خواتینسماجیمضامین

تم حجاب میں رہو، زمانہ اوقات میں رہے گا

شاہانہ خانم، حیدرآباد

حیا اور وفا اگرکسی عورت میں ہے تو اس سے بڑھ کر کوئی دوسری عورت خوب صورت نہیں ہوسکتی۔

آج کا انسان عورت کی آزادی چاہتا ہے۔سامنے روزانہ سڑکوں،پارکوں اورسر عام جسم فروشی ہوتی ہے، سکولوں، کالجوں کے لڑکے بالوں کے وہ سٹائل بنا کر پھرتے ہیں جن کو ہمارے زمانے میں ہمارے بزرگ ”کینرا سٹائل“ کہا کرتے تھے اور اب یہ عام رواج ہے۔ ہر گلی میں دو دو بیوٹی سیلون کھل گئے ہیں جس میں لڑکے میک اپ کرواتے ہیں۔ یہ قوم کی نئی نسل کیا لڑے گی اپنی زمین کے لئے جو نائی کی دکان پر جا کر نئے سٹائل کے بال کٹوانے میں مگن ہے اور ہیجڑوں کی طرح سرخی پاؤڈر لگا کر بننے سنورنے میں مگن ہے۔۔۔!!
سوشل میڈیا کی دنیا میں کوئی پرنس ہے تو کوئی کنگ، چارمنگ ہے تو کوئی مون، ارے کوئی انسان بھی ہے یا۔۔۔؟؟

سارا سارا دن لڑکیوں سے باتیں کرتے رہتے ہیں۔ ان لڑکیوں کے والدین پر مجھے حیرت ہوتی ہے جو اتنے بے خبر ہیں اپنی بچیوں کی جانب سے۔
کوتاہیاں اپنی ہوتی ہیں پھر الزام کمپیوٹر پر، موبائل فونز پر اور انٹر نیٹ پر دھر دیتے ہیں۔ وہ عورتیں جو باہر نکلتی ہیں ان کو بنتے سنورتے یہ سوچنا چاہئے کہ باہر کی جو دنیا ہے وہ اندھی نہیں ہے، ان کی آنکھیں ہیں اور مفت میں قاضی بھی نہیں چھوڑا کرتا۔ عورت تو پھر مرد کی کمزوری ہے وہ اس سہولت سے فائدہ کیونکر نہ اٹھائے۔

خدا کا خوف ختم اور پیسے کا خوف بڑا ہو گیا ہے۔ لوگوں کو یہ فکر نہیں رہی کہ ان کے گھر کی بچیاں نئے نئے موبائل فونز کہاں سے لا رہی ہیں، وہ اس بات پر خوش ہیں کہ ان کی بچیوں اور بچوں کے دوست کتنے اچھے ہیں جو ان کو اتنے مہنگے تحائف دیتے ہیں۔ ایک لمحے کو اگر وہ یہ سوچیں کہ جو موبائل ان کی بیٹی نے اٹھایا ہے اس کی قیمت نقد نہیں بلکہ جسمانی مشقت سے چکائی ہے تو شرم سے ڈوب مریں لیکن جہاں اقدار پر پیسہ حاوی ہو جائے وہاں غیرت پر بے غیرتی حاوی ہو جاتی ہے اور یہی ہو رہا ہے اور تب تک ہوتا رہے گا جب تک ہم اس روش کو ترک نہیں کریں…!!

کالج کے سولہ سترہ سالہ لڑکی اوربیس سالہ لڑکا بغیر نکاح کے ناجائزجنسی تعلقات کیساتھ ایک ساتھ رہیں ہیں۔ماں باپ کے بھروسے اور ان کی عزت کی دھجیاں اڑارہے ہیں۔ایسے کئی کیسس ہیں جو ہمارے معاشرے میں بگاڑ پیدا کرتا ہیں۔یہ بہت سنجیدہ مسئلہ ہے ہمارے معاشرے کی سب سے بڑی گندگی ہے جس میں عورت کو بے حیا اور بے پردہ کررہیں ہیں۔ اصل مسئلہ ازواجی زندگی میں پیدا ہوتا ہے جب لڑکے کو معلوم ہوتا ہے کہ وہ پہلے سے ہی اپنی حیا کا سودا کرچکی ہوں۔ کوئی غیرمند یہ نہیں چاہیں گا کہ وہ کسی ایسی لڑکی سے رشتہ رکھے جس کی حیا تارتار ہوگئی ہو۔

یہ جھوٹ ہے کی آج کا انسان عورت کی آزادی چاہتا ہے، بلکہ سچ بات تو یہ ہے کی وہ عورت تک پہنچنے کی آزادی چاہتا ہے۔حیا اور وفا اگرکسی عورت میں ہے تو اس سے بڑھ کر کوئی دوسری عورت خوب صورت نہیں ہوسکتی۔
نا محرم کے لئے بننے سجنے والی عورت بھکاری کے کشکول کی طرح ہوتی ہے جودوسروں کی نظرکی محتاج ہوتی ہے

اسلام میں ہے کہ ہرعورت کی عزت اور اس کی حیا ہوتی ہے۔جبکہ آج اس کے مقابل مغربی تہذیب ہے جس کی بنیاد ہی بے حیائی پرہے۔جس کا منطقی نتیجہ یہ ہے کہ مغرب میں عورت کی حیثیت صفائی کے لیے استعمال کیے جانے والے اس ٹیشو پیپر کی طرح ہوتی ہے جس کو ہرآدمی جب چاہے اپنی ضرورت کے لیے استعمال کرے اور پھینک دے۔مرد کے کفن میں تین کپڑے ہوتے ہیں جبکہ مسلمان عورت کے کفن میں پانچ کپڑے ہوتے ہیں، 2زائدکپڑوں میں ایک سکارف اوردوسرا سینہ بند ہوتا ہے۔افسوس ہے اس مسلمان عورت پر جو پوری زندگی اپنا سراور سینہ کھلا رکھ کر فیشن میں رہتی ہیں۔اے مسلمان عورت افسوس ہے تجھ پر اللہ تجھ سے کتنی حیاء کرتے ہیں لیکن تو اللہ سے بالکل حیانہیں کرتی……؟ایک باحیا اورباپردہ عورت ہزار بے حیا اور بے پردہ عورتوں سے بہتر ہے اسلئے نہیں کہ وہ پردہ کرتی ہے بلکہ اسلئے کہ وہ اپنے نفس کو قابو میں رکھ کر اپنے عورت ہونے کا حق ادا کردیتی ہے۔

بے حیائی کو فیشن کہنا ایسا ہی ہے جیسے زہرکو شہد کہنا، نام بدل دینے سے اثرنہیں بدل جاتا۔ جس کتاب میں عورت کو پردہ کرنے کوکہا گیا ہے اسی کتاب میں مرد کونگاہ نیچے رکھ کر چلنے کا حکم دیا گیا ہے۔ راہ چلتی عورت کو دیکھ کر نگاہ نیچی کرلیا کروتو لوگ تمہاری عزتوں کودیکھ کر سرجھکالیا کریں گی۔ کسی مرد کا باحیا ہونا اس کے خاندانی ہونی کی نشانی ہے ایسے مرد کی غیرت گوارہ ہی نہیں کرتی کہ وہ راہ چلتی عورت کوآنکھ اٹھا کر دیکھے ایسے مردوں کوبھی بناؤ سنگھارپسند ہوتا مگر صرف ان کا جو انکے نکاح میں ہوتی……

عورت برباد اُس وقت ہوتی ہے۔جس وقت جب وہ غیر مردوں سے اپنی تعریف سن کر خوشی محسوس کرتی ہے۔مردکی غیرت کا اندازہ اس کے ساتھ چلتی عورت کے لباس سے لگایا جاسکتا ہے۔ایک بات بہت مشہور ہے کہ عورت کا کوئی گھر نہیں ہوتا، پہلے وہ باپ کے گھرمیں رہتی ہے پھر میاں کے گھر اور پھر بیٹوں کے گھر۔ سننے میں کافی خوشنما لگتا ہے اورہماری خواتین میں یہ کافی مقبول ہے۔ لیکن حقیقت کیاہے؟ حقیقت یہ ہے کہ عورت کے بغیر کوئی گھر،گھر نہیں ہوتا۔ آپ نے اکثر دیکھا ہوگا کہ جس مکان میں فقط مرد رہتے ہوں ان میں محلہ کے لوگ جانا پسند نہیں کرتے،تعلق رکھنا پسند نہیں کرتے۔ اس طرح عزیز و اقارب بھی ایسے عزیز کے گھر نہیں جاتے جو تنہا رہتا ہو۔ اس مکان کو گھر کا درجہ کس وجہ سے ملتا ہے؟ کون اینٹوں سے بنے اس مکان میں محبت،اپنائیت اور مسکراہٹیں رحمتیں اور برکتیں شامل کرتی ہے؟ یہ اعزاز فقط عورت کی قسمت میں ہے۔ کوئی گھر عورت کے بغیر گھر کہلانے کے قابل نہیں ہوتا۔ عورت کا بیشک مکان ہو نہ ہو لیکن گھر عورت کا ہی ہوتا ہے، گھر عورت کے بغیر ادھورا اور نامکمل ہے۔

یہ دنیا بھی کتنی عجیب ہے ایمان دار کوبیوقوف،بے ایمان کوعقل مند اور بے حیا عورت کو خوبصورت کہتی ہے۔جو لڑکیاں پردہ نہیں کرتیں اورسوچتی ہیں کہ ہمارا ذہن تو صاف ہے توان کے لیے عرض ہے کہ تمہاراذہن کتنا بھی صاف ہوآپ کا دل اللہ کے رسولﷺ کی بیٹی سے زیادہ1898 صاف نہیں ہوسکتا اورپردہ کرنے کا حکم انہیں بھی تھا۔ایک ان پڑھ باپردہ اورباحیا عورت اس پی ایچ ڈی عورت سے کہیں بہتر ہے جس کے پاس ڈگری توہے لیکن پردہ اور حیا نہیں۔
ایمان والی عورت کا اصلی زیور سونا چاندی نہیں بلکہ حیا اور پردہ ہے۔ اس لئے تم حجاب میں رہو زمانہ اپنی اوقات میں رہے گا۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

error: Content is protected !!