عالمی یوم خواتین کا فریب: رسوا کیااس درد کو جلوت کی ہوس نے
ڈاکٹر محمد طارق ایوبی
مغرب نے انسانیت کو فریب دینے کے لئے بہت سے نعرے دیے، انسانیت اس کے پر فریب نعروں میں پھنستی گئی اور قعر مذلت میں گرتی گئی، حتی کہ تہذیب جدید انسانیت کو تباہی کے دہانے پر لے آئی، آج اس تہذیب کے گہواروں میں نفرت ہے، عداوت ہے،تنہائی و تجرد کی زنجیریں ہیں، فحاشی ہے، بے حیائی ہے، بلکہ یہ کہیے کہ آنکھوں کا پانی مرچکاہے، زنا عام ہے، بلکہ زنا تو اس معاشرے میں گناہ ہی نہیں تصور کیا جاتا، اس حیا باختہ تہذیب کی جھلکیاں سڑکوں، پارکوں اور عوامی مقامات (Public Places) پر اس طرح نظر آتی ہیں کہ کتے اور خنزیر بھی شرماجائیں، تہذیب جدید نے تجرد کے رجحان کو فروغ دیا، آزادانہ جنسی تعلقات قائم کرنے کا میلان عام کیا، شادی شدہ مرد و خواتین کو آزادانہ جنسی تعلقات قائم کرنے کی اجازت دی، باہمی اختلاط اور عورت کی نمائش کے ذریعہ جنسی ہیجان کو گھر گھر اور گلی گلی اس طرح پہنچا دیا کہ ’’مہذب‘‘ ملکوں میں پندرہ سالہ بچیاں بغیر نکاح کے حاملہ ہونے لگیں، غور کیجئے تو یہ سب کار فرمائی نظر آئے گی ’’تحریک آزادی نسواں‘‘ (Womens Libration Movement) جیسی بے معنی تحریک کی، جس نے عورتوں کو مساوات کا بے بنیاد نعرہ دے کر گھر سے باہر نکالا، مرد کی ہوس کا شکار بنایا، اس کے تقدس کو اوباشوں کا کھلونا بنا دیا، اس کی شرافت کو تار تار کیا، خاندان میں اس کے اعلیٰ مقام کو ختم کرنے کی ناکام کوشش کرکے اس کو گرمئی محفل کا سامان بنایا، آزادی کے نام پر اسے پھر مرد کی ہوس کے قدموں میں لا ڈالا جہاں وہ اسلام کی آمد سے پہلے پڑی ہوئی تھی۔
اس تحریک نے مساوات کا نعرہ بلند کیا،مساوات کے غیر فطری نعرے کی حقیقت یہ ہے کہ آج تک دنیا کے کسی بھی متمدن ملک میں عورت کو زندگی کے کسی بھی شعبے میں برابری کا درجہ نہ مل سکا، سوویت یونین نے اس سلسلے میں بڑی فیاضی سے قانون بنائے مگر وہاں بھی عورت کا حال وہی ہے جو سوسال پہلے تھا، جاپان میں مرد و عورت کے امتیاز کو ختم کرنے کے لئے ایک بل پیش کیا گیا جو آج تک نہ پاس ہو سکا، امریکہ میں ۲۰؍ خواتین کی ایک ٹیم کی سروے رپورٹ ۱۹۷۲ میں شائع ہوئی جس کا خلاصہ یہ تھا کہ امریکی عورت آج بھی وہیں ہے جہاں سو سال پہلے تھی، ظاہر ہے کہ مساوات کے اس کھوکھلے اور غیر حقیقی نعرے کے پیچھے تصور تو ’’کچھ اور‘‘ تھا، اس کا نظارہ تو نظر آتا ہے مگر مساوات کی مثال نظر نہیں آتی، ذرا کوئی صاحب عقل حکومت، سیاست، تعلیم، انتظام، ریسرچ اور دیگر شعبہائے حیات کا کھلی آنکھوں سے جائزہ لے، اور صرف تہذیب جدید کے علمبردار ممالک کا جائزہ لے، تو اسے اندازہ ہوجائے کہ تحریک آزادی نسواں کے دو سو سال گزرنے کے بعد بھی عورت آج کسی بھی شعبے میں مرد کے برابر کیوں نہیں پہنچ سکی۔
واقعہ یہ ہے دنیا کو یہ فریب دیا گیا کہ عورت و مرد میں جو امتیاز ہے وہ سماجی اور تاریخی ہے، جبکہ حقیقت اس کے برخلاف ہے، تمام آسمانی مذاہب عورت و مرد کو دو الگ الگ صنف مانتے ہیں، دونوں کے کردار، عمل ان کی جسمانی ساخت کے اعتبار سے الگ مانتے ہیں، اب تو جدید تحقیقات خود اس کا دعویٰ کر رہی ہیں کہ مرد و عورت میں امتیاز تاریخی و سماجی نہیں بلکہ حیاتیاتی (Biological) اور تخلیقی و فطری ہے، اسی کے سبب یہ نعرہ اب تک حقیقت نہ بن سکا، کیوں کہ اس امتیاز کی بنیاد وقتی و عملی اور زمانی اور مکانی نہیں بلکہ فطری اور تخلیقی تھی، اس سلسلے کی پہلی تحقیق ۱۹۳۲ میں لندن سے شائع ہوئی جس کا نام The Biological Tragedy of Womenتھا، اس میں اس حقیقت کا برملا اعتراف کیا گیا، ایک روسی سائنس داں جو مرد و عورت میں کامل مساوات دیکھنے کا خواہش مند تھا، وہ سارے امتیازات ختم کردینا چاہتا تھا لیکن مجبور ہوکر اس کو اس کا اعتراف کرنا پڑا کہ حیاتیاتی طور پر ہمارے لیے وہ بنیاد ہی نہیں ہے جس سے یہ امتیاز ختم ہوسکے۔
اگر غور کیجئے تو مطلق آزادی نے عورت کو مزید مظلوم بنایا ہے، اس کو جو کچھ ملا ہے اپنی نسوانیت اور اپنے عورت پن کا سودا کرکے ملا ہے، بلکہ بہت سی رپورٹ پڑھ کر اندازہ ہوتا ہے کہ اس آزادی اور مساوات کے بے بنیاد نعرے کے سبب عورت جو کچھ حاصل کر سکی ہے وہ بھی اسے مرد کے لئے سامان تفریح بن کر ہی ملا ہے، مختصراً ہم کو یہ کہنے دیجئے کہ عورت پر جس قدر ظلم قدیم مشرکانہ تہذیب نے ڈھایا، جس قدر اس نے اس سے کھیلا، جس قدر اس نے اس کے مقام و مرتبہ کو گرایا، جس قدر اس نے اس کی عصمت کو تار تار کیا اور اسے لاشۂ بے جان بنایا اور بسا اوقات اس کے زندہ وجود کو مٹی کے نیچے دفن کر دیا یا جلا دیا، اس سے کہیں زیادہ عورت کی قدرو قیمت جدید ملحدانہ تہذیب نے گرائی ہے، اس کو چلتی پھرتی لاش بنا دیا ہے، اس کے اندر سے نسوانی حِس ختم کردی ہے، اس کے حسن کو سرِ بازار نیلام کر دیا ہے، اسے ہوس پرستوں کی نگاہوں، زبانوں اور ذہنوں کی عیاشی کا سامان بنا دیا ہے، اگر تعلیم، نوکری اور سماجی عزت اس کی نسوانیت کا سودا کرنے سے، اس کے وجود کو برہنہ کرنے سے، اس کی عصمت کا بھرے بازار میں مذاق اڑانے سے ملے، تو یہ اس متمدن دنیا کا اس قدیم جاہلانہ سماج سے زیادہ اور بھیانک ظلم ہے جس کی چکی میں عورت مسلسل پس رہی ہے، اقبال نے کہا تھا ؎
جس علم کی تاثیر سے زن ہوتی ہے نازن
کہتے ہیں اس علم کو اربابِ نظر موت
بیگانہ رہے دین سے اگر مدرسۂ زن
ہے عشق ومحبت کے لیے علم وہنر موت
تہذیب جدید کی اس کھوکھلی اور عورت کے وجود کو ختم کرنے والی تحریک آزادی نسواں نے جو کارنامہ انجام دیا ہے، اقبال کے الفاظ میں وہ کچھ اس طرح ہے ؎
رسوا کیااس درد کو جلوت کی ہوس نے
روشن ہے نگہ آئینہ دل ہے مکدر
بڑھ جاتا ہے جب ذوق نظر اپنی حدوں سے
ہوجاتے ہیں افکار پراگندہ و ابتر
آغوشِ صدف جس کے نصیبوں میں نہیں ہے
وہ قطرۂ نیساں کبھی بنتا نہیں گوہر
خلوت میں خودی ہوتی خود گیر و لیکن
خلوت نہیں اب دیر وحرم میں بھی میسر
عالمی یوم خواتین در حقیقت اسی تحریک آزادی نسواں کی مرثیہ خوانی کا دن ہے، اپنے حقوق کو ہوس پرستوں کے بھینٹ چڑھا چکی عورتیں اس دن حقوق نسواں کا مرثبہ پڑھتی ہیں، زندگی بھر آزادی نسواں کے لیے لڑنے والی عورتیں بڑھاپے میں اس دن حقوق نسواں کے لیے احتجاج کرتی ہیں، اپنی جوانی کے ضیاع پر ماتم کرتی ہیں، اپنی بھول، بے بسی، تنہائی اور کسمپرسی کی حالت کا نوحہ کرتی ہیں، اقبال نے تو پہلے ہی کہا تھا کہ ؎
تمہاری تہذیب خود اپنے خنجر سے خود کشی کرے گی
جو شاخ نازک پہ آشیانہ بنے گا ناپائیدار ہوگا
آج دنیا نے دیکھ لیا کہ مغرب میں صرف جوان عورت کی قیمت ہے، بوڑھی خواتین کے لیے اولڈ ایج ہوم ہیں، وہ کسی سے بات کرنے کو بھی ترس جاتی ہیں، وہاں کی خاندانی زندگی تباہ و برباد ہو چکی ہے، اولادیں ماں باپ کی شفقتوں سے محروم ہوکر ذہنی مریض اور شقی القلب ہوکر جوان ہوتی ہیں، اسکولوں میں بچوں کے ذریعہ گولیاں چلانے کے واقعات آئے دن اخبارات کی زینت بنتے ہیں، طلاق کے واقعات سب سے زیادہ اسی تہذیب کے متبعین میں پائے جاتے ہیں، کیوں کہ اس تہذیب میں شادی ایک بندھن تصور کی جاتی ہے، اور بندھن میں بندھے رہنا انسانی فطرت کے خلاف ہے، لہذا زیادہ دیر تک وہ بندھن میں نہیں رہ پاتا، مگر جنسی بے راہ روی بہرحال مرد کی غیرت کے خلاف ہے، لہذا آزادانہ اختلاط اس بندھن کے ٹوٹنے کا سبب ہوتا ہے، یہ تحریک جو آج سے تقریبا دو سو سال قبل برطانیہ میں صنعتی انقلاب کے ساتھ شروع ہوئی تھی، ۱۷۹۲ میں اس سلسلے کی پہلی کتاب vindication of the right of womenوہیں سے شائع ہوئی تھی، پھر جہاں جہاں صنعتی انقلاب آتا گیا،
یہ تحریک اپنے پاؤں پسارتی گئی، اس تحریک نے سب سے زیادہ حملے بھی اسلام پر کیے، اعتراضات کی بوچھار کی اور دنیا کو یہ دکھانے کی کوشش کی اسلام میں عورت کے حقوق کو دبایا گیا ہے، اس پروپیگنڈے کی بنیاد ایڈورڈ ولیم بنا، جس نے ۱۸۴۳ء میں قرآن کے کچھ منتخب حصوں کا ترجمہ کرکے شائع کیا، اس میں اس نے یہ شگوفہ چھوڑا کہ اسلام کا سب سے کمزور پہلو یہ ہے کہ اس نے عورت کے حقوق کم رکھے ہیں۔ آج عام طور سے عالمی یوم خواتین پر اس پہلو کو زیر بحث لایا جاتا ہے، یوں بھی مسلمان عورت کی مظلومیت موضوع بحث بنی رہتی ہے، آج کل تو ہمارے یہاں عورت کے دشمن بھی مسلم عورت کے ہمدرد بنے ہوئے ہیں، خیر اسلام نے عورت کو کیا دیا اور کیا نہیں دیا اس پر ہم گفتگو بعد میں کریں گے، پہلے ہم یہاں رجب طیب اردوغان کا ایک بیان پیش کرنا چاہیں گے ، یورپ کے قلب میں بیٹھا ہوا، یہ حکیم دانا جس حکمت وجرأت کے ساتھ اسلامی مواقف کے اظہار کا کوئی موقع ہاتھ سے جانے نہیں دیتا وہ قابل تعریف اور لائق رشک ہے،
عالمی یوم خواتین کے موقع پر کئی سال قبل جب سیکولر پسندوں نے عالمی یوم خواتین پر عالمی کانفرنس منعقد کی تو اس سے خطاب کرتے ہوئے اردوغان نے حقوق نسواں کے لیے آواز بلند کرنے والوں کے دوہرے معیار اور دوغلے پن کو کچھ اس طرح واضح کیا: ’’جو ہماری تاریخ و ثقافت میں خواتین اور بچوں پر حملوں کے نشانات تلاش کرتے ہیں وہ در پردہ کچھ اور عزائم رکھتے ہیں، لیکن درست طریقے سے دیکھا جائے تو یہ لوگ خود ہی انسانیت کے خلاف مجرم کہلاتے ہیں، ہماری مائیں دنیا کی سب سے زیادہ خود قربانی دینے والی مائیں ہیں، ہماری خواتین دنیا کی سب سے زیادہ خود قربانی دینے والی خواتین ہیں،
انھوں نے ترکی کے ذریعہ خواتین کے حقوق اور دیگر موضوعات پر پیش قدمی کا تذکرہ کرتے ہوئے کہا ’’کیا آپ نے کبھی ان لوگوں کو سنا جو خواتین کے حقوق کے لیے آسمان سر پر اٹھا لیتے ہیں، کہ انھوں نے گزشتہ چند مہینوں میں مشرقی غوطہ میں سینکڑوں خواتین کی ہلاکت پر بات کی ہو؟ عورتوں کے حقوق کے الفاظ جو وہ بولتے ہیں ان کا کیا مطلب ہوگا اگر وہ ایک لاکھ لوگوں کے بدترین قتل عام کے مجرم کے خلاف زبان نہیں کھولتے، جبکہ ان مقتولین میں زیادہ مقدار خواتین اور بچوں کی ہے‘‘، انھوں نے مزید کہا ’’آخر یہ لوگ اس زمین میں کس طرح رہتے ہیں جو اپنے ہاتھ ان خواتین کی مدد کے لئے نہیں بڑھاتے جو کیمپوں میں کسمپرسی کی زندگی گزارتی ہیں، میانمار کے ظلم وستم سے بچنے کے لئے بہت سی خواتین نے کیمپوں میں پناہ لے رکھی ہے، کیا ان خواتین کے حقوق نہیں ہیں؟ کیا ان عورتوں کے لیے عورتوں کے حقوق کا نعرہ نہیں دیا جا سکتا جو پچھلی صدی میں بلقان، کا کاشاش اور ترکستان میں مصائب کا شکار رہیں، کیا یہ سب جھوٹ ہے؟‘‘
صدر ترکی رجب طیب اردوغان نے موقع کا فائدہ اٹھا کر اس طرح کے مزید طنزیہ بیانات سے عالمی یوم خواتین کی حقیقت کو واضح کیا، انھوں نے کہاکہ سال میں ایک دن عالمی یوم خواتین پر حقوق نسواں کی بات کرنے والے منافقت کا شکار ہیں، انھوں نے کہا کہ ہماری خواتین ہماری زندگیوں کا اٹوٹ حصہ ہیں، جس طرح لوگ سال میں ایک دن یوم خواتین مناتے ہیں ہمارے لیے سال کے ۳۶۵ دن بالکل اسی طرح ہیں۔ اردوغان نے اس موقع پر جس طرح حق بیانی کی وہ ان ہی کا حصہ ہے، ان کا کمال یہ ہے کہ انھوں نے بتدریج فکر کی تبدیلی کو اپنا ہدف بنایا ہے، اسی طرح سے مناسب مواقع پر وہ سیکولرزم کے علمبرداروں کو پُر فریب نعروں کی حقیقت کچھ اس طرح بتاتے ہیں کہ ان کے لیے انکار کرنا دشوار ہوجاتا ہے، ظاہر ہے کہ اگر افریقہ کے صحراؤں میں تپتی عورت، روہنگیا کیمپوں میں سسکتی اور بلکتی ہوئی عورت، شام میں اپنے خون کی قربانی دیتی اور اپنے جگر کے ٹکڑوں کو کھوتی ہوئی عورت کے حقوق پر کوئی سوال کرے، ہندو سماج میں تجرد اور معلق زندگی گزارنے، جہیز کے لیے آگ یاپھانسی کے حوالے کر دیے جانے پر کوئی سوال کرے تو حقوق نسواں کے علمبردار کیا جواب دے سکیں گے۔
در حقیقت حقوق نسواں کی تحریک عورت کو سامان تفریح بنانے، ملکۂ خانہ کو بر سرِ عام رسوا کرنے، اہل ہوس کی پیاس بجھانے کے لئے برپا ہوئی، سو اس میں وہ خوب کامیاب ہے، رہے خواتین کے حقوق تو اسلام سے زیادہ یہ حقوق نہ کسی نے عورت کو دیا اور نہ دے سکتا ہے، وجہ صرف ایک ہے کہ عورت کے سلسلہ میں اسلام کا نظریہ جس قدر واضح اور پاکیزہ و باوقار ہے اس قدر کسی اور مذہب میں اس کو حیثیت دی ہی نہیں گئی، اسلام نے عورت کو تعلیم حاصل کرنے کا حق دیا، تہذیب و تمدن کی تعمیر میں اپنا کردار ادا کرنے کا حق دیا، معاشرے کی تشکیل میں اس کو سب سے اہم مقام دیا، اظہار رائے کی آزادی کے لیے اسکو زبان ایسی عطا کی کہ خود اللہ نے اس کی بات کو سن کر قرآن کریم میں حکم ظہار نازل فرمایا، اسلام سے پہلے عورت کو زبان کھولنے کیا زبان ہلانے کی بھی اجازت کہاں تھی، اس نے عورت کو مرد کا رفیق قرار دیا، ’’پتی دیو‘‘ کے تصور سے اس کو نجات دی، کردار و عمل کے اس کو ایسے مواقع فراہم کیے جو اس کی فکری و جسمانی ساخت اور فطرت کے عین مطابق تھے، اسلام سے پہلے عورت مردوں کے قدموں میں پڑی رہتی تھی
مگر اسلام نے عورت کے قدموں میں مرد کی جنت رکھ دی، اسلام نے عورت کو وراثت میں حقوق دیے، نان و نفقات اور کفالت کی ذمہ داریوں سے اس کو بریٔ الذمہ کر دیا اور ساتھ ہی اپنی دولت اسے پسِ انداز کرنے کا اختیار دیا، جبکہ جاہلی معاشرے میں لوگ عورت کی دولت ہڑپ لیا کرتے تھے، اسے بے دست وپا بنا کر بے بس کر دیا کرتے تھے، اسلام نے اس کی کفالت کی ذمہ داری مرد پر عائد کی اور اس کے حصے کی دولت کا مالک اسے بنا یا، اسلام ہی تو ہے جس نے عورت کو مرد کی طرح برابر کی ذمہ داری عطا کی اور یہ تصور دیا کہ ہر ایک ذمہ دار ہے، ہر ایک نگراں ہے اور ہر ایک کو اپنی ذمہ داری کا حساب دینا ہے، اسلام میں کسی ایک دن عورت کی تعظیم و تقدیس کے بجائے وعاشروھن بالمعروف کہہ کر اس کو ہمیشہ کے لئے تقدیس و تعظیم اور حسن سلوک کا مستحق قرار دیا گیا، انسانی حیثیت اور کردار و عمل کے لحاظ سے اس کے لیے بھی وہی تمام بشارتیں رکھی گئی ہیں جو ایک مرد کے لیے ہیں،
قرآن مجید کا بہت واضح ارشاد ہے، ؎ (ترجمہ: اے انسانو! ہم نے تم کو ایک مرد اور ایک عورت سے پیدا کیا ہے، اور تم کو قوموں اور قبیلوں میں تعارف کے لئے تقسیم کیا ہے، تم میں سب سے زیادہ با عزت وہ ہے جو سب سے زیادہ متقی ہے، بے شک اللہ سب کچھ جانتا ہے خوب باخبر ہے)(سورہ حجرات:۱۳) اور فرمایا گیا: (ترجمہ: جو بھی مرد و زن ایمان کے ساتھ اچھے عمل کریں گے، ہم انھیں حیات طیبہ (خوشگوار زندگی) عطا کریں گے، اور ایسے لوگوں کے اچھے کاموں کی ہم اچھی جزا دیں گے)۔(سورہ نحل:۹۷) اور ارشاد فرمایا گیا: (ترجمہ: ان کے رب نے ان کی دعائیں قبول فرمالیں (اور فرمایا) میں تم میں سے کسی عمل کرنے والے کے عمل کو ضائع نہیں کر تا، مرد ہو یا عورت، تم سب کا ایک دوسرے سے تعلق ہے)۔(سورہ آل عمران: ۱۹۵) اسلام میں عورتوں کو مردوں کا رفیق و مددگار قرار دیا گیا ہے، سیرت رسولؐ میں حضرت خدیجہ کی بے مثال رفاقت و تعاون سے اس کی ابتدا ہوتی ہے،
تاریخ کا کوئی دور بھی اس حقیقت سے خالی نہیں ملتا جب عظمائے اسلام کی پشت پر کسی عورت کا ہاتھ نہ ہو، کہیں عورت ماں کے روپ میں بیٹے کو ملت کا سپاہی بناتی ہے، کہیں بہن کی شکل میں دین کے لیے بھائی کو مہمیز کرتی ہے، اور بے شمار بیویاں ہیں جو دین کے لیے اپنے شوہروں پر اپنے مال، اپنی خواہشات اور اپنے جذبات کو قربان کرکے مائی خدیجہؓ کے کردار کو زندہ کرتی رہی ہیں، قرآن مجید کا ارشاد ہے:(ترجمہ: جو مومن مرد ہیں اور جو مومن خواتین ہیں ان کا ایک دوسرے سے ایمانی تعلق ہے، وہ بھلائیوں کے داعی ہیں، اور برائیوں سے روکتے ہیں، نماز ادا کرتے ہیں، اور زکوۃ دیتے ہیں اور اللہ اور اس کے رسول کی اطاعت کرتے ہیں، ان پر اللہ اپنی رحمت نازل فرمائے گا، بے شک اللہ ہی غالب ہے، صاحب اقتدار ہے، حکمت والا ہے)(سورہ توبہ: ۳۱) اسلام مرد و عورت کے تعلقات کو بندھن کا تصور نہیں دیتا، بلکہ ان کو ایک دوسرے کے سکون کا ذریعہ قرار دیتا ہے، ان کے تعلقات کی عمارت محبت، مروت اور باہمی ربط پر کھڑی ہوتی ہے، وہ مرد و عورت کے ملاپ کو نکاح مقدس کا نام دیتا ہے اور اس نکاح کو تعمیر انسانیت اور تشکیل خاندان کا ذریعہ بناتا ہے، قرآن نے مرد و عورت کے تعلق کے لیے ایسی بلیغ تعبیر اختیار کی ہے جس کا تصور کسی انسانی دماغ میں نہیں آسکتا ہے ۔ (ترجمہ: وہ تمہاری پوشاک ہے تم ان کی پوشاک ہو، اللہ جانتا ہے کہ تم اس کے حکم سے ہٹ کر دل میں خیالات لاتے تھے، اور کبھی غلط قدم اٹھا لیتے تھے، اللہ نے تم پر عنایت فرمائیں اور تمہاری غلطیوں کو معاف کر دیا)(بقرہ: ۱۸۷)
باہمی جذبۂ رحم اور باہمی اور اٹوٹ محبت کے اس تعلق کو بیان کرتے ہوئے قرآن مجید نے عورت کو اللہ کی نشانی تک قرار دیا ہے (ترجمہ: اس کی نشانی یہ ہے کہ اس نے تمہیں میں سے تمہارے لئے جوڑوں (تمہاری بیویوں ) کو وجود عطا کیا، تاکہ تمہیں ان سے راحت حاصل ہو، اور تمہارے درمیان محبت اور ہمدردی رکھ دی، بے شک اس میں غور و فکر کرنے والوں کے لئے بہت سی نشانیاں ہیں)۔ (روم:۲۱) اسلام میں عورت کے تصور اور مقام ومنصب کی ترجمانی کرتے ہوئے اقبال نے کیا خوبصورت بات کہی ہے جو سال میں ایک دن خواتین کو فریب دینے والوں کے لیے نصیحت وعبرت ہے: وجود زن سے ہے تصویر کائنات میں رنگاسی کے ساز سے ہے زندگی کا سوزو دروںشرف میں بڑھ کر ثریا سے مشتِ خاک اس کیکہ ہر شرف ہے اس دُرج کا در مکنوں واقعہ یہ ہے کہ کل عورت سب سے زیادہ مظلوم تھی، جس کو مظالم سے نجات دلانے کے لئے اور اپنے دائرے میں رہتے ہوئے خود مختاری عطا کرنے کے لئے سورۂ نساء نازل ہوئی ، اس کے علاوہ جا بجا قرآن مجید نے اس کے وقار کو متعین کرنے کے لئے احکامات نازل کیے،
لیکن غور کیجئے کہ تحریک آزادی نسواں کے نتیجے میں آج عورت کل سے زیادہ مظلوم ہے، وہ مردوں کے کام بھی انجام دے رہی ہے اور اپنی ذمہ داریاں نبھانا اس کی ذمہ داری ہے ہی، جس کے نتیجے میں خاندانی نظام پوری طرح منتشر ہوچکا ہے، مغرب اس المیہ سے دوچار ہے، اس کی نقالی کرنے والے بھی اس کشمکش کا شکار ہیں، عالمی یوم خواتین ان ہی مضطرب لوگوں کو مصنوعی سکون کا سامان فراہم کرتا ہے، عورت کو اشتہارات میں برہنہ کیے جانے کے بعد احترام کا فریب دیتا ہے، اس کی نسوانیت کا گلا گھونٹنے کے بعد اس کو عورت ہونے کا احساس دلاتا ہے، اس کے فطری حقوق کی ترتیب الٹ کر اس کی زندگی اجیرن کر دینے کے بعد اس کے حقوق کی اس دن دہائی دی جاتی ہے۔
اسلام میں مرد و عورت کے لئے تقسیم کار پر عمل کیا گیا ہے، اس سلسلے میں دونوں کی فطرت اور جسمانی ساخت کی مکمل رعایت کی گئی ہے، گھر میں عورت کا جو مقام ہے ہزار کوششوں کے بعد بھی آج تک مغرب اس کو کم نہ کر سکا ، بلکہ اب تو پھر سے تحریک آزادی نسواں سے قبل کے دور میں واپس جانے کی کوشش کر رہا ہے، اعتراف ناکامی کے ہزاروں دستاویزی ثبوت موجود ہیں، جن سے یہ عبرت حاصل ہوتی ہے کہ فطرت کے اصولوں سے بغاوت کا انجام بہت بھیانک ہے، مرد کے کام عورت نہیں کر سکتی اور عورت کے فرائض مرد انجام نہیں دے سکتا، بغرض ضرورت دونوں ایک دوسرے کے کام انجام دیا کرتے ہیں، لیکن ضرورت کا تعین اپنی خواہش پر نہیں ہوتا، اس لیے کہ خواہشات خود ایک صنم ہیں خواہشات پرستی صنم پرستی ہے، ضرورت کو شریعت کے معیار پر پرکھا جائے گا اور پھر ضرورت کے لیے گھر سے باہر نکلنے کی اجازت ہوگی ، عہد صحابہ سے لے کر آخر تک اس کی مثالیں موجود ہیں،
۱۹۱۲ میں طرابلس کی جنگ میں مجاہدین کو پانی پلاتے ہوئے جب فاطمہ نامی دوشیزہ نے جام شہادت نوش کیا تو اقبال نے بڑی انقلابی نظم کہی تھی، جس کا مطلع یوں ہے ؎فاطمہ تو آبروئے امت مرحوم ہےذرہ ذرہ تیری مشتِ خاک کا معصوم ہے اسلام خواتین کو در حقیقت یہ تعلیم دیتاہے : (ترجمہ: اور اپنے گھروں میں رہو، اور پہلے دور کی جاہلیت کے فیشن مت اختیار کرنا اور نمازوں کا اہتمام کرو اور زکوۃ ادا کیا کرو، اور اللہ اور اس کے رسول کی بات مانا کرو)۔ (سورہ احزاب: ۳۳) لیکن پھر ان الفاظ میں جناب رسالت ماٰب ضرورت کے لیے باہر نکلنے کی رہنمائی فرماتے ہیں: قد أذن اللہ لکن أن تخرجن لحوائجکن (فتح الباری، کتاب النکاح، باب خروج النساء لحوائجھن، رقم الحدیث ۵۲۳۷، دار الحدیث القاھرہ ، سنہ طبع ۲۰۰۴ء) پھر اللہ تعالیٰ شریف عورتوں کو گھر سے باہر نکلنے کا یہ سلیقہ سکھاتے ہیں: (ترجمہ: اے نبی ! اپنی بیویوں اور اپنی بیٹیوں اور ایمان والوں کی خواتین سے کہہ دیجئے کہ وہ اپنی چادروں کو اپنے اوپر ڈال لیا کریں، یہ اس کے زیادہ قرین قیاس ہے کہ وہ پہنچا ن لی جائیں (کہ پردہ کر لینے والی حیا دار خواتین ہیں) اور انھیں کوئی تکلیف نہ پہنچائی جائیں، اور اللہ مغفرت فرمانے والا اور رحم فرمانے والا ہے)۔(احزاب: ۵۹)
غور کیجئے تو معلوم ہوگا کہ جس پردہ کو دقیانوسیت اور عورت پر ظلم اور اس کی ترقی کے لئے عارض و مانع قرار دیا جا رہا ہے وہ پردہ اس کے تحفظ Protectionاس کی عصمت و عفت کی حفاظت کا ذریعہ اور اس کی شرافت ونجابت کی علامت ہے، مدینہ منورہ میں منافقین ایسی بہت سی حرکتیں کرتے تھے جو رسول اللہؐ کی ایذا رسانی اور مسلمانوں کے لیے تکلیف کا باعث بنتی تھیں، کبھی وہ سازشیں کرتے، کسی مسلمان کو دیکھ کر آپس میں سر گوشی کرتے، مذاق اڑاتے، منجملہ ان حرکتوں کے وہ مسلم خواتین پر جملے کستے، چھیڑ خوانی کرتے، شریف گھرانوں کی عورتوں کی طرف انھیں نظر اٹھانے اور انھیں کچھ کہنے کی ہمت نہ ہوتی، مسلمان باندیوں اور کنیزوں کے ساتھ ان کا یہ سلوک ہوتا تھا، لیکن کبھی باندیوں کے شبہ میں میں شریف عورتوں پر بھی زبان دراز کر دیا کرتے، چنانچہ حکم الہی آیا کہ شریف عورتیں حجاب کے ساتھ نکلا کریں، یہ حجاب ان کی شرافت و نجابت، خاندانی وجاہت اور عفت و پاکدامنی کو پہچان لینے کا ذریعہ ہے، آج کے اس گئے گزرے دور کا بھی یہ مشاہدہ ہے کہ واقعی کوئی با پردہ خاتون نکلتی ہے تو لوگ بلکہ اوباش بھی اس سے چھیڑ خوانی نہیں کرتے الا یہ کہ کسی انتہائی سرکش شیطان سے ٹکراؤ ہوجائے، (واقعی اس لیے کہ کہ آج کل نقاب خود فیشن اور کشش کا ایک ذریعہ کچھ اس طرح بنتا جا رہا ہے کہ نقاب و بے نقابی میں کچھ فرق نہیں رہ گیا)۔
یہاں اس سے زیادہ تفصیل کا موقع نہیں ورنہ ہم مطلق آزادی نسواں کے فریب کا پردہ چاک کرنے کے لئے مغربی خواتین کی کچھ المناک داستانیں نقل کرتے اور موجودہ مغربی عورت کی کربناک حالت پر اسی کے اعترافات درج کرتے، یہاں اختتام سے قبل بس یہ عرض کرنے کو جی چاہتا ہے کہ جس طرح ہم نے ایک عرصہ سے ہر شعبہ اور ہر میدان میں دفاعی پالیسی اختیار کی ہے، اسی طرح حقوق نسواں کی بابت بھی ہم ہمیشہ اسلام میں عورت کے حقوق کے خلاف پروپیگنڈوں کا دفاع کرتے رہے ہیں اس کی مختلف وجوہات ہوسکتی ہیں:
۱۔ عملًا ہمارے معاشرے میں خواتین کے حقوق کو لے کر وہ بیداری نہیں پائی جاتی جس کا مطالبہ اسلام نے کیا۔
۲۔ خواتین کی تربیت کے لئے ہمارے یہاں کوئی معقول انتظام نہیں، جو انتظامات بآسانی ہو سکتے ہیں ان سے بھی وہ محروم ہی رہتی ہیں خواہ اس کی توجیہات جو بھی کی جائیں، سب سے زیادہ آسان کام مسجد کی دینی ماحول اور دینی تربیت سے جوڑنا تھا، تو اولاً اس میں جو تحفظات ہیں ان کے متعلق کبھی سوچا نہیں گیا، ثانیاً ہماری مساجد بھی تربیت کا مطلوب نظام اب کہاں رکھتی ہیں، البتہ جمعہ وجمات از خود ایک انقلابی پیغام کا حامل نظام ہے۔
۳۔ ہمارے یہاں مسلکی تشدد کو جو مقام حاصل ہے وہ کہیں نہ کہیں شریعت کی تشریح و تفہیم کی راہ میں رکاوٹ بنا ہے، اسی لیے ہم برادران وطن کو خواتین سے متعلق اسلام کے قوانین رحمت سے خاطر خواہ متعارف نہیں کرا سکے۔
۴۔ ہم نے ہمیشہ دفاعی گفتگو کی، کبھی بڑھ کر معترضین کی تہذیب کے دوغلے پن کو موضوع نہیں بنایا اور جن مصنفین نے یہ مبارک کوشش کی ہماری تنگ نظری نے ان کا دائرہ افادیت کم کر دیا اور ان سے فائدہ اٹھانے کی کوشش تک نہ کی۔
اس وقت سخت ضرورت ہے کہ آگے بڑھ کر دیگر تہذیبوں بالخصوص مغرب کی ملحدانہ تہذیب اور اس کی آزادی نسواں کی تحریک کے مہلک نتائج کو بیان کیا جائے، اس کے دوغلے پن کو اس طرح بے نقاب کیا جائے جس طرح اردوغان نے یہ کام کیا اور ایک طاقتور پیغام دیا، عملی طور پر اپنے خاندان اور معاشرے میں خواتین کے حقوق کو اسلامی نظریہ کے مطابق رواج دیا جائے تاکہ اسلامی نقطۂ نظر کی عملی تصویر پیش کی جا سکے، اس سلسلے میں سب سے اہم کردار ان اسکولوں کے مالکان کا ہے جو مسلمان ہوکر بھی مخلوط تعلیم کا نظام قائم کیے ہوئے ہیں، اس راستے سے وہ بے حیائی اور آزادانہ اختلاط (Mixing) کی راہ ہمور کر رہے ہیں، ان کو اپنے اس جرم سے توبہ کرتے ہوئے اور مغرب و امریکہ کی دم توڑتی تہذیب سے عبرت حاصل کرتے ہوئے مخلوط تعلیم (Co-education) کی جگہ علحدہ تعلیم کا انتظام کرنا چاہیے اور دنیا کو بتانا چاہیے کہ اسلام نے یقینا آزادی کا تصور دیا ہے مگر وہ خود مختاری کے ساتھ اطاعت سے شروع ہوکر عبادت پر ختم ہوتا ہے، انسان کے سامنے اچھائی اور برائی کی وضاحت کر دی گئی ہے، پھر دونوں میں سے کسی کے ایک اختیار کرنے کے لیے آزادی دی گئی ہے،
دونوں کے نتائج اور انجام سے باخبر کر دیا گیا ہے، اور پھر قطعی و حتمی طور پر یہ تصور دیا گیا ہے (ترجمہ: اور (یہ بھی) کہہ دیجئے کہ میری نماز، اور میری قربانی اور میری زندگی ، اور میری موت سب اللہ کے لئے ہے، جو سب کا مالک و پروردگار ہے)۔ (سورہ انعام:۱۶۲) اس لیے پوری قوت سے آزادی نسواں Libration of womenکا نعرہ لگانے والوں کو یہ بتانا چاہیے کہ اسلام نے عورت کو جو آزادی دی ہے اس سے زیادہ کسی مذہب میں نہیں دی گئی، خواتین اسلام کے سنہرے کارنامے اس پر شاہد ہیں، البتہ اسلام نے عورت کی آزادی کی ایک حد متعین کر دی ہے کہ وہ معاشرتی، سماجی، تعلیمی، تہذیبی وتمدنی میدان میں ترقی کی اعلیٰ سے اعلیٰ منازل طے کر سکتی ہے مگر اس کو مرد بننے کی اجازت نہیں ہے، یہ کام اس کو عورت رہتے ہوئے ہی کرنا پڑے گا، اسلام نے آزادی کو فرمانبرداری libration through submissionکے ساتھ مشروط کر دیا ہے۔