الیکشن2019سیاسیمضامین

کیاکانگریس کوصرف مسلمانوں کا ووٹ چاہیے،مسلمان نہیں!

جو حضرات ملکی سیاست پر گہری نظر رکھتے ہیں وہ کانگریس اور بھاجپا کے درمیان اگر موازنہ کرنے کے لئے بیٹھیں گے تو وہ اسی نتیجے پر پہنچیں گے کہ بھاجپا مسلمانوں کی کھلی دشمن ہے تو کانگریس مسلمانوں کی چھپی دشمن ہے یعنی کانگریس پارٹی منافقت کا کردار ادا کرتی ہے ان کے منہ میں رام اور بغل میں چھری ہوتی ہے اور یہ اندر ہی اندر مسلمانوں کی بیخ کنی کا کام انجام دیتی ہے اس کے باوجود بھی مسلمان زیادہ تر کانگریس کو ہی ووٹ دیتے ہیں کیونکہ ان کے سامنے کوئی دوسرا آپشن نہیں ہوتا ہے یعنی کانگریس کو ووٹ دینا مسلمانوں کی مجبوری بن گیا ہے اور اس بات کو کانگریس بخوبی جانتی ہے اسی لئے وہ مسلمانوں کا آزادی کے بعد سے مسلسل سیاسی استحصال کرتی آرہی ہے۔
2014/میں مرکز میں بھاجپا کو جو اقتدار نصیب ہوا ہے وہ کانگریس پارٹی ہی کی غلط پالیسیوں کی وجہ سے ہوا ہے بلکہ یہ کہا جائے تو غلط نہیں ہوگا کہ کانگریس نے بھاجپا کو اقتدار کے سنگھاسن پر بیٹھایا ہے۔
2019/کے پارلیمانی انتخابات میں کانگریس کے یوپی میں سماج وادی پارٹی اور بہوجن سماج پارٹی کے ساتھ اتحاد نہ کرنا اور تنہا الیکشن لڑنا بھاجپا کے لئے اقتدار میں دوبارہ آنے کے لئے راستہ ہموار کرنا ہی ہے اور یوپی میں کانگریس تقریباً ختم ہوکر رہ گئی ہے۔ دہلی میں آپ پارٹی کانگریس کو اتحاد کی دعوت دے رہی ہے اور کانگریس ٹال مٹول سے کام لے رہی ہے۔
آسام میں بدر الدین اجمل قاسمی نے کانگریس سے اتحاد کی بھرپور کوشش کی لیکن کانگریس اس کے لئے بلکل تیار نہیں ہوئی۔ بالآخر بدر الدین اجمل قاسمی نے 17/ سیٹوں میں سے صرف تین پر اپنے امیدوار میدان میں اتارے اور باقی 14/ سیٹں کانگریس کے لئے چھوڑ دیں۔ لیکن کانگریس کو یہ ہضم نہیں ہوا اور یہاں پر مسلم دشمنی کا ثبوت دیتے ہوئے اس نے بدر الدین اجمل قاسمی کے سامنے ہی اپنا امیدوار میدان میں اتار دیا۔ کانگریس اسد الدین اویسی پر ایگریسیو پالیٹکس کا الزام عائد کرتی رہی ہے پھر آخر بدر الدین اجمل قاسمی سے کانگریس کو کیا پریشانی ہے۔ مہاراشٹر کی 48/ سیٹ میں سے صرف ایک سیٹ پر اسد الدین اویسی نے اپنا امیدوار میدان میں اتار ہے وہ بھی اورنگ آباد کی ایسی سیٹ سے جہاں 30/ سال سے شیوسینا الیکشن جیتتی رہی ہے لیکن پھر بھی کانگریس نے امتیاز جلیل کو ہرانے کے لیے اپنا امیدوار میدان میں اتار دیا۔
بہار کی صرف ایک سیٹ پر اسد الدین اویسی نے اختر الایمان کو اتارا ہے یہ وہی اختر الایمان ہیں جنہوں نے 2014/ میں کانگریس کے مولانا اسرار الحق قاسمی کو جتانے کے لیے اپنا ملا ہوا ٹکٹ واپس کرکے کانگریس کے مولانا اسرار الحق قاسمی کو سپورٹ کیا تھا۔ آج اسی کانگریس نے اختر الایمان کو ہرانے کے لیے اپنا امیدوار میدان میں اتار دیا۔ کانگریس پارٹی کے صدر راہول گاندھی نے دوسری جگہ سے الیکشن لڑنے کا فیصلہ کیا تو اسی حلقہ انتخاب کو چنا جہاں پر مسلمانوں کی 56/فیصد اکثریت ہے اس طرح مسلمانوں کی اکثریت والی ایک اور سیٹ پر کانگریس نے قبضہ کرلیا ہے اور کتنے ثبوت چاہیے کانگریس کی مسلم دشمنی کے۔
ایسا لگتا ہے کہ کانگریس کا مقصد ہرگز بی جے پی کو ہرانا نہیں ہے بلکہ مسلمانوں حاشیہ پر رکھنا ہے اور مسلمان ہیں کہ بی جے پی کو ہرانے کے چکر میں نسل در نسل کانگریس کو ووٹ دیتے ہوئے ہیں کیا بی جے پی کو ہرانے کا ذمہ صرف مسلمانوں نے لیا ہے کیا۔؟؟؟
کانگریس کے مسلم راہنما اپنی پارٹی کی مسلم دشمنی پر منہ میں نپل دبائے کب تک خاموش تماشائی بنے ہوئے نظارہ کرتے رہے گے کیا ان کی حیثیت کانگریس پارٹی میں گونگے بہرے لوگوں جیسی ہوکر رہ گئی ہے۔ انہیں اب یہ طے کرنا پڑے گا وہ پارٹی میں ملک کے مسلمانوں کی نمائندگی کرتے ہیں یا پھر کانگریس پارٹی کی؟
حال ہی میں ملت ٹائمز کانکلیو میں علما و دانشوران ملت اور اسکالرس نے پارلیمانی انتخابات 2019 کے پیش نظر یہ لائحہ عمل طے کیا ہے کہ 70/سالوں میں ہم نے کانگریس ،آرجے ڈی ،ایس پی ۔ بی ایس پی ۔ ٹی ایم سی ، جے ڈی ایس ۔سی پی ایم سمیت تقریبا سبھی سیاسی پارٹیوں پر بھروسہ کیا ۔ان کے نمائندوں کو مسلم اکثریتی حلقوں سے ووٹ دیکر کر ایوان پالیمنٹ میں بھیجا۔ حالیہ انتخابات میں ملک کے لوک سبھا کی جن سیٹوں پر آل انڈیا یونائٹیڈ ڈیموکریٹک فرنٹ ، آ ل انڈیا مجلس اتحاد المسلمین ، سوشل ڈیموکریٹک پارٹی آف انڈیا ۔ ویلفیئر پارٹی آف انڈیا، راشٹریہ علماءکونسل، سمیت متعدد قابل ذکر مسلم لیڈر شپ والی پارٹیوں کے جونمائندے انتخاب لڑرہے ہیں وہاں مسلمانوں کو انہیں بھر پور سپورٹ کرنا چاہیئے اور بڑی تعداد میں ووٹ دیکر انہیں پارلیمنٹ میں بھیجنا چاہیے۔ یہ لوگ ہندوستان کے مسلمانوں ،کمزوروں ،مظلوموں ،اقلیتوں ،دلتوں اور پسماندہ طبقات کی مضبوط آواز ہوں گے اور ان کی حقوق کی لڑائی لڑیں گے اور نظریاتی سطح پر ہماری ترجمانی کریں گے ۔ بقیہ دیگر سیٹوں پر آپ سیکولر پارٹیوں کو ووٹ دیجئے ان کے نمائندوں کو ایوان تک جیتا کر بھیجیے۔ ملت ٹائمز کے مذاکرہ میں شرکت کرنے والے علماء و دانشوران ملت یہ فیصلہ حق بجانب ہے اس پر ملک کے مسلمانوں کو سنجیدگی سے غور کرنا چاہیے۔

محمد خالد داروگر دولت نگر، سانتاکروز، ممبئی

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

error: Content is protected !!