سیاسیمضامین

کانگریس کی بے اعتنائی پر ہمارا موقف کیا ہونا چاہئے؟

ابوحارث پونہ والا

یہ کوئی ڈھکی چھپی بات نہیں ہے کہ کانگریس نے ہمیشہ مسلمانوں کو اپنے ووٹ بینک کے طور پر استعمال کیا ہے۔ ملک کے تمام مسلمانوں کو اس بات کی بھی شکایت ہے کہ میں کبھی بھی ہماری آبادی کے تناسب کے لحاظ سے پارلیمان اور اسمبلی ہر دو جگہ مناسب اور متوقع نمائندگی نہیں دی گئی۔ کانگریس کے طویل دورحکومت میں ہمیں تعلیم اور روزگار کے بھی مناسب اور مطلوبہ مواقع نہیں دیئے گئے ۔ اس کے علاوہ کانگریس کے زمانے میں بیشمار بڑے بڑے فسادات رونما ہوئے ۔ ہمارےگھروں اور دکانوں کو جلایا گیا۔ ہماری معیشیت کو برباد کیا گیا۔ ان حقائق سے کوئی بھی انصاف پسند شہری ، یہاں تک کہ خودانگیر میں بھی ان کا نہیں کرسکتی۔
پچھلے چند دنوں سے ریاست میں ایک نہایت اہم مسئله موضوع بحث بنا ہوا ہے۔ جس کی صدائے بازگشت پچھلے کئی دنوں سے ریاست بھر میں سنی جارہی ہے۔ وہ یہ ہے کہ اس مرتبہ کانگریس نے پارلیمانی انتخاب کے لئے ریاست کرنا ک کے لئے صرف ایک ہی مسلم امیدوار کوٹکٹ دیا ہے، جبکہ آزادی کے بعد سے مسلسل مسلم نمائندوں کو ریاست میں کم از کم تین یا چار حلقوں سے یقینی طور پرٹکٹ دی جاتی رہی ہے۔ بلاشبہ یہ امر قابل توجہ اور قابل اعتراض ہے۔ گلبرگہ، باومیری اور دھارواڑ پارلیمانی حلقے کے لئے یہاں کے مسلم رہنماؤں اور عوام نے پرزور مطالبہ کیا مگر پوری ریاست میں صرف بنگلور شہر کے لئے ایک ہی مسلم امیدوار کا نگر میں کائنکٹ ملا۔اس کی وجہ سے ریاست کے کئی شہروں کے مسلمانوں میں کانگریس سے مالی اور بیزاری کے آثار دکھائی دینے لگے۔ سیاسی مبصرین نے اس پیشیں کہیں عوامی نمائندوں نے بھی اپنے خیالات کا اظہار کیا ۔ اور عوام میں یہ باتیں پھیلے گئیں۔ کچھ اہل دانش نے یہاں تک کہہ دیا کہ اس مرتبہ میں NOTA کا استعمال کرنا ہوگا۔ لیکن کسی بھی پارٹی کو ووٹ نہ دیا جائے ۔ شاید اس کے دور رس نتائج پر سنجیدگی سے غورنہیں کیا گیا۔ اگر ہم نے بغیر سوچے سمجھے ایسا کوئی قدم اٹھایا تو اس کاخمیازہ ہمیں کو بھگتنا پڑیگا اور ایک طویل عرصہ تک بھگتنا پڑے گا۔ وہ اس طرح کہ ہم اگر اپنے ووٹ کا حق استعمال نہیں کرتے ہیں اور اسے ضائع کرتے ہیں تو اس کا فائدہ براہ راست فسطائی پارٹی کو ہوگا۔ اگر ہم نے اس مرتبہ اپنے ووٹ کا حق استعمال نہیں کیا اور اس کی پاداش میں غیر سیکولر اور جمہوریت دشمن پارٹی کا میاب ہوگئی تو آنده ہمارا یہ ہم سے ہمیشہ کے لئے چھین لیا جائے گا۔ ہم دوسرے درجے کے شہری بنادئے جائیں گے جنہیں ووٹ کا حق حاصل نہیں ہوتا۔ اگر ملک سے جمہوریت کا خاتمہ ہو گیا تو ہمارے سارےحقوق ہم سے چھن جائیں گے ۔ حکومت کے خلاف کوئی اپنی زبان نہیں کھول سکے گا ۔ شمال کی بی جے پی ریاستوں میں ہمارے ساتھ کیاکچھ ہورہا ہے ہم دیکھ اور سن رہے ہیں ۔ وہی مناظر خدانخواستہ سارے ملک میں دہرائے جائیں گے۔ ہمارا ارایش ( ڈاڑھی کے ساتھ ) اورخواتین کا باپردہ گھروں
سے نکلنا مشکل ہو جائے گا۔ یہ صرف اندیشہ نہیں فسطائی تنظیم کا اوپن ایجنڈاہے۔ فرقہ پرست حکومت کا کھلا اینڈ ایہ ہے کہ مسلمانوں کو دیش نکالا دیا جائے ۔ جسکااعلان اور اظہار بار بار ان کے لیڈر کرتے رہے ہیں۔ حال ہی میں امیت شاہ نے مغربی بنگال کے انتخابی مہم میں دو بارا کھلے عام اعلان کیا ہے کہ مسلمان پردیسی ہیں ان کو بنگال میں ڈبو دیا جائے گا۔
آج ہماری سب سے بڑی ضرورت جمہوریت کا تحفظ اور جمہوریت کی بقا ہے۔ اس سے پہلے کہ ملک کے جمہوری دستور کو ختم کردیا جائے میں اپنا ووٹ جمہوریت کے تحفظ کے لئے استعمال کرنا ہوگا۔ اس سے پہلے کہ ہمارے حقوق ہم سے چھین لئے جائیں ہم سب کو اپنے آئین ہندسے ملے ہوئے حق کو ضائع کئے بغیر بھر پور استعمال کرنا ہوگا۔ اس سے پہلے کہ اللہ ہم پر ظالم حکمران دوبارہ مسلط کر دے عقل و شعور سے کام لیتے ہوئے جمہوری اقدار میں یقین رکھنے والے اور فرقہ پرست امیدوار کو مات دینے والے امیدوار کے حق میں اپنے ووٹ کا استعمال کرنا ہوگا ۔ لہذا ہمارے ارباب بل وافد علمائے کرام، تجربہ کار سیاستدانوں اور دانشوروں کوچا ہے کہ عوام کی تین رہنمائی فرمائیں اور انہیں جمہوریت کے تحفظ کے لئے سیکولر امیدوار کے حق میں اپنے ووٹ کو استعمال کرنے کی تلقین کریں۔ اگر اس مرتب فسطائیت کو حاشیہ پر کھڑا کر دیا جائے تو ہم آئندہ کانگریس سے بھی لوہا لے سکتے ہیں ۔ ان شاءاللہ۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

error: Content is protected !!