حالاتِ حاضرہسماجیمضامین

ایک مہنگی شادی میں مولانا طارق جمیل صاحب کی شرکت!

ڈاکٹر علیم خان فلکی

پاکستان کی ایک شادی جس میں کئی کروڑ کا اسراف و تبذیر تھا، مولانا طارق جمیل صاحب نے نہ صرف شرکت فرمائی بلکہ  خطبہٴ نکاح اور وعظ و نصیحت بھی پیش فرمائی۔ کیا ایسی شادی میں مولانا کا شرکت کرنا درست تھا، یہ آج کا اہم بلکہ اہم ترین موضوع ہے، کیونکہ شرعی طور پر اور اخلاقی طور پر ایسی تقریبات میں شرکت کرنا جو خلافِ سنّت ہوں، جہاں کئی منکرات یعنی حرام کاموں کا ارتکاب ہوتا ہو، قطعی جائز نہیں ہے۔ علما کا اس بات پر اجماع ہے کہ اگر علما اور مشائخین کو جانے سے پہلے ان منکرات کا علم نہ ہو، اور جانے کے بعد پتہ چلے تو انہیں فوری واپس پلٹ جانا چاہئے۔ صحابہؓ  کا تو یہ عمل تھا کہ نہ صرف واپس پلٹتے بلکہ میزبان کو ایک تھپّڑ بھی رسید کرکے یہ کہتے کہ ”جو کام ہمارے نبی ﷺ نے نہیں کیا، تیری کیسے ہمت ہوئی؟“۔ (تفصیلات کے لئے ہماری کتاب ”آج کی دعوتوں کا بائیکاٹ۔۔ ایک جہاد“ ملاحظہ فرمایئے)۔

اس سلسلے میں جب ہماری ایک ویڈیو جاری ہوئی تو دو دن میں تقریباً پانچ ہزار کامنٹس وصول ہوئے۔ ہم نے مولانا ہی کے بارے میں نہیں بلکہ تمام دیگر مسلکوں کے علما کی ایسی غیراسلامی، منکرات سے بھرپور شادیوں میں شرکت کے معاملے میں غفلت اور سنّت سے انحراف کی طرف توجہ دلائی تھی۔ افسوس کی بات یہ ہے کہ کسی نے اصل نکتہ پر بات ہی نہیں کی۔ بلکہ وہ سمجھے ہی نہیں کہ ایسی شادیوں میں شرکت کیوں ناجائز ہے۔انہیں غصہ صرف اس بات پر تھا کہ ان کے علما اور ان کے مسلکوں پر تنقید کیوں کی گئی۔ کسی نے ہماری داڑھی ناپی تو کسی نے اپنے مسلک اور اس کے علما کے امت پر احسانات اور خدمات کی ایک طویل فہرست کا حوالہ پیش کی۔افسوس کی بات یہ ہے کہ  جس زبان اور اسلوب میں لوگوں نے کامنٹ کیئے، وہ گالیوں اور بیہودہ الفاظ سے لبریز کامنٹ سیاسی مسلم دشمن پارٹیوں کے ورکرز کو زیب دیتے ہیں۔

پہلے یہ دیکھئے کہ ایسی شادیاں جو سنّت سے ہٹ کر ہیں، جن میں ہندوؤانہ رسموں جیسے منگنی، بارات کا کھانا، جہیز، جوڑے یا ہُنڈے کی رقم، اوربے شمار چھچھوری رسمیں ہیں، ایسی شادیوں میں شرکت کرنا کیا جائز ہے؟ چونکہ سارے فتاوے جو لکھے گئے وہ عرب علما و فقہا نے لکھے ہیں جن کے ہاں شادی نام کی کوئی چیز نہیں تھی، صرف لفظ نکاح تھا۔ ان کے دور میں ان مشرکانہ رسوم و رواج کا دور دور تک کوئی وجود نہیں تھا۔  اس لئے ان قدیم فتاووں میں ان چیزوں کے جائز یا ناجائز ہونے کا زکر ہی نہیں ملتا۔ یہ رسمیں خالصتاً ہندوستانی ہیں جو رامچندرجی، سیتاجی سے چلی آرہی ہیں۔ مہارانی جودھا بائی نے ان رسموں کو لاکر مغلوں کے دربار میں بھی رائج کردیا۔نکاح جس کو نبی ﷺ نے آدھے دین کی تکمیل فرمایا، کیا وجہ ہے کہ طلاق کے مسئلے پر توخوب تحقیق ہوئی، ضخیم کتابیں لکھی گئیں۔ ایسے ایسے صحابیوں کے طلاق کے واقعات جن کا زکرتاریخ میں، اس طلاق کے واقعہ کے علاوہ اور کہیں نہیں ملتا، ان واقعات کو لے کر طلاق کے تمام قوانین بنادیئے گے، اور یہ ذہن نشین کروادیا گیا کہ جو بھی ان قوانین کے خلاف طلاق یا سمجھوتہ کرے، وہ خارج از اسلام ہے۔

سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ طلاق بمشکل ایک یا دو فیصد ہوتے ہیں، جب کہ نکاح 99% ہوتے ہیں۔ جس سختی سے طلاق کے قوانین مرتّب کئے گئے اس سے 99% زیادہ سختی سے نکاح کے قوانین کو رائج کرنے کی ضرورت تھی، لیکن نکاح کے مسائل کو مکمل رسم و رواج، خاندانوں، قبیلوں اور عرف یعنی اکثریت کے عمل پر چھوڑ دیا گیا۔ اب جب کہ یہ رسمیں اس قدر مضبوط ہوچکی ہیں کہ ہندوستان سے سارے بُت توڑے جاسکتے ہیں لیکن مسلمانوں کے ذہنوں سے جہیز، بارات  اور فضول رسموں کو نکالنا نا ممکن ہوچکا ہے۔ یہ عہدِ حاضرکے علما کی ایک مجرمانہ غفلت ہے کہ انہوں نے طلاق کے قوانین پر تو خوب تحقیق کی لیکن نکاح کے قوانین مرتب کرنے پر کبھی توجہ نہیں کی، کیونکہ وہ تمام علما بھی عام انسانوں کی طرح ان دعوتوں کے اتنے خوگر ہوچکے ہیں کہ اکثریت کے خلاف آواز اٹھانے کی ہمت ان میں نہیں ہے۔ اس لئے اس جہیز اور بارات کو ”خوشی سے“ دینے کا جواز پیدا کرکے چور دروازے کھول دیئے۔ علما حق ہر دور میں رہے ہیں، کئی علما ایسے موجود ہیں جنہوں نے ایسی خلافِ سنت شادیوں کے خلاف آواز اٹھائی اور ایسی شادیوں میں شرکت نہیں کی لیکن ان کی تعداد بہت کم ہے۔  ایسے علما مشائخین اور مولویوں کی تعداد ہر دور میں زیادہ رہی جوشادیوں میں خوشی سے خرچ کرنے والوں کی دعوتوں کا بائیکاٹ کرکے ان کو ناراض کرنا نہیں چاہتے۔کیونکہ اس کی وجہ سے ایک طرف مدرسوں کے چندے بند ہوجانے کا بھی خطرہ ہے، دوسری طرف تعلقات کی بقا بھی پیشِ نظرہے۔ کوئی شادی اگر کسی ایک عالم کی نظر میں اسراف و تبذیرہے تو کسی دوسرے عالم کے نزدیک میزبان کے اس سے قریبی دیرینہ تعلقات ہونے کی بِنا اس میں شرکت جائز ہے۔

یا د رہے اصل نکتہ یہ ہے کہ ایسی شادیوں میں شرکت کرنا ناجائز کیوں ہے۔ مولانا طارق جمیل صاحب تنہا نہیں ہیں جنہوں نے ایسی بارات میں شرکت فرمائی، ہر مسلک کے اکابرین  اور سلسلوں کے مشائخین نہ صرف شرکت کو جائز کرلیتے ہیں بلکہ خود اپنے گھروں کی شادیوں میں انہی کی نقل کرتے ہیں جن کی شادیوں میں شرکت فرماچکے ہیں۔چند ایک جن کو انگلیوں پر گِنا جاسکتا ہے، وہ علما اور مشائخین ضرور موجود ہیں جو ڈنکے کی چوٹ پر کہتے ہیں کہ نہ ایسی شادیاں جائز ہیں اور نہ ان میں شرکت جائز ہے۔ اس سوال پر بعدمیں گفتگو کریں گے کہ علما کی ذات تنقید اور احتساب سے بالا تر ہے یا نہیں، اس وقت جو سوالات اٹھ کھڑے ہوئے ہیں، جنہیں ہم بے شمار علما اور مشائخین کو بھیج چکے ہیں لیکن کوئی جواب دینے کے لئے تیار نہیں، وہ ہیں:

٭ سنّت کی شرعی اور اخلاقی حیثیت کیا ہے؟ مطلب یہ کہ کوئی شخص کسی بھی سنّت چاہے وہ طہارت، وضو یا غسل کی سنت ہو، چاہے داڑھی، ٹخنوں سے اوپر پائنچوں یا ستر کی ہو، اگر کوئی شخص کہے کہ میں  سنّت کو ضروری نہیں سمجھتا، میں اپنی سہولت سے انجام دوں گا، اس شخص کے فعل کو کیا کہا جائے گا، حرام، کفر، بدعت، ناجائز، مباح یا کیا؟ ایسے شخص کو کیا امام بنایا جاسکتا ہے؟ ایسے شخص کو منبر و محراب پر درس و وعظ کا کیا حق دیا جائیگا؟ ایسے شخص کو مسجد کی کمیٹی کا  یا جماعت کا کوئی عہدہ دیا جاسکتا ہے؟

٭ اسی طرح رسول اللہ ﷺ کے یا ان کی بیٹیوں کے یا ان کے کسی بھی صحابی ؓ کے نکاح جس طرح ہوئے، کوئی شخص یہ سمجھتا ہے کہ وہ کلچر الگ تھا، میں اس کلچر پر نہیں چل سکتا، ان کی استطاعت نہیں تھی مگر میری استطاعت ہے، ان لوگوں کا شائد خاندان بڑا نہیں ہوگا، ان لوگوں کا بشمول رسول اللہ ﷺ سرکل اتنا وسیع نہیں ہوگا لیکن میرا خاندان اور میرا سرکل بہت بڑا ہے، میں ہزاروں لوگوں کو ضرور جمع کرنا اور زیادہ خرچ کرنا میرے لئے ضروری ہے، ورنہ ”لوگ کیا کہیں گے“؟ اس لئے میں ان رسموں کو نہیں روک سکتا۔ شریعت کی روشنی میں یہ فعل حرام ہوگا، مکروہ ہوگا، ناجائز ہوگا، منکر ہوگا، مباح ہوگا یا معروف ہوگا یا کیا ہوگا؟ ایسی شادی کی کسی بھی تقریب میں شرکت کرنا کیا ہوگا، حرام، جائز، ناجائز، مکروہ، فرض، سنّت، واجب، مباح، باعثِ ثواب  یا کیا؟

٭ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا سب سے بہترین نکاح وہ ہے جو آسان ہو۔ لیکن اگر کوئی اسے معاشرے میں خوب خرچ کرکے اتنا مشکل بنادیتا ہے کہ وہ ماڈل بن جاتا ہے، اگر کوئی دوسرا آدمی جہیز یا کھانا دینے کی استطاعت نہیں رکھتا تو اس کی بیٹی کی اچھے گھر میں شادی ناممکن ہوجاتی ہے، مجبوراً لوگوں کو گھر فروخت کرنا پڑتا ہے، سود پر قرض لینا پڑتا ہے، لڑکیوں کو غلط راستوں پر جانا پڑتا ہے، لڑکیوں کے بھائی کنگال ہوجاتے ہیں، اور بہت ساری برائیاں معاشرے میں جنم لیتی ہیں۔رسول اللہ ﷺ فرماتے ہیں بہترین نکاح وہ ہے جو آسان ہو، بہترین کا الٹا بدترین ہوتا ہے۔ اگر کوئی شخص اپنی دولت کے سہارے بہترین کے بجائے بدترین نکاح کرتا ہے تو ہر لڑکے کے ماں باپ کے دل میں حِرص پیدا ہونا عین فطری بات ہے۔ کیا یہ فتنہ نہیں ہے؟ کیا فتنہ کی سزا موت نہیں ہے؟ ایسی شادیوں میں شرکت کیا فتنہ کو بڑھاوا دینا نہیں ہے؟

٭ نبی ﷺ اور صحابہؓ کے نکاح کے طریقے نکاح کے قوانین کیوں نہیں بن سکے جس طرح کہ طلاق کے طریقے قوانین بن گئے؟ رسول اللہ ﷺ کا سب سے بڑا ولیمہ ایک بکرے کا تھا، حضرت علیﷺ کا ولیمہ بھی ایک بکرے پر تھا جو کہ آپ خود نہیں کرسکے، ایک صحابی حضرت سعدؓ نے کیا، عبدالرحمٰن بن عوفؓ نے رسول اللہ ﷺ کو نہ نکاح میں بلایا نہ  ولیمہ میں، حضرت علیؓ نے اپنی قیمتی شئے فروخت کرکے پہلے مہر حوالے کیا پھر نکاح ہوا اور اسی رقم سے رسول اللہ ﷺ نے کچھ سامان جس کو لوگ جہیز کہتے ہیں، وہ خریدا، صحابہؓ نے کبھی مہر نقد دیئے بغیر نکاح نہ کیا، کسی نے سونا دیا، جن کے پاس نہیں تھاانہوں نے صرف ایک چادر، ایک لوہے کی انگوٹھی، اور اگر یہ بھی میسرّنہ تھا تو قرآن کی کچھ آیات یاد دلانے کو مہر کے برابر قرار دے کر نکاح کیا، سوال یہ ہے کہ یہ واقعات صرف سادگی سے شادی کرنے کی تلقین کرنے کے لئے وعظ یا تقریر میں میٹھی میٹھی باتوں کی حیثیت رکھتے ہیں یا یہ مثالیں اسلام کے قوانینِ نکاح کو مرتّب کرنے کے لئے اہم ہدایات ہیں، اسی طرح جس طرح طلاق کے واقعات ہیں جن کی روشنی  میں  طلاق کے قوانین مرتّب کئے گئے؟

٭ رسول اللہ ﷺ نے کھانے کھلائے، مہمان نوازی کی، تحفے دیئے، صحابہؓ نے بھی یہی عمل ہمیشہ جاری رکھا۔ لیکن یہ سب دین کی دعوت، تبلیغ، غزوات اور جہاد کے مواقع پر کیا۔ اگر یہ سب شادیوں کے موقعوں پر آپ ﷺ جائز کردیتے تو مدینہ میں کوئی شادی ایسی نہ ہوتی جس میں مہمانوں کی فہرست میں سب سے پہلے رسول اللہ ﷺ اور ان  کا گھرانہ ہوتا۔ اہلِ بیت اور امہات المومنین ؓ کبھی فاقوں کا سامنا نہ کرتے۔ ایک بار کا واقعہ ہے کہ رسول اللہ ﷺ بیٹی فاطمہ ؓ کے گھر میں داخل ہوئے۔ حسن ؓ اور حسینؓ بچے تھے، رو رہے تھے۔ آپ ﷺ نے وجہ پوچھی تو بتایا کہ بچے صبح سے بھوکے ہیں۔ اللہ کے رسول ﷺ فرماتے ہیں، تمہارے رب کی قسم، ان کے نانا نے بھی دو دن سے کچھ نہیں کھایا۔ کیا مدینہ میں اس وقت کوئی شادی نہیں ہورہی تھی؟ کیا کسی گھر سے آپ ﷺ کے گھر والوں کو منگنی، بارات، سانچق، ہلدی، ولیمہ، جمعگی یا چوتھی کی دعوت نہیں آسکتی تھی۔ آپ ﷺ نے شادیوں کے موقعوں پر چھچھوری دعوتوں کو جائز کیوں نہیں کیا؟ کیوں حضرت علیؓ نے شائد ایسے ہی موقعوں کو دیکھ کر فرمایا کہ ”شریف آدمی کو غصے کے وقت اور رذیل آدمی کو خوشی کے وقت آزماو“، کیوں کہ رذیل آدمی خوشی کے موقعوں پر نہ قرآن کی بات سننا چاہتا ہے نہ سنّت کی۔ اگر کوئی کہنے کی کوشش کرے تو وہ اپنے خوشی کے موقع پر اس کو داخل ہونے نہیں دیتا۔ ایسی شادیاں کیوں اس دور کا سب سے بڑا فتنہ ہیں، کیوں جہیز حرام ہے، کیوں ان میں شرکت ناجائز ہے، کیوں ایسی شادیوں کا بائیکاٹ آج کے دور کا سب سے بڑا جہاد ہے، یہ تمام سوالات کے جوابات ہم نے علماءِ کرام کی آرا کی روشنی میں تین کتابوں میں جمع کردیئے ہیں جن کے پی ڈی ایف آwww.socioreforms.com   سے حاصل کرسکتے ہیں،

اس وقت ہم صرف اتنا عرض کرینگے کہ اگر علما نے آج کی شادیوں کے خلاف اصل حکم چھپایا اوراکثریت کی روِش کو جائز کردیا تو یہ امت غربت و افلاس،فحاشی اور ارتداد کی طرف بہت تیزی سے تو جارہی ہے، دوسری طرف فاشسٹوں کے ظلم کے خلاف اٹھنے کی بھی قابل نہیں رہے گی۔ جہاں تک یہ سوال ہے کہ کیا علما پر تنقید کرنا جائز ہے یا نہیں، یہ بھی اس دور کا اہم بلکہ اہم ترین سوال ہے۔ یہ شخصیت پرستی اور ”واتخذوا احبارھم و رھبانھم ارباباً من دون اللہ“ کی ایک مثال ہے۔ علما خود جو ایک دوسرے پر تنقید ہی نہیں بلکہ تکفیر اور تحقیر کررہے ہیں، وہ سب پر عیاں ہے۔ پانچ ہزار کامنٹس جو اب تک ہماری فیس بک پر آئے ہیں، ان کو پڑھنے سے معلوم ہوگاکہ عوام کی اکثریت آج بھی صرف اپنے علما اورمسلک کی دفاع میں لگی ہوئی ہے، انہیں ان موضوعات سے کوئی دلچسپی نہیں جن پر کام کرنا آج امت کی سب سے بڑی ضرورت ہے۔ یہی لوگ ہیں جو فرقوں کا مٹاو، ایک ہوجاو، اتحاد پیدا کرو کی پیاری پیاری باتیں کرتے ہیں، لیکن جب بات ان کے اپنے مسلک کی آتی ہے تو آپے سے باہر ہوجاتے ہیں۔

بھلا بتلایئے کہ جہیز اور بارات کا مسئلہ کس مسلک سے تعلق رکھتا ہے؟ کیا یہ سب کا مسئلہ نہیں ہے؟ کیا یہ علما کی غفلت کی وجہ سے پیدا نہیں ہوا؟ جب تک ان شادیوں کا بائیکاٹ نہیں کیا جائیگا، ایسے دعوت ناموں کو قبول کرنے سے انکار نہیں کیا جائیگا، فقط جہیز یا فضول خرچی پر تقریریں کرنے سے کیا یہ لعنت ختم ہوجائیگی؟ جب تک ہم ایسی شادیوں کا بائیکاٹ نہیں کرینگے، ہم منافقت کرتے رہیں گے، اور ہماری ہزاروں لڑکیاں غیروں کے ساتھ بھاگ جائینگی۔ لڑکیوں کے باپ اور بھائی لٹتے رہیں۔ ایک صاحب نے یہاں تک لکھ ڈالا کہ جو عالم کو برا بھلا کہے اس کی دس نسلوں تک کوئی عالم پیدا نہیں ہوگی۔ یہ تو منوسمرتی کا قول ہے کہ جو برہمن کو برابھلا کہے گا وہ اگلے جنم میں کتا بن کر پیدا ہوگا۔ معتقدین کے ذہنوں کو مقفّل کرنے کا یہ ایک طریقہ ہے۔ اللہ تعالیٰ کا ایک نام عادل ہے۔ وہ کیسے اتنا بڑا ناانصاف ہوسکتا ہے کہ باپ کی غلطی کی سزا اس کی اولاد کو دے۔

اس بات کے جھوٹ ہونے کا اس سے بڑا ثبوت اور کیا ہوسکتا ہے کہ ایک دشمنِ اسلام ابو جہل کا اپنا بیٹاایک انتہائی معزّز اور مکرم صحابی بن گیا یعنی حضرت عکرمہ ؓ۔ ایسی بے شمار مثالیں تاریخ میں موجود ہیں۔ چونکہ ہم لوگ ساتویں سنچری تک ہندو ہی تھے، ہمارے عقائد وہی تھے جو آج بھی نچلی ذاتوں کے ہیں۔ اگرچہ کہ وہ 85% ہیں، لیکن ذہنوں پر برہمن کی غلامی اس قدر مضبوط بیٹھی ہوئی ہے کہ غلامی سے باہر نہیں نکل سکتے۔ غلامی ان کا مضبوط ترین مذہب اور عقیدہ ہے۔ وہ برہمن پر تنقید اور اس کے احتساب کا سوچ بھی نہیں سکتے، لیکن اسلام اس سے بالکل مختلف ہے۔ حضرت خالد بن ولیدؓ کے کارناموں پر ضخیم کتابیں موجود ہیں، لیکن اس عظیم صحابی ؓ کو حضرت عمرؓ نے ایک ہی بات پر سپہ سالاری سے ہٹا دیا۔ چاہے کوئی کتنا بڑا عالمِ دین ہو، سخی ہو، سیاستدان ہو، چاہے اس سے اسلام سے کتنا بڑا فائدہ پہنچ رہا ہو، لیکن اگر وہ کسی سنت سے غفلت برتے اور اس کی وجہ سے امت کو نقصان پہنچتا ہو، تو ہم صرف اس لئے ان کو رعایت نہیں دے سکتے کہ وہ بہت بڑے عالم ہیں، یا لاکھوں روپیہ غریبوں پر خرچ کرتے ہیں یا پارلیمنٹ یا اسمبلی میں مسلمانوں کے حق میں شعلہ بیانی کرتے ہیں۔ رعایت دینے کا مطلب یہ ہے کہ اعلیٰ منصب پر پہنچنے کے بعد دین کے فائدے اور نقصان کا فیصلہ وہ خود کرینگے اور جہاں چاہے شریعت میں تبدیلی کرینگے۔

ایک سوال ہر آدمی اپنے ضمیر سے پوچھ لے اور فیصلہ کرلے کہ مولانا طارق جمیل صاحب یا کسی بھی مسلک کے علما صحیح کررہے ہیں یا غلط۔ وہ سوال ہے اگر نبی ﷺ آج زندہ ہوتے تو ایسی شادیوں کے بارے میں کیا کہتے؟ ابن کثیر، درمختار، فتاویٰ نذیریہ،ھدایہ، قدوری، وغیرہ لکھنے والے علما و فقہا اگر آج 2020 میں زندہ ہوتے تو کیا ایسی شادیوں میں شرکت کرکے ان مجرمین کی ہمت افزائی کرتے جوتبذیر کو حلال کررہے ہیں جو کہ حرام ہے؟ (ولا تبذروا ان المبذرین کانوا اخوان الشیٰطین)۔کیا ایسی دعوتوں کو جائز کرتے جن کی وجہ 5%  امیر زادے، رشوت خور آفیسرز، NRIs یا حرام کی دولت کمانے والے سیاستدان تو اپنی شان قائم کررہے ہیں لیکن 95% لوگ بیٹیوں اور بہنوں کی شادیوں کے بوجھ کی وجہ سے سخت ظلم اور مشقّت کا شکار ہیں؟

مختصر یہ کہ اگر آج معاشرے کی اصلاح کرنی ہے توعلماپر سب سے پہلے ایسی تمام تقریبات کا سختی سے بائیکاٹ کرنا لازم ہے جو سنّت کے خلاف ہیں۔یہ شادیاں منافق اور فاسق لوگوں کی ہیں جن کی تعریف یہ ہے کہ یہ لوگ جانتے ہیں کہ یہ چیزیں اسلام میں جائز نہیں، لیکن پھر بھی کوئی نہ کوئی بہانہ نکال کر اپنے لئے جائز کرلیتے ہیں۔ اور ایسی شادیوں میں شرکت کرنا ایسے منافقوں اور فاسقوں کی ہمت افزائی کرنا ہے۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

error: Content is protected !!