اترپردیشریاستوں سے

میوات: ہجومی تشدد میں جاں بحق آصف خان کے اہل خانہ سے SDPI وفد نے کی ملاقات

نئی دہلی: 20/جون (پی آر) سوشیل ڈیموکریٹک پارٹی آف انڈیا (ایس ڈی پی آئی) قومی نائب صدر اڈوکیٹ شرف الدین احمد کی قیادت میں پارٹی کی ایک وفد نے میوات میں ہجومی تشدد میں جاں بحق ہوئے آصف خان کے اہل خانہ سے ملاقات کی، ان سے تعزیت کا اظہار کیا اور اس معاملے کی تفصیلی جانکاری حاصل کی۔ایس ڈی پی آئی کے قومی نائب صدر اڈوکیٹ شرف الدین احمد نے اپنے جانچ رپورٹ میں کہا ہے کہ 27سالہ آصف خان باڈی بلڈر اور ٹرینر کے طور پر جانا جاتا تھا۔ وہ ہریانہ کے میوات، نوح میں جم چلارہا تھا۔ پانچ مختلف گاؤں سے تعلق رکھنے والے اغوا، بھتہ خوری اور تشدد کے گھناؤنے جرائم کے ریکارڈ رکھنے والے ایک درجن سے زائد افراد کے گینگ نے مبینہ طور پر قتل کے منصوبے پر عمل درآمد کرتے ہوئے آصف خان کو اغوا کیا تھا۔

ان کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ وہ پر اسرا ر طور پر ایسی جگہ پر جمع ہوئے تھے جہاں سے آصف خان 16مئی 2021کی شام آٹھ بجے دوائیوں کی خریداری کے بعد سوہنا سے اپنے گاؤں کھیرا خلیل پور گھر واپس جارہا تھا۔ آصف خان ایک سینٹرو کار چلا رہا تھا، اس کے ساتھ اس کا کزن 23سالہ راشد خان اور 25سالہ ہمسایہ آصف بھی تھا۔ جسے اتفاق سے واپسی کے سفر میں لفٹ دی گئی تھی۔ سوہنا چھوڑنے کے بعد انہیں راستے میں روک کر جان لیوا حملہ کیا گیا۔

اگرچہ اصل نشانہ آصف خان تھا لیکن گاڑی کے اندر پائے گئے دیگر افراد پر بھی حملہ کیا گیا۔ اکیلئے آصف کو زبردستی حملہ آوروں نے ان کی اسکارپیو کار میں منتقل کیا اور دور دراز جنگل کے ایک علاقے میں لے جایا گیا جہاں اسے دوبارہ پیٹا گیا اور لاٹھیوں، لوہے کی سلاخوں اور دیگر ہتھیاروں سے جان سے مارا گیا۔ اس کی انگلیوں، بازوؤں، ٹانگوں اور پسلیوں میں متعدد فریکچرہوئیں۔ یہاں تک کہ اس کے چہرے کو نقصان پہنچا اور اس کی شکل خراب ہوگئی۔ جب حملہ آور آصف خان کو پیٹنے میں مصرو ف تھے اسی دوران اس کے دو ساتھی وہاں سے فرار ہوگئے۔ انہوں نے حملے اور آصف خان کے اغوا کے بارے میں اہل خانہ کو آگاہ کیا۔ اہل خانہ نے علاقے کی پولیس کو اطلاع دی لیکن وہاں سے گذرنے والے ایک راہگیر کی اطلاع پر آصف خان کی نعش کو سوہنا کی پولیس نے اسی رات قریب دس بجے موقع سے برآمد کیا۔ ایف آئی آر میں 14ملزمان کا نام درج کیا گیا تھا اور اس کے بعد ان میں 11کو گرفتار کرلیا گیا تھا۔

بی جے پی قائدین نے اس علاقے کے ایم ایل اے کنور سنجے سنگھ کی سربراہی میں دیہاتوں میں کئی ایک میٹنگس کا انعقاد کرکے فرقہ وارانہ اقدامات شروع کئے اور ملزموں کی حمایت میں فرقہ وارانہ ماحول کو فروغ دیا۔ 23مئی کو ایک مہا پنچایت طلب کی گئی تھی جہاں کرنی سینا کے صدر سورج پال سنگھ امو کو مہمان خصوصی بنایا گیا تھا۔ سورج پال سنگھ نفرت انگیزاور متشدد بیانات دینے کیلئے بدنام ہے۔ غیر قانونی طور پر جمع مقررین نے اپنی تقاریر سے فرقہ وارانہ زہر پھیلایا جو سی آر پسی سی کی دفعہ 144کی مکمل خلاف ورزی ہے۔ مہا پنچایت میں ہوئی تقاریر کی ویڈیوز کو بڑے پیمانے پرپھیلایا گیا۔ مقررین نے دھمکی دی تھی کہ اگر ملزمان کو غیر مشروط طور پر رہا نہیں کیا گیا تو پولیس تھانہ اور پولیس چوکیوں کو آگ لگادی جائے گی۔ انتظامیہ اور پولیس پر اس قدر دباؤ اور خوف و ہراس کیا گیا کہ چار ملزمان بغیر کسی عدالتی کارروائی کے فوری طور پر جیل سے رہا ہوگئے۔

پولیس نے بتایا کہ وہ بے گناہ ہیں۔ پسماندہ طبقے سے تعلق رکھنے والی ذات گجروں کی مسلمانوں کے خلاف کوئی تاریخی دشمنی نہیں ہے۔ وہ صدیوں سے کسی بڑی شکایت کے بغیر دہلی اور آّس پاس کے آبادی میں رہ چکے ہیں اور دہلی اور اس کے آس پاس زمین والی جائیدادوں سے لطف اندوز ہورہے ہیں۔ سنگھ پریوار نے اپنی دشمنی پوری کرنے کیلئے حال ہی گجر ذات کو میدان میں اتارا تھا اور دہلی میں فروری 2020میں ہونے والے فسادات کے دوران ان کے کردار کا مشاہدہ کیا گیا تھا۔ میوات جہاں مسلمانوں کی آبادی 85%فیصد ہے۔ انہیں لنچنگ اور دیگر مجرمانہ حملوں کے متعدد واقعات کا سامنا رہا ہے۔ آصف خان پر حملے میں مبینہ طور پر گجر بھی شامل تھے۔ دوسرے معاملات کی طرح مسلمان پر بھی اجتماعی ٹارگٹ حملے کو بعد میں فرقہ وارانہ پولرائزیشن کی طرف موڑ دیا جاتا ہے اور اس مجرمانہ حرکت کو ہندوتوا سے جوڑ کر افراد اور تنظیموں کو بہادری کا خطاب دیا جاتا ہے۔

چار ریاستوں ہریانہ،راجستھان،یوپی اور دہلی میں منقسم میوات میں اجتماعی طور پر منصوبہ بند اور سیاسی طور پر حوصلہ افزائی پانے والے قاتلانہ حملوں کے واقعات اور تقریبا ہر مجرمانہ معاملے میں انصاف ملنا مشکل نظر آتا ہے۔ میؤ افراداور میوات خطے کو شرارتی طور پر صدیوں سے ترقی کے بنیادی حقوق سے انکار کیا گیا تھا جو اسے ملک کی ایک انتہائی پسماندہ علاقے میں شمار کرتا تھا لیکن میؤ لوگوں کو لگتا ہے انہیں حال ہی میں متعدد شکلوں میں تشدد برقرار رکھنے کیلئے چن لیا گیا ہے۔پہنہانہ کا ایک ذہین جوان جنید بھی 12مئی کو مبینہ طور پر پولیس کے تشدد کا شکار ہوگیا تھا۔ نفرت اور تشدد اور امتیازی سلوک کے کسی بھی معاملے میں کھبی بھی میواتیوں کو انصاف فراہم نہیں کیا گیا ہے۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

error: Content is protected !!