قرض کی پیتے تھے مئے
محمد جعفر پونہ
مثل مشہور ہے، جتنی چادر ہو، پاؤں اتنے ہی پھیلانے چاہیے. مگر لوگ، اندھا دُھند، آرام، عورت دولت اور آسائشوں کے پیچھے بھاگتے چلے جاتے ہیں۔ ان کو سمجھاؤ تو سمجھتے نہیں اور اپنے ہٹ دھرمی سے، اپنی اور اپنے گھر والوں کی زندگی خُود برباد کرتے ہیں، اور انہیں اس بات کا احساس تک نہیں ہوتا۔ جو کھوگیا اسے پھر سے پانے کی آرزو میں، بیقرار رہتے ہیں.
یہ اُن دنوں کی بات ہے، جب میرا ٹرانسفر کارپوریٹ ریکوری میں ہوا تھا. مجھے تین سو نان پرفارمنگ اکاؤنٹ، دئے گئے تھے. جن سے پیسہ وصول کرنا تھا. ہر ڈیفالٹر کی اپنی ایک الگ کہانی تھی. البتہ ایک بات اُن سب میں مُشترک تھی. انہوں نے زندگی کو اپنی مرضی اور اپنے Terms پرجیا اور یہ نہیں سوچا کہ اُس اُدھار کی زندگی اور شاہانہ طرز کا ایک دن، انہیں حساب دینا ہوگا. قرضوں کا بوجھ، جب حد سے زیادہ ہوجائے تو انسان ڈپریشن کا شکار ہوتا ہے. مگر جو اپنے بزنس کو ڈبو کر پھر سے، عروج پر لے آئے ایسے لوگ، بہت کم ہوتے ہیں. ایسے ہی ایک شخص کی مثالی کہانی، آپ کے ساتھ شئیر کررہا ہوں.
اپنے آخری انسٹالمیینٹ کی ادائیگی کرتے ہوئے ابو عمّار (نام تبدیل کیا گیا ہے ) نے، اپنی کہانی مُجھے جو سُنائی تھی، اسےمن وعن آپ لوگوں کو سُنا رہا ہوں .
اپنے باپ کے مرنے کے بعد، کاروبار کی باگ ڈور، جب اُس کے باتھ آئی تو مُفت کے سنگی ساتھی بھی زندگی کا مزہ لوٹنے، اُس کے ساتھ ہولئے. دعوتیں دینا اور ان کے ساتھ پارٹیوں میں جانا، عادت بن گئی تھی. اُس کے بیوی کی اپنی شوشل لائف تھی اور بچوں کے الگ الگ شوق. ایک بھائی تھا، جسے اس نے لندن پڑھنے بھیجا تھا، اُس کے الگ ٹھاٹ باٹ تھے. اُن دنوں رُوسیوں کی دبئی میں آمد آمد تھی. بزنس حلقوں میں تہلکہ مچا ہوا تھا. ابو عمّار نے بھی اپنے بزنس کو بڑھانے کے لئے، بنکوں سےکریڈٹ پر کافی پیسہ اُٹھایا، منافع کمانے کے بعد قرض کی ادائیگی بھی ہوگئی.
اب کم وقت میں زیادہ منافع کمانے کا چسکہ اُسے لگ گیا تھا. اوپر سے رُوسیوں کے لاتعداد آرڈرز ملنے پر، ابو عمّار نے بنک سے چار گنا زیادہ قرض مانگا اور پچھلے ریکارڈز کی بُنیاد پر اماؤنٹ سینکشن بھی ہوا، مگر سُود کی شرح بڑھا دی گئی. اس کی ایما پر، بنک نے لیٹرز آف کریڈٹ کھولے اور باہر سے مال کی شپمینٹ بھی ہوگئی.. مگر اُس نے یہ نہیں سوچا کہ اگر رشیئن نہیں آئے توکیا ہوگا؟ بزنس ہاتھ سے نکل نہ جائے، اس وجہ سے اُس نے ایڈوانس وغیرہ بھی نہیں لیا تھا. رُوسی بھی کائیاں نکلے، اپنے آرڈرز کی لاگت کو مزید کم کرنے اور زیادہ منافع کمانے کے چکر میں، دبئی کے بجائے انہوں نے بنکاک، سنگاپور اور کوریا کا رُخ کیا اور ابو عمّار جیسے لوگوں کے منصبوں پر پانی پھیر دیا. ابو عمار کا مال، بیرون ملک سے آکر گودام میں پڑا رہا… مگر رئشین گاہکوں کا انتظار بے سود ہی رہا.
بنک ہو یا سُودخور بنیا، یہ کسی کے نہیں ہوتے. انہوں نے تقاضوں کا سلسلہ شروع کیا اور اُن کی ادائیگی کے لئے ابوعمّار کو، اپنے اثاثے اونے پونے دام بیچنا پڑے، پھر بھی وہ بنکوں کا پورا پیسہ ادا نہ کرپایا.کُچھ عرصہ تک ابو عمّار نے ٹال مٹول سے کام لیا، مگر ایک دن بنک نے قانونی کارروائی کی اور وہ جیل کی سلاخوں کے پیچھے، شب وروز روتا رہا. وہ جو دوستوں کے شوق اُٹھایا کرتا تھا، اُس کی ضمانت تک کسی نے نہیں دی سوائے اُس ہستی کے جسے لوگ ماں کہتے ہیں. اُس نے اپنے شوہر کی بچی پُونجی اور نجی زیورات بیچ دئے اور اپنے لخت جگر کو اپنے گھر لے آئی.
أبوعمّار اُس قُربانی کو سمجھ نہ پایا. ڈھاک کے تین پات، پھر سے وہی زندگی اور موج میلے. اس بار کریڈٹ کارڈز نے اُس کی زندگی میں بحران لایا. چھ ماہ کے بعد جب آسمان دیکھنا نصیب ہوا تو چودہ طبق روشن ہوئے. کافی لوگوں کے ہاتھ پاؤں جوڑے، زکاة مانگی. لوگوں نے اِس شرط پر اُس کی مدد کی کہ وہ اپنی ماں، بھائی اور بیوی بچوں کو واپس اپنے وطن بھیج دیے. مرتا کیا نہ کرتا اُسے اقرار کرنا پڑا.. قرابت داروں نے مل کر بنک سے بات چیت کی، اور ایک سیٹلمینٹ اماؤنٹ پر راضی ہوگئے. انہوں نے مل کر، بنک کے آدھے پیسے ادا کئے اور پھر انہوں نے، ابو عمّار کے فیملی کو بالآخر بذریعہ ائیر، الجیریا بھیج دیا.
انہی میں سے ایک شخص نے اُسے، اپنے فرم میں مارکیٹنگ کی جاب آفر کی اور اُس کے ماہانہ تنخواہ میں سے تین حصے مُتعین کئے۔ ایک بنک کا قرض، دوسرے فیملی فنڈ اور تیسرے مّد میں اُس کا شخصی خرچ. اب اسے غلطی کا احساس ہوا. اللہ سے معافی مانگتا رہا اور اپنے جاب میں محنت اور ترقی بھی کرتارہا.دس سالوں میں اُس نے تمام قرض ادا کئے اور سکون کی سانس لی. اپنے آپ کو اور اپنی فیملی کو ڈپریشن سے باہر لے آیا،
آج بھی وہ کاروبار کرتا ہے، مگر اب اس کا طریقہ کار بدل گیا ہے. اب وہ کاروبار میں کتنا فیصد نقصان برداشت کرسکتا ہے، اس کو مقدم رکھتا ہے. زیادہ کی لالچ نہیں کرتا. ہر دن منافع سے زکوات نکالتا ہے اور اللہ تعالیٰ کا شکر ادا کرتا ہے.
ابو عمار، جیسے کئی لوگ ہمارے درمیان ہے، جو اپنی غلطیوں اور خامیوں کی وجہ سے، بنک کے مقروض ہوگئے۔ دنیا ہو یا آخرت، قرض معاف نہیں ہوتا. توفیق کی بات ہے. غیرت مند شخص قرض ادا کرنے کے لئے اپنے بجٹ کو محدود کرکے، چھوٹے گھر میں رہ کر بھی قرض کی لعنت سے جلد از جلد چُھٹکارا پانے کی کوشش کرتا ہے۔ اس کے برخلاف عیاش اور لاپرواہ شخص، قرض کتنا چڑھا ہے، اسکی پرواہ نہیں کرتا بلکہ مزید قرضے کے سہارے اپنی شخصی عیاشیوں کو جاری رکھتا ہے.
اللہ تعالیٰ ان لوگوں کو سمجھ بوجھ دے کہ قرض بری بلا ہے. توفیق ملے تو، ان جیسےلوگوں نے مالیاتی قرضوں کے مسائل اپنے لوگوں کے سامنے رکھنے چاہیے اور انہی کے مشورے سے، جن سے قرض لیا ہو، چاہے شخصی ہو یا بنک والے، ان سے بات چیت کرکے قرض کم کرانے کی کوشش کرنی چاہیے. پھر سیٹلمینٹ اماؤنٹ پر راضی ہوکر، ایسی قسط ادا کرنی چاہیے، جو وہ بھرسکے. ہوسکے تو اپنوں اور بیگانوں سے، اورخیراتی اداروں سے زکوۃ مانگ لیں اور اپنے اپنے قرضوں کی ادائیگی کرتے رہیں. اللہ تعالیٰ سے دعائیں مانگتے رہیں. نیت اور اعتقاد صحیح ہو تو، جلد ہی ان کو اپنے اپنے، قرضوں سے گلوخاصی مل جائے گی.. انشاءاللہ