیرہ وتار اندھیریوں کو دیکھ کر مایوس ہوئے اور نہ انہوں نے طاغوتی لشکروں کے سامنے ہتھیار ڈالے، بلکہ حالات کی سختی نے ان کے عزم و عزیمت اور ایمان و یقین میں مزید ضافہ کیا (وَمَازَادَھُمْ اِلَّااِیْمَانًا وَّ تَسْلیِمًا) اور باطل طاقتوں کے اجتماع نے انہیں ایمانی کیفیات کی بلندیوں پر پہنچا دیا، قرآن میں اہل ایمان کے لیے راہ عمل متعین کر دی گئی ہے، یہ واضح کر دیا گیا ہے کہ غلامانہ ذہنیت و کردار کے لوگ حالات میں گھر کر مایوس ہو جائیں گے، مگر ایمان و یقین کی راہ پر چلنے والے مصائب کی آندھی میں بھی مسکرائیں گے اور ظلم و جبر کے طوفان بلاخیز کے سامنے اس احساس کے ساتھ سد سکندری بن جائیں گے کہ
ہزار برق گرے لاکھ آندھیاں اٹھیں
وہ پھول کھل کے رہیں گے جو کھلنے والے ہیں
سخت سے سخت حالات میں بھی مسلمان پست ہمت نہیں ہوتا اس لیے کہ اس کا بھروسہ اپنی قوت بازو پر نہیں خد کی ذات پر ہوتا ہے اور سب سے بڑی طاقت ﷲ پاک کی طاقت ہے، ساڑھے چودہ سو سال پہلے ہمارے آقا ﷺ سخت پریشانی اور بے سرو سامانی کے عالم میں اپنے وطن مکہ مکرمہ سے با چشم نم نکلے تھے، غار ثور میں پناہ لی تھی، حالات بد سے بدتر تھے، آپ صلعم کے سر کی قیمت سو سرخ اونٹ متعین کی گئی تھی۔ یگانے بیگانے اپنے پرائے سب دشمن بنے ہوئے تھے، ایسے وقت میں جب تلاش کرنے والوں کے قدم غار ثور تک پہنچ گئے تو آقا کریم ﷺ کے جانثار ساتھی سیدنا ابو بکر صدیق ؓ پکار اٹھے ﷲ کے رسول! دشمن سر پر کھڑے ہیں جھک کر بھی دیکھ لیں گے تو ہمیں پالیں گے، آقا کریم ﷺ نے جو جواب دیا وہ صرف آپ ہی دے سکتے تھے لا تحزن إن ﷲ معنا غم نہ کرو، ﷲ ہمارے ساتھ ہے۔ حدیث میں ہے کہ آقا صلعم نے فرمایا: “ما ظنک باثنین ﷲ ثالثھما” ان دو کے بارے میں تیرا کیا خیال ہے جن کا تیسرا ﷲ ہے؟
حضور ﷺ کے عزم و حوصلہ اور ایمانی غیرت و حمیت کی خیرات جب امت میں تقسیم ہوئی تو کیسے کیسے باہمت اور جوانمرد انسان پیدا ہوئے، یاد کر لیجئے کہ مکتب میں تعلیم دینے والے ایک باغیرت مسلمان نے، جس کا نام عمر مختار تھا، جب اٹلی جیسی زبردست طاقت کے خلاف علم بغاوت بلند کیا اور اپنے وطن لیبیا کی حفاظت کے لیے میدان میں آیا تو بیس سال تک اٹلی کو لیبیا کے صحراؤں میں شکست فاش دیتا رہا، وہ باغیرت مسلمان کہا کرتا تھا: إن یکسر المدفع سیفی فلن یکسر الباطل حقی اٹلی والوں کی توپیں میری تلوار کو توڑ سکتی ہیں لیکن ان کا باطل میرے حق کو شکست نہیں دے سکتا۔
ہمارے وطن عزیز کی تازہ ترین صورت حال کے پیش نظر ہمیں اپنے اندر حوصلہ پیدا کرنا ہوگا، اپنے اندر عزم تازہ پیدا کرنا ہوگا کہ ہمیں اسی ملک میں رہنا ہے، اپنے دین وایمان کے ساتھ، توحید کی امانت کے ساتھ، ملک کی حفاظت اور سالمیت کی کوششوں کے ساتھ، سخت سے سخت ترین حالات میں بھی ہمیں امید کی شمع جلائے رکھنی ہے اور اس حقیقت کو ذہن میں رکھنا ہے کہ
دل ناامید تو نہیں ناکام ہی تو ہے
لمبی ہے غم کی شام مگر شام ہی تو ہے
مسلمانان ہند کو اپنا احتساب کرتے ہوئے، اعمال صالحہ کے راستے پر آگے بڑھتے ہوئے، صبر و استقامت کے ہتھیار سے لیس ہو کر ملک وملت کی تعمیر و ترقی کے لیے آگے آنا چاہئے، اور خوف و بزدلی کی ہر رمق کو دل سے نکال کر زبردست غالب اور طاقت و قوت کے مالک ﷲ پر بھروسہ کرنا چاہئے کہ وہی ظلمت شب کے پردوں کو چاک کر کے صبح روشن طلوع کرتا ہے اور جو چاہے جب چاہے کرنے کی قدرت رکھتاہے
جو یقیں کی راہ پر چل پڑے انہیں منزلوں نے پناہ دی
جنہیں وسوسوں نے ڈرا دیا وہ قدم قدم پر بہک گئے