الیکشن2019علاقہ کلیان کرناٹککرناٹک کے اضلاع سے

ہم جمہوریت کو ڈکٹیٹرشپ میں بدلنے کا موقع نہیں دیں گے: غلام نبی آزاد

گلبرگہ: 21 اپریل (اے این ایس)آج ملک ایک بڑے ہی نازک دور سے گزر رہا ہے ایک بہت خوفناک دور ہے ملک کی تباہی اور بربادی کا دور ہے اور اس دور میں ہمارے ملک کے سبھی طبقوں سے تعلق رکھنے والے بھائی بہن نوجوان بزرگ اگر کی گہرائی میں نہیں جائیں گے تو شاید ہم سب مل کربہت زیادہ نقصان اٹھائیں گے۔ یاد رہےہمارے بزرگوں نے آزادی حاصل کرنے کے لیے مختلف قربانیاں جانوں اور مالوں کی بھی دی ہیں لیکن اسی جمہوریت کو بچانے کے لیے ہم جمہوریت کو ڈکٹیٹر شپ میں بدلنے کاکبھی موقع نہیں دیں گے، چاہے ہمیں اس کے لیے اپنے خون کی بازی کیوں نہ لگانی پڑ ے۔ کانگریس جمہوریت اور سیکولرزم کی بقا کے لیے اس لڑائی کو جاری رکھا ہے اس میں عوام کے ساتھ کی ضرورت ہے۔ ان خیالات کا اظہار اپوزیشن لیڈر راجہ سبھا غلام نبی آزاد نے گلبرگہ میں ملکار جن کھرگے کے لیے چلائی جانے والی ایک انتخابی مہم کے جلسہ عام کو مخاطب کرتے ہوئے کیا۔

انہوں نے اپنے بیان میں مزید کہا آزاد ھندوستان میں مختلف سیاسی پارٹیوں کے وزیر اعظم چن کر آئے تقریبا چھ سے زائد وزیراعظم کانگریس سے تعلق رکھتے تھے، لیکن ہمارے کانگریس کے وزرائے اعظم کے دور میں ہم نے کبھی ملک کو بانٹنے کی کوشش نہیں کی۔ ہمارے لیڈروں نے ملک کی تعمیراور بہبود کے لئے سلامتی کے لیے روزگار اور اناج کی پیداوار کے لیے ہزاروں فیکٹریاں لگائیں، بجلی پیدا کرنے کے لیے سینکڑوں پروجیکٹوں کا آغاز کیا۔آج مودی صاحب کہتے ہیں کہ انہوں نے اٹھارہ ہزار دیہاتوں کو بجلی دی گئی، کانگریس کے دور اقتدار میں ہم نے لاکھوں دیہاتوں کو بجلی فراہم کی تھی۔

شہیدوں کے نام پر ووٹ مانگنے کی سیاست پر کڑی تنقید کرتے ہوئے کہاکانگریس کے دور اقتدار میں بھی ہم نے چین اور پاکستان پر حملے کیے لیکن اس کے نام پر کبھی بھی انہوں نے اپنا ذاتی طور پر ووٹ نہیں مانگا۔اور یہ بھی ہے کہ لیکن کسی بھی غیر کانگریسی وزیراعظم نے ووٹ لینے کے لیے اپنے دیش کی جنتا کو دھرم اور مذہب اور ذات کی بنیاد پر نہیں پانٹا،لیکن بد قسمتی یہ ہے کہ آج کی مرکزی حکومت اور موجودہ وزیر اعظم بانٹنے کا کام کر رہے ہیں۔ مودی صاحب کسی مظلوم کے ساتھ اور کروڑوں بے روزگار نوجوانوں کے بارے میں کبھی نہیں بولتے۔ان کے ان وعدوں کا کیا ہوا جو انہوں نے اپنے دور اقتدار میں آنے سے پہلے بڑے بڑے وعدے کیے تھے کوئی ایک وعدہ بھی پورا کرنے میں کامیاب نہیں ہو سکے۔اس لئے آج بہت حرم اور نفرت کی سیاست پر اتر آئے ہیں۔

اس موقع پر انہوں نے سری لنکا میں ہوئے سلسلہ وار بم دھماکوں کے مذمت کرتے ہوئے کہا کہ چاہے دہشت گرد کسی بھی مذہب سے تعلق رکھتا ہو حقیقت یہ ہے کہ ان کا کوئی مذہب نہیں ہوتا اور ہم اس کی سختی کے ساتھ مذمت کرتے ہیں۔

انہوں نے اپنے بیان میں مزید کہا ہم جانتے ہیں کہ ہمارے دستور میں میڈیا کو آزادی ہے لیکن آج ہمارے ملک میں کہیں بھی میڈیا کو آزادی ہم محسوس نہیں کرتے، دستور ہمیں بولنے کی آزادی دیتا ہے لیکن آج بولنے کی آزادی پر بھی روک لگایا جا رہا ہے

انہوں نے اپنے بیان میں اس بات کا اعادہ کیا کہ یہ دھرم کی لڑائی نہیں ہے بلکہ یہ سیاسی لڑائی ہے مذہب ایک الگ چیز ہے چاہے وہ ہندو دھرم اور اسلام یا پھرکوئی اور مذہب ہم سبھی مذہب کی عزت کرتے ہیں۔ ایسا ہی ایک سیاسی مذہب بھی ہوتا ہے اور وہ دھرم کی کتاب ہمارا اپنا دستور ہے، اب یہ دستور خطرے میں ہے یہ بی جے پی والے اس دستور کو نہیں مانتے، جس کا انہوں نے مختلف موقعوں پر اظہار بھی کیا ہے۔ اور یہ لڑائی صرف ملیکارجن کھرگے کوجتانے کے لئے نہیں ہے بلکہ ہندوستان کے دستور کو بچانے کے لیے یہ ہندوستان کے سیکولرزم کو بچانے کی لڑائی ہے۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

error: Content is protected !!