2019 الیکشن اور ملک کا مستقبل
شبیع الزماں (پونہ)
ہندوستان میں انتخابات ہوتے رہتے ہیں اور سرکاریں بدلتی رہتی ہیں۔ عام طور پر سرکار اس لیے چنی جاتی ہے کہ اگلے پانچ سالوں میں ملک کا نظم و نسق کون سنبھالے گا۔ ملک کی معاشی پالیسی کیا ہوگی۔ بےروزگاری،غربت اور ملک کے دیگر مسائل سے سرکار کیسے نپٹے گی۔ ترقی کی رفتار کیا ہوگی وغیرہ۔ عمومی طور پر انہیں بنیادوں پر الیکشن ہوتے ہیں۔
ہندوستان کے اس دفعہ کے الیکشن اس لحاظ سے اہم ہیں کہ یہ الیکشن ناصرف ملک کے نظم و نسق اور ترقی کو طئے کریں گے بلکہ یہ بھی طئے ہوگا کہ ہندوستان سیکولر جمہوری ملک کی حیثیت سے باقی رہے گا یا فاشزم کی بھینٹ چڑھ جائے گا۔
اس سوال کو لیکر ہندوستان کے سبھی ذی فہم اور سنجیدہ لوگ پریشان ہیں۔
ملک کی تقسیم کے بعد ہندوتوادی عناصر کا خیال تھا کہ چونکہ مسلمانوں کو الگ خطہ زمین دے دیا گیا ہے اس لیے اب یہ ملک ہندو راشٹر بننا چاییے۔ اور اس ملک کی بنیاد ساورکر کے ہندوتوا کے نظریہ پر رکھی جانی چاہیے جس کے مطابق اس ملک کا اکثریتی طبقہ ہی ملک کا اصل مالک ہوگا اور اقلیت کو اکثریت کے رحم وکرم پر رہنا ہوگا اور اس ملک کی اکثریت ہندو ہے اس لیے یہاں انہیں کا قانون چلنا چاہیے۔ ‘ہندوتوا۔ ہندو کون ہے’ میں اسی کو بیان کرتے ہوئے ساورکر لکھتا ہے:
"ہندو وہ ہے جو اس بھارت ورش سندھ سے سمندر تک کو اپنا آبائی وطن اور مقدس سر زمین مانتا ہو۔”
اس تعریف کے ذریعہ ساورکر نے بہت چالاکی سے براہیمی مذاہب (اسلام،عیسائیت اور یہودیت) کو ہندوستانی ہونے سے خارج کردیا اور سکھ،جین اور بدھ مذہب کو شامل کرلیا کیونکہ یہ مذاہب یہیں پیدا ہوئے اسکے برعکس مسلمانوں کی مقدس زمین مکہ ہے اور یہودی اور عیسائیوں کی یروشلم۔
اس نظریہ کی بنیاد پر اس زمانے کے ہندوتوادی ملک کی تعمیر چاہ رہے تھے لیکن اس دور کے ہندوستانی لیڈران جن کو عوام کی عظیم اکثریت کی تائید حاصل تھی وہ دوسری بنیاد پر ملک کی تعمیر چاہ رہے تھے۔
وہ بنیاد یہ تھی کہ اس ملک کا سرکاری سطح پر کوئی مذہب نہیں ہوگا اور ہر فرد کو آزادی ہوگی کہ وہ اپنی پسند کا مذہب اختیار کرے،اس پر عمل کرے اور اسکی تبلیغ اور ترویج و اشاعت کرے۔ ملک میں اکثریت اور اقلیت سب کو یکساں حقوقِ اور آزادی حاصل رہیگی ۔ ان ہی دستوری بنیادوں پر یہ ملک بنا اور ان ہی بنیادوں پر آزادی کے بعد سے اب تک چل رہا ہے۔
اس پورے عرصہ میں ہندوتوادی مستقل کوشش کرتے رہے کہ ہندوستان کی جمہوری فضا ختم ہو اور اس ملک میں فاشسٹ قوتیں غالب آجائے۔ 2014میں یہ موقع انھیں نصیب ہوا جب مودی سرکار اس ملک میں قائم ہوئی۔ پچھلے پانچ سالوں میں یہ حکومت مستقل طور پر ہندوستان کی جمہوری روایات اور اداروں کو کمزور کرنے کی کوشش کرتی رہی ہے۔
جمہوری نظام کی بقاء کے لیے جمہوری اداروں کا آزادنہ طور پر کام کرنا ضروری ہوتا ہے۔ہندوستان دنیا کی سب سے بڑی جمہوریت ہے اور اس حوالہ سے دنیا میں اس کی تعریف کی جاتی رہی ہے کہ یہاں جمہوری اداروں کو آزادی حاصل ہے جیسے یہاں الیکشن کمیشن حکومت کی دخل اندازی سے محفوظ رہتا ہے۔ فوج ملکی معاملات میں دخل اندازی نہیں کرتی بلکہ سول اتھارٹی ہی ٖ فوج سے متعلق فیصلے بھی لیتی ہیں۔اسی طرح عدلیہ،میڈیا , سرکاری ایجنسیاں وغیرہ دوسرے ادارے بھی آزاد ہیں۔لیکن پچھلے پانچ سالوں میں یہ کوشش کی گئی ہے کہ ہندوستان میں دستور کا نفاذ کرنے والے اداروں کو کمزور کر دیا جائے بلکہ اس پورے institutional framework کو ہی کمزور کر دیا جائے جو سرکار پر گرفت کر سکتا تھا۔ قانون کی حکمرانی کے لیے لازمی ہوتا ہے کہ یہ ادارے آزادانہ طور پر کام کریں۔ لیکن پچھلے پانچ سالوں میں ان اداروں کی آزادی تقریباً ختم کر دی گئی ۔سی بی آئی،الیکشن کمیشن ،فوج ،میڈیا ،آر بی آئی یہاں تک کہ سپریم کورٹ تک کی آزادی ختم کرنے کی کوشش کی جارہی ہے تمام اداروں کو سرکار اپنے مقاصد کے لیے بے دریغ استعمال کر رہی ہے۔
ہندوستان کے جمہوری ڈھانچے کے باقی رہنے کے لیے ضروری ہے کہ اداروں کی آزادی باقی رہے اگر یہ آزادی ختم ہوئی تو ہندوستانی جمہوریت بکھر جائے گی اور سماج سے آزادی ختم ہوجائے گی۔ اسکے بعد ہندوستان میں امن و امان ،لا اینڈ آرڈر کی کیا صورت حال ہوگی اس کا اندازہ لگانا مشکل ہے۔
دوسری طرف جب ہم ملک کےعمومی حالات دیکھتے ہیں تو وہاں اور بھیانک منظر ہمیں نظر آتا ہے، اقلیتوں بالخصوص مسلمانوں میں خوف و ہراس پایا جا رہا ہے۔ پچھلے پانچ سال سے مختلف بہانوں سے مسلمانوں کو ذہنی و جسمانی اذیتیں دی جارہی ہیں۔ mob lynching کے ذریعے مسلمانوں کا بے رحمانہ قتل عام جاری ہے۔ انھیں بھیڑ کے ذریعہ پیٹ پیٹ کر قتل کیا جارہا ہے اور اسکے ویڈیوز بناکر وائرل کیے جارہے ہیں تاکہ مسلمانوں میں خوف و دہشت کا ماحول پیدا ہو۔ کبھی گھر واپسی کے نام پر انکو ستایا جا رہا ہے۔
تو کہیں فسادات میں انکی جان، مال ،عزت و آبرو کو برباد کیا جارہا ہے۔ تو کہیں پولس انکاؤنٹرس کے نام پر بے گناہوں کو قتل کیا جارہا ہے۔ NRC کے بہانے چالیس لاکھ لوگوں کو ملک کی شہریت سے محروم کرنے کی کوشش کی جارہی ہے اور کہا جارہا کہ پورے ہندوستان میں NRC کروایا جائے گا۔
کبھی طلاق ثلاثہ کے نام پرپرسنل لاء کو ختم کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے۔بیف پر پابندی عائد کرکے انھیں ہراسا ں کیا جارہا ہے۔ مذہبی مقامات پر حملے کیے جارہے ہیں،سیا سی طور پر مسلمانوں کو حاشیہ پرڈال دیا گیا ہے۔ پورے ملک میں ان کو دہشت گرد،پاکستانی اور anti national جیسے ناموں سے پکارا جا رہا ہے یہاں تک کہ اسکولوں میں معصوم بچوں تک کو اس ذہنی اذیت سے گزرنا پڑ رہا ہے۔
مسلمانوں کی جان ،مال، عزت آبرو،مذہب، کلچر، اور نسل ہر چیز پر خطرے کے بادل منڈلا رہے ہیں،سرکار قاتلوں کی نہ صرف پشت پناہی کر رہی ہے بلکہ انکو انعامات سے نواز کر انکی حوصلہ افزائی بھی کر رہی ہے۔ سرکار کے منتری مستقل طور پرمسلمانوں کے خلاف ایسےبیانات دے رہیں ہیں جن میں انکی حب الوطنی کے ساتھ دین و ایمان پر بھی اعتراضات کیے جا رہے ہیں، مسلم تعلیمی ادارے حکومت ہندوتوادیوں کے نشانے پر ہیں جہاں ہمیشہ کچھ نہ کچھ گڑبڑ پیدا کرنے کی کو شش کی جارہی ہے۔
The Uniform Civil Code,
The Citizenship (Amendment) Bill, 2016,
The Enemy Property (Amendment & Validation) Bill, 2016
جیسے اقلیت مخالف بل پاس کیے جا رہے ہیں۔کانگریس کے زمانے میں جو تھوڑی بہت سہولتیں مسلمانوں کو حاصل تھی ان کو بھی ایک ایک کرکے ختم کیا جا رہا ہے۔ پورے ملک میں مسلمانوں کے خلاف نفرت کا ماحول بنایا جا رہا ہے ٹیلی ویژن چینلس دن رات فرقہ وارانہ موضوعات چلا کر مستقل طور پر پوری کمیونٹی کو بد نام اور ٹارچر کر رہے ہیں۔ mob lynching رکنے کا نام ہی نہیں لے رہی ہے ،غریب اور معصوم مسلمانوں کو بھیڑ کے ذریعہ قتل کر وایا جا رہا ہے۔ ہر طرف دہشت ،خوف اور تشویش کا ماحول ہے۔ یہ پانچ سال ہندوستانی مسلمانوں نے اس کرب کے ساتھ گزارے ہیں اور گزار رہے ہیں۔
اس ملک کی ترقی اور بقا کے لیے جمہوری اداروں اور عوام کی آزادی کے ساتھ امن اور انصاف کا ہونا ضروری ہے ۔ اسکا فوری حل یہ ہے کہ ایسی حکومت لائی جائے جو قانون اور جمہوری اداروں کی آزادی میں یقین رکھتی ہو نہ کہ جبر و استبداد میں۔ ہندوستان کے اس مرتبہ کے الیکشن اس اعتبار سے ملک کا مستقبل طے کرینگے کہ یہاں آزادی کی فضا بر قرار رہے گی یا فاشزم کی گھٹن بڑھ جائے گی جس میں کہ سانس لینا بھی دشوار ہو جائے گا۔