ٹیکنا لوجیسوشیل میڈیا سےوہاٹس ایپ سے آواز

انڈیا میں 20 کروڑ سے زائد لوگ واٹس ایپ کا استعمال کرتے ہیں.

انڈیا میں جعلی خبریں ایک بڑا مسئلہ ہے جو عام انتخابات سے قبل ایک سنگین شکل اختیار کرتا جا رہا ہے اور اسی صورتحال کے پیش نظر واٹس ایپ نے منگل کے روز انڈین صارفین کے لیے ایک نئی سروس متعارف کرانے کا فیصلہ کیا ہے جو معلومات کی تصدیق میں مدد دے گی۔

متعارف کرائے جانے والی نئی سروس کو ’چیک پوائنٹ ٹپ لائن‘ کا نام دیا گیا ہے۔ اس سروس پر تصدیق کے غرض سے پیغام تصویر اور ویڈیو کے علاوہ انگریزی اور چار علاقائی زبانوں میں بھیجا جاسکتا ہے۔

خبر رساں ادارے رؤئٹرز کے مطابق واٹس ایپ کی جانب سے جاری کردہ بیان میں کہا گیا ہے کہ وہ ایک مقامی سٹارٹ اپ پروٹو کی شراکت سے سروس کو موصول ہونے والے پیغامات کی درجہ بندی کرے گا۔ صارفین سے موصول ہونے والے پیغامات کی درجہ بندی ان کے صحیح، غلط، گمراہ کُن یا متنازعہ ہونے کی بنیاد پر کی جائے گی۔

اس سے ایک ڈیٹا بیس قائم کرنے میں بھی مدد ملے گی جس سے غلط معلومات سے متعلق بہتر سمجھ بوجھ مل سکے۔ واٹس ایپ کے مطابق پروٹو دو مزید اداروں کی مدد سے یہ کام کرے گا جن کو جعلی معلومات کے پھیلاؤ سے متعلق پراجیکٹس میں تجربہ حاصل ہے۔

انڈیا میں جعلی خبروں کا بازار گرم

انڈیا میں 20 کروڑ سے زائد لوگ واٹس ایپ کا استعمال کرتے ہیں اور حال ہی میں سماجی رابطے کی ویب سائٹ فیس بک اور واٹس ایپ کو شدید تنقید کا سامنا کرنا پڑا ہے۔

ناقدین ان کمپنیوں کو غلط معلومات کے پھیلاؤ کے لیے ایک مفید پلیٹ فارم تصور کرتے ہیں۔

گذشتہ برس واٹس ایپ نے انڈیا میں صارفین پر پابندی لگائی جس کے ذریعے وہ کسی بھی ایک پیغام کو پانچ سے زیادہ بار آگے نہیں بھیج سکتے۔ واٹس ایپ کے ذریعے پھیلنے والی جعلی خبروں کے باعث انڈیا میں ہجوم کے ہاتھوں ہلاکت کے متعدد واقعات سامنے آئے جس کے بعد واٹس ایپ نے یہ پالیسی انڈیا میں نافذ کر دی تھی۔

پاکستان میں ڈیجیٹل رائٹس پر کام کرنے والی تنظیم ‘بولو بھی’ کے ڈائریکٹر اسامہ خلجی کا کہنا ہے ’جعلی خبریں انڈیا میں ایک بہت سنگین مسئلہ ہے۔ ہم نے دیکھا ہے کہ مذہب کے نام پر بیف کھانے یا بیچنے والوں کو قتل کیا گیا ہے اور اس کی تشہیر بھی واٹس ایپ کے ذریعے ہی کی جاتی رہی ہے۔‘

ان کا کہنا تھا کہ ’سیاسی جماعتیں خصوصاً واٹس ایپ کا بہت استعمال کرتی ہیں اور ان جماعتوں کے حامی لوگ، پیغامات بغیر تصدیق کیے آگے فارورڈ کردیتے ہیں، اس لیے سوشل میڈیا کی کمپنیوں پر بھی بہت دباؤ ہے کہ وہ اس متعلق اقدامات اٹھائیں۔‘

روئٹرز کے مطابق انڈیا کی بڑی سیاسی جماعتوں نے ایک دوسرے پر واٹس ایپ پر جعلی معلومات پھیلانے کے الزامات لگائے ہیں۔ فروری میں واٹس ایپ کے ایک اعلیٰ افسر نے کہا تھا کہ جس ارادے سے واٹس ایپ کو متعارف کرایا گیا تھا، انڈیا کی سیاسی جماعتیں اس ایپ کو ویسے استعمال نہیں کر رہیں۔

صحافی اور تجزیہ کار عمار مسعود نے بی بی سی کو بتایا کہ ’دنیا بھر میں جعلی معلومات سے انتخابات پر اثر انداز ہونے کی کوشش کی جاتی ہے مگر انڈیا میں اس کی شدت کچھ زیادہ ہے۔ معذرت کے ساتھ میں یہ کہنے پر مجبور ہوں کہ وہاں کا میڈیا خصوصاً الیکٹرانک میڈیا لوگوں کو اشتعال دلاتا ہے۔‘

ان کا مزید کہنا تھا کہ ’انڈیا کے سوشل میڈیا پر بھی اس ڈرامائی انداز کا عنصر دیکھا جاسکتا ہے اور اس سے لوگوں میں، طبقات میں اور درجات میں جو نفرت پائی جاتی ہے، اس کی مزید تشہیر ہوتی ہے۔‘

عمار مسعود کا کہنا تھا کہ ’بدقسمتی سے انڈیا کی انتہا پسند جماعتیں واٹس ایپ کا استعمال کر کے قوم پرست لوگوں میں پاکستان کے خلاف نفرت پھیلاتی ہیں۔ جس کا بنیادی مقصد انتخابات میں نفرت کی بنیاد پر ووٹ حاصل کرنا ہوتا ہے۔‘

’سوچ کو تبدیل کرنا ضروری ہے‘

پیر کے روز فیس بک نے پاکستان اور انڈیا سے چلائے جانے والے ایسے درجنوں صفحات، گروپس اور پروفائلز کو بند کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔ فیس بک نے اپنے بیان میں کہا کہ ہم نے ان پیجز، گروپس اور اکاؤنٹس کو اس وجہ سے بلاک کیا کیونکہ یہ مربوط اور غیر مصدقہ طرز عمل میں ملوث پائے گئے۔

صحافی عمار مسعود کا کہنا تھا کہ ’پاکستانی اور انڈین جذباتی قوم ہیں۔ اس لیے ٹوئٹر پر بھی یہ دیکھا جاتا ہے کہ اگر کوئی یہ خبر شائع کرے کہ ہم نے دشمن ملک کے 50 فوجی مار دیے، تو لوگ بغیر سوچے سمجھے اور اس کی تصدیق کیے اس خبر کو ہزاروں کی تعداد میں ری ٹویٹ کر دیتے ہیں۔‘

’مسئلہ ٹوئٹر، واٹس ایپ یا فیس بک کا نہیں مسئلہ سوچ کا ہے اور سب سے پہلے سوچ کو تبدیل کرنا ضروری ہے۔‘

سوشل میڈیا

فیک یا جعلی خبر سے کیسے بچا جائے؟

اسامہ خلجی نے جعلی خبروں کی روک تھام سے متعلق اپنے ادارے کی کاوشوں پر روشنی ڈالتے ہوئے بتایا کہ ان کے ادارے نے معلومات کی تصدیق کے حوالے سے چند اہم نکات جو شائع کیے ہیں وہ لوگوں کو زیادہ سے زیادہ پڑھنے چاہیئں۔ ان کا مزید کہنا تھا کہ ’فیک نیوز کی روک تھام بہت ضروری ہے کیونکہ ہم دیکھ رہے ہیں کیسے سوشل میڈیا کے ذریعے حکومتیں گرائی جا رہی ہیں اور لوگوں کی سیاسی سوچ پر منفی اثر پڑ رہا ہے۔‘

پاکستان میں ڈیجیٹل حقوق پر کام کرنے والے ادارے ‘بائٹس فار آل’ کے پروگرام مینیجر ہارون بلوچ نے بی بی سی سے بات کرتے ہوئے ’فیک نیوز‘ یا جعلی خبروں سے بچنے کے لیے چند اہم نکات کا ذکر کیا۔ ان کا کہنا تھا کہ خبر جس بھی ذریعے سے موصول ہو صارفین کو سب سے پہلے اس کی ساکھ کی صحیح معنوں میں جانچ پڑتال کرنی چائیے۔`

ہارون بلوچ نے بتایا کہ ’تحریر میں استعمال ہونے والے الفاظ سے بھی یہ اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ خبر مستند ہے کہ نہیں۔ لوگوں کو کوشش کرنی چائیے کہ وہ خبر کو کسی مستند ذرائع سے تصدیق کروالیں۔‘

ان کا مزید کہنا تھا کہ ’سوشل میڈیا پر بہت سے لوگ من گھڑت کہانیاں بنا کر زیادہ سے زیادہ شیئر کرتے ہیں جن میں انفو گرافکس بھی شامل ہوتے ہیں مگر ان معلومات کا معیار بیشتر اوقات یہ واضح کردیتا ہے کہ یہ جعلی ہے۔‘ (بشکریہ: بی بی سی اردو)

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

error: Content is protected !!