محبت کا فروغ-اقتدارکامحتاج نہیں
محمد انور حسین، اودگیر
فاشسٹ نظریہ اپنی انتہا کو پہنچ رہا ہے ۔اس نظریہ کی کمزوری یہ ہے کہ اس کو باقی رہنے کے لیے اقتدار ناگزیر ہے اور وہ بھی نفرت کے ساتھ ۔
نفرت ایک ایسی صفت ہے جس کے ذریعے تعمیر کا نہیں بلکہ صرف تخریب کا کام لیا جاسکتا ہے ۔انسانیت کے ذریعے تعمیر کا کام تو ایک طویل مدت تک انجام پا سکتا ہے لیکن تخریب کا عمل قلیل مدت کے لیے ہوتا ہے ۔وہ تیزی سے آتا ہے اور تباہی مچا کر چلا جاتا ہے اور انسانیت اس سے بیزار ہونے لگتی ہے صرف چند نفرت پسند لوگ اس نفرت کی آگ کو جلاے رکھنے کا کام کرتے ہیں ۔نفرت تمام انسانوں کے دل کی آواز نہیں ہوتی بلکہ محبت، امن اور سکون انسانیت کی فطری آواز ہوتی ہے ۔موجودہ نفرت کی سیاست اپنی بقا کی لڑایی لڑ رہی ہے، یا تو اس کا climax آچکا ہے یا اس کے قریب ہے ۔اس کا ثبوت یہ ہے کہ امن پسند شہریوں کی ایک کثیر تعداد نفرت کے خلاف مورچہ سنبھالے ہوئے ہے ۔نفرت کے سوداگر امن پسندوں کو اپنی جایز، ناجایز طاقت سے دبانے کی کوشش کررہے ہیں یہ بھی ان کے انتہا کو پہنچنے کی دلیل ہے ۔
بقا اور دوام محبتوں کو حاصل ہے ۔محبت کا فرو غ کسی اقتدار کا محتاج نہیں ہوتا ۔وہ دل سے دل کا رشتہ جوڑ تا ہے ۔محبت جب پھیلتی ہے تو اوس و خزرج کے قبیلے بھی ایک ہوجاتے ہیں ۔موجودہ نفرت کے ماحول میں لوگوں کے پاس نفرت کے خلاف بولنے کے لیے تو بہت کچھ ہے محبت کے نام پر پیش کرنے کے لیے صرف سیکولر ازم ہے ۔
لیکن ہمارے پاس وہ پیغام محبت ہے جو دایمی ہے ۔اس وقت کمزور سیکولرازم فنا ہوتی ہوئی فاشزم کے ساتھ لڑایی کررہا ہے ۔اس کا نتیجہ ایک زبردست خلا کی صورت میں ظہور پذیر ہوگا ۔اس خلا کو پر کرنے کے لیے محبت کا پیغام صرف ملت اسلامیہ کے پاس ہے ۔
الیکشن کے نتایج کچھ بھی ہوں صورتحال یکسر بدلنے والی نہیں ہے اس کے لیے ایک طویل مدت تک اسلام کو ایک پیغام محبت اور کامیاب نظام زندگی کی حیثیت میں پیش کرنا ہوگا ۔
اب ووٹ دینے کے علاوہ بھی بہت کچھ دینا ہوگا اور ہمارے پاس دینے کے لیے بہت کچھ ہے ۔لیکن ہماری غفلت کہ جب دنیا کو سیکولرازم دیا جارہا تھا، اشتراکیت اپنا زور مار رہی تھی، فاشزم پنپ رہا تھاہم خوف اور مایوسی کے عالم میں جی رہے تھے، دنیا نفرت پھیلارہی تھی اور ہم پیغام محبت کا نام بھی نہیں لے رہے تھے ۔شاید اسی لیے کہہ رہے تھے ۔۔۔
ابھی نہ چھیڑ محبت کے گیت اے مطرب
ابھی حیات کا ماحول خوش گوار نہیں
لیکن ناخوشگوار ماحول کو خوشگوار تو صرف محبت ہی بنا سکتی ہے ۔اس ملک میں امن اسلام کے ذریعے ہی آسکتا ہے اور اس کو پہنچانے کی ذمہ داری اب ہماری ہے ۔اسلام دل سے بات کرتا ہے دلوں کے رشتہ کو خدا سے اور اس کے بندوں سے جوڑتا ہے ۔اس میں نفرت کو کوئی جگہ نہیں ہوتی، اس میں انسانیت کی تکریم ہوتی ہے اور انسانیت حقیقی فلاح سے ہمکنار ہوتی ہے ۔
ہمارے بزرگ ،علماء، دانشور سب اس بات پر اتفاق رکھتے ہیں کہ اس ملک میں ملت کی بقا صرف اسلام کی دعوت میں موجود ہے ۔لیکن عملاََ ہم اس عمل سے کافی دور ہیں ۔ دعوت دین ہماری شناخت نہیں بن پارہی ہے ۔لیکن اب وقت آچکا ہے کہ دعوت کا کام ہماری تحریک بن جانا چاہیے ۔اس ملک میں قول وعمل، کی شہادت ہی ہمیں وہ مقام، عطا کرسکتی ہے جو ہمارا اصل مقام ہے ۔اس ملک، میں ہزاروں قسم کے لوگ رہتے ہیں۔ ان کو خدا کے حقیقی پیغام سے ہمکنار کرواناہمارا اولین کام ہونا چاہیے ۔ معذرت کے ساتھ چاہے ریزویشن مل جاے، سیاسی پارٹیاں بن جاییں، ایوانوں تک ہماری رسائی ہوجاے، لیکن یہ سب کچھ عارضی ہوگا ۔۔۔
دعوت دین کو تحریک بننے کے لیے بھی ایک زبردست تحریک چلانی ہوگی۔ جس گرمجوشی کے ساتھ ووٹر لسٹ میں نام شامل کرنے کی کوشش کی گی، جس مستعدی کے ساتھ ووٹوں کے استعمال سے متعلق بیداری لایی گیی ،جس حرارت کے ساتھ پچھلے دنوں ہم نے ریزرویشن کے جلوس نکالے، اس سے بھی زیادہ گرمجوش کے ساتھ دعوت اسلامی کے کام کے لیے پوری قوم کو کمر بستہ ہوجانا چاہیے ۔جس طرح ووٹ سے متعلق بیداری لانے کے لیے ہر کس و ناکس ،ہر عالم و فاضل اور دانشور سامنے آکر بیداری پیدا کرنے کی کوشش کر رہا ہے اسی طرح ہمارے عالم ،فاضل اور دانشوران حضرات کو دعوت اسلامی کی اہمیت پیدا کرنے کرنے کے لیے دلچسپی دکھانی پڑے گی ۔ موسمی قیادت اور موسمی رہنمائی سے آگے اس ملت کو اس کا حقیقی منصب یاد دلاتے ہوئے ایک لانگ ٹرم وژن پیش کرنا ہوگا ۔اگر علماء و مدارس ،مختلف چھوٹی بڑی جماعتیں، مقررین و مصنفین سب مل کر صرف ایک نعرہ دیں کہ ہماری امت کو داعی امت بن جانا چاہیے ۔ہمارے جمعہ کے خطبات مسلسل اسی اہمیت پر ہوتے رہیں ۔ہمارے جلسہ، ہمارے اجتماعات، ہمارے ڈسکشن، ہماری کانفرنسیس اور ہماری تحریر و تقریر اس بات پر منحصر رہے کہ ہمیں ملت اسلامیہ ہندکے مسمانوں میں نہ صرف دعوت دین کی اہمیت بتانا ہے بلکہ وہ تڑپ بھی پیدا کرنی ہے جو حضورصلی اللہ علیہ وسلم اور ان کے ساتھیوں میں پایی جاتی تھی ۔ذرا عروج کی تاریخ بھی دیکھ لیجیے کہ کالی کٹ پر آنے والے اور سندھ کے راستہ آنے والے کتنے پر امید رہیں ہونگیں شاید انھیں اس بات کا اندازہ بھی نہ رہا ہو کہ چند لوگوں کی کوششوں سے اس ملک میں آج تقریباً بیس کروڑ انسانوں کے دلوں میں توحید کی شمع روشن ہے ۔
موجودہ حالات نئی امیدوں کو جگا رہے ہیں ۔اس لیے اس پیاسی اور حق کی متلاشی انسانیت کو دعوت دین کے چشمہ سے سیراب کرنے کے لیے ملت کے ہر فرد کو آگے آنا پڑے گا ۔
علماء اکرام ،خطیبان ،مصنفین اور مختلف جماعتیں مسلسل دو سال تک پوری تندہی سے ملت کے افراد کو دعوت دین کے لیے تیار کریں تو اگلے تین سالوں میں ہماری حمایت کرنے والوں، ہماری بات سننے والوں کی تعداد میں خاطر خواہ اضافہ ہوسکتا ہے ۔
اس کا دوسرا بڑا فایدہ یہ ہوگا کہ ہم آپسی مناظرہ بازی سے بچ جاییں گے ۔دعوت دین کی راہیں ہمارے اندر عاجزی و انکساری پیدا کرے گی ۔دعوت دین کے لیے حکمت ضروری ہے، جب پوری قوم اس راہ پر چلنا شروع کردے گی تو ہماری متاع گمشدہ بھی ہم کو مل جائے گی ۔
دعوت دین کے جذبہ سے سرشار ہونے کے بعد ہمارے شوشل میڈیا کے لکھاری بھی اسلام کو مدلل انداز میں پیش کرنے کے لیے اپنے حرف و قلم کو جنبش دیں گے ۔
"جو لکھیں گے تپاک جاں سے لکھیں گے”
ہمارے یو ٹیوب قایدین بھی جب دعوت دین کی بات کریں گے تو اسلام کا رحمت، امن اور محبت کا چہرہ سامنے آیے گا ۔
ان تمام کوششوں کے نتیجہ میں برادران وطن کی اسلام سے متعلق غلط فہمیاں دور ہونگیں ۔اور عین ممکن ہے کہ اللہ ان کے دلوں کو نرم کردے گااور ہدایت سے نوازے گا ۔۔
” یہ چمن معمور ہوگا نغمہ توحید سے”