آواز: عوام سےایڈیٹر کے نام

عائشہ کی خودکشی واقعہ، اُمّت سے مطالبہ۔۔۔

ساجد محمود شیخ میراروڈ ضلع تھانے

احمد آباد کی رہنے والی عائشہ نامی شادی شدہ خاتون نے خود کشی کر لی ۔ قبل از خودکشی عائشہ نے اپنا ایک ویڈیو بھی بنایا ۔اس ویڈیو میں عائشہ نے اپنی خودکشی کے لئے کسی کو قصوروار نہیں ٹھہرایا اور یکطرفہ محبت کا ذکر کیا ہے۔ مگر عائشہ کے والدِ محترم نے اس راز سے پردہ اٹھاتے ہوئے خودکشی کی اصل وجہ جہیز کا ناجائز مطالبہ بتایا ہے ۔                      

عائشہ کی خودکشی مسلم سماج کے لئے جائے عبرت ہے اور اپنے محاسبہ کرنے پر مجبور کرتی ہے۔ ہمارا معاشرہ آج بھی مذہبی معاشرہ ہے ۔ دینی جماعتیں موجود ہیں۔ اجتماعات منعقد ہوتے ہیں۔ شعائر اسلام اور دین کی جزئیات پر زور دیا جاتا ہے ،مگر حقوق العباد اور معاملات پر کوئی بات نہیں ہوتی ہے ۔ جہیز جیسی لعنت کے خلاف خاطر خواہ مہم نہیں چلائی جاتی ہے ،نتیجتاً مسلم لڑکیاں یا تو ارتداد کا شکار ہو رہی ہیں اور یا پھر خودکشی کر رہیں ہیں ۔ دینی جماعتوں کے ذمہ داران اور علماء اکرام اس طرف توجہ دینی چاہئے اور جہیز کے خلاف سماج میں بیداری لانے کی ضرورت ہے۔ اس معاملے میں سخت رویہ اپنانے کی ضرورت ہے۔ ایسی شادیوں کا بائیکاٹ کرنے کی ضرورت ہے۔ علماء کو چاہئے کہ نکاح پڑھوانے کی دعوت ملنے پر اس کی تحقیق کرلیں کہ مبادا شادی میں کسی طرح کی لین دین تو نہیں ہو رہی ہےاور لڑکے والوں کی طرف سے جہیز کا مطالبہ تو نہیں ہو رہا ہے ۔ 

خطبہ نکاح کے وقت  اس قبیح رسم کے خلاف بات رکھی جائے ۔ جہیز کے خلاف باتیں کرنے والے لوگ بھی اپنے لڑکوں کی شادی میں جہیز لینے سے پیچھے نہیں ہٹتے ہیں ۔ الٹا اس کا الزام لڑکی والوں کے سر ڈال دیا جاتا ہے کہ صاحب ہم تو منع کر رہے تھے مگر ہمارے منع کرنے کے باوجود لڑکی جہیز دے رہے ہیں۔ بعض معاملات میں خود لڑکی والے بھی اپنی طرف سے جہیز دینا چاہتے ہیں تاکہ مستقبل میں ان کی بیٹی کو کسی قسم کا طعنہ سننا نہیں پڑے ۔ ہر دو صورت میں لڑکی والوں کی مجبوریاں ہوتی ہیں ۔ اگر سماج میں اس رسم کا خاتمہ ہو جائے تو لڑکی والوں کو سکون مل سکتا ہے ۔ جہیز کے مطالبہ کی ایک وجہ وراثت کی عدم ادائیگی بھی ہے ۔ بیٹوں کو پھر بھی کسی طرح باپ کی وراثت میں کچھ نہ کچھ مل ہی جاتا ہے یا وہ لڑ جھگڑ کر کچھ نہ کچھ حاصل کر ہی لیتے ہیں مگر بیٹیوں کے معاملے میں یہ بات نہیں ہوتی ہے اور انھیں وراثت میں حصّہ نہیں ملتا ہے ۔

اسی لئے لڑکے والے سوچتے ہیں کہ بہو خالی ہاتھ آنے سے اچھا ہے کہ شادی کے موقع پر ہی کچھ مل جائے تو اچھا ہے ۔ جہیز کی لعنت کی ایک وجہ آج کل کے لڑکوں کی منفی سوچ بھی ہے ۔ دور حاضر کے نوجوانوں میں محنت و مشقت کرنے کی بجائے تن آسانی عام ہوگئی ہے ۔ بغیر محنت کئے ہی کمانے کی نفسیات نے نوجوانوں کو اس طرف راغب کیا ہے کہ بیوی کے مائیکہ سے آمدنی ہوتی رہے ۔یہی وجہ کہ نوجوان شادی کے وقت بھی اور شادی کے بعد بھی جہیز کا مطالبہ کرتے رہتے ہیں۔ نوجوانوں کی ذہن سازی کرنے کی ضرورت ہے ۔ انھیں اس بے غیرتی سے باز رکھنے کی کوشش کی جانی چاہئے۔ نوجوانوں کو سمجھانے کی ضرورت ہے کہ ہاتھ سے کمائی ہوئی بہت با برکت ہوتی ہے ۔      

اس دور میں بیٹی کا باپ بننا ایک بہت ہی ڈراؤنا خواب بن گیا ہے ۔ بیٹی کو پیدا ہونے کے بعد بڑی محنت سے پال پوس کر بڑا کرو ۔ پڑھاؤ اور اعلیٰ تعلیم دلاؤ۔ کیونکہ آج کے زمانے میں تعلیم یافتہ کا مطالبہ نوجوان کرنے لگے ہیں ۔ اسی والدین قربانیاں دے کر اپنی بیٹیوں کو اعلیٰ تعلیم دلاتے ہیں ۔ جب شادی کا وقت آتا ہے تو اپنی عمر بھر کی کمائی جو بڑی محنت و مشقت سے اور خود  بھوکا پیاسا رہ کر جمع کی ہوئی ساری جمع پونجی جہیز کے نام پر لین دین کے نام پر لڑکے والوں کے حوالے کردو۔ اس کے باوجود ان کم ظرف لوگوں کا دل نہیں بھرتا ہے اور وہ شادی کے بعد بھی لڑکی کے گھر والوں کو لگاتار پریشان کرتے رہتے ہیں ۔ کیا پال پوس کر بڑا کرنا کافی نہیں ہے ۔ کیا اعلیٰ تعلیم دلانا کافی نہیں ہے ۔ یہ ظلم نہیں ہے تو پھر کیا ہے ۔            

ہمارے سماج میں دینداری بھی ایک فیشن بن گئی ہے ۔ یہ دینداری خوفِ خدا کا نتیجہ نہیں ہے بلکہ سماج کو دکھانے کے لئے ہے ۔ معاشرے پر اپنی دینداری کا رعب دکھانے کے لئے شرعی شادی کا چلن عام ہورہا ہے ۔ مگر ایسی شادیاں زیادہ تر دکھاوے کے لئے ہی ہوتی ہیں۔ کیونکہ ایسی شادیوں میں ظاہری طور پر سادگی سے نکاح کی تقریب منعقد ہوتی ہے۔ دلہے میاں ایک سیدھا سادہ کرتا پائجامہ  زیب تن کرکے مسجد میں جاتے ہیں اور مصلیان کی موجودگی میں سادگی سے نکاح خوانی ہو جاتی ہے۔چھوہاروں کی تقسیم کے ساتھ ہی ہر طرف سے داد تحسینپیش کی جاتی ہے کہ بھائی کتنا سادہ اور شرعی حکم کے مطابق نکاح کی تقریب منعقد ہوئی۔ مگر بعد میں دولہے میاں  گھر جاتے ہیں اور انتہائی بھاری اور بیش قیمت سوٹ پہن کر عالیشان شادی خانہ کا رخ کرتے ہیں۔ پھر اس شادی خانہ ہر وہ برائی ہوتی ہے جو ممنوع ہے۔ ویڈیو شوٹ ہوتا ہے ۔ کئی قسم کے پکوان ہوتے ہیں۔ بے پردگی ہوتی ہے ۔ آخر یہ کیسی شرعی شادی ہے ۔ آخر ہم کس کو دھوکہ دے رہے ہیں ۔ شرعی شادی کے نام پر شریعت کا مذاق اڑایا جا رہا ہے۔    

مذہب اسلام  میں خودکشی حرام کام ہے،مگر بہت سے مسلمان خودکشی کر رہے ہیں ۔ علماء کا کام ہے کہ وہ عوام کی تربیت کریں ۔ انھیں سخت حالات میں بھی صبر کا دامن ہاتھ سے نہ چھوڑنے کی تلقین کریں ۔ حالات بہت زیادہ خراب ہیں ۔ایسے میں ہم اپنے قابلِ اصلاح پہلوؤں پر غور کرکے فوراً اس کی اصلاح کی کوشش نہ کی تو سماج ٹوٹ کر بکھرنے لگے گا ۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

error: Content is protected !!