مذہبیمضامین

نبی کریم ﷺ کا حسنِ سلوک، اپنی ماؤں کے ساتھ

تحریر: عالیہ فردوس متین اللہ خان، آکولہ مہاراشٹرا

اللہ کے نبی محمد مصطفی ﷺ مجسمہ رحمت تھے ۔آپ ﷺ کے ابر رحمت نے دنیا میں موجود ہر ذرہ کو اپنی رحمت سے سیراب کیا ۔آپ قرآن کی آیت وَمَا أَرْسَلْنَاكَ إِلَّا رَحْمَةً لِّلْعَالَمِينَ ” کی مکمل تفسیر تھے-
یوں تو آپ ﷺ کے چشمۂ رحمت سے پورا عالم فیض یاب ہوا۔اور معلوم حقیقت ہے کہ جو چشمہ کے جس قدر قریب ہوتا ہے وہ اسی قدر سیراب و شاداب ہوتا ہے۔ پھر دنیا میں ماں سے زیادہ قریب کون ہوسکتا ہے! آئیے دیکھتے ہیں نبی کریم ﷺ نے اس بابت کیسا اسوہ چھوڑا ہے۔
نبی کریم ﷺ کی زندگی میں آپ کی حقیقی والدہ کے ساتھ ساتھ آپ کی رضاعی ماؤ ں کا بھی تذکرہ ملتا ہے۔ آپ ﷺ اپنی ماؤ ں کے ساتھ حسن سلوک میں وہ بے مثل نمونہ نظر آتے ہیں جس نے ماؤں کے وقار کو دوچند کردیا ہے۔ اور جس پر عمل کرکے ایک متبع سنت بھی اپنی والدہ کو خوش کر کے جنت حاصل کرسکتا ہے۔

آپ ﷺکا اپنی والدہ بی بی آمنہ کے ساتھ حسن سلوک
ماں دنیا کی وہ عظیم ہستی ہے جس کی برابری کوئی نہیں کر سکتا۔اور وہ ماں جس کے شکم میں نبی زماں ﷺ نے پرورش پائی ہو اس کی شان کا کیا کہنا۔
نبی کریم ﷺ کی والدہ ماجدہ کا نام آمنہ تھا۔بی بی آمنہ قریش خاندان کی معزز شاخ کی معزز ترین خاتون تھیں۔ارشاد نبی صلی اللہ علیہ وسلم ہے کہ” مجھے عہد بہ عہد بنی آدم کی بہترین نسلوں میں مبعوث کیا گیا”(بخاری)
بی بی آمنہ کا نکاح عرب کے معزز گھرانے کے فرزند جناب عبداللہ سے ہوا۔نکاح کے کچھ مہینوں بعد بی بی آمنہ کے شکم میں نبی صلی اللہ پرورش پارہے تھے کہ بی بی آمنہ کے ہم سفر دنیا سے رخصت ہو گئے۔

جب بی بی آمنہ کے گھر ولادت ہوئی تو آپ خوشی سے کھل اٹھیں۔ بی بی آمنہ نے اپنے خواب کے مطابق اس بچے کا نام ‘احمد’ اور دادا نے ‘محمد’ رکھا۔( ﷺ)
بی بی آمنہ نے آپ ﷺ کو سب سے پہلے اپنا دودھ پلایا اور کچھ مہینوں بعد دائی حلیمہ کے سپرد کیا۔
دائی حلیمہ کے گھر دودھ کی مدت مکمل کرکے آپ ﷺ دوبارہ ماں کے آغوش ممتا میں آۓ۔ والدہ ماجد ہ ا پنے لخت جگر محمد ﷺ کو لئے ایک سفر پر روانہ ہوئیں، سفر مکمل نہ ہوا تھا کہ بی بی آمنہ کی طبیعت بگڑ گئی اور آپ کا ابواء کے مقام پر انتقال ہوگیا۔
چھ سال کی عمر تک ہی آپ ﷺ اپنی والدہ کے سایہ شفقت میں رہے۔اس کے باوجود بھی آپ ﷺ کو اپنی والدہ سے والہانہ محبت تھی۔اکثر آپ ﷺ کی آنکھیں ماں کی یاد سے اشکبار ہو جاتی تھیں اور آپ ﷺ ہمیشہ اپنی والدہ کا تذکرہ خیر کے ساتھ کرتے تھے۔
غزوۂ بدر سے واپسی میں جب آپ ﷺ کا گزر اپنی والدہ کے مقام وفات ابواء سے ہوا تو آپ ﷺ والدہ کی قبر دیکھ کر اس قدر روۓ کہ اردگرد کھڑے صحابہ بھی رو پڑے، پھر آپ ﷺ نے فرمایا: “میں نے رب سے اجازت مانگی کہ والدہ کے لیے بخشش طلب کروں تو مجھے اجازت نہیں دی گئی پھر میں نے قبر کی زیارت کی اجازت مانگی تو مجھے مل گئی۔(ابوداؤد)

آنحضرت ﷺ اپنی والدہ ماجدہ کے عزیز و اقارب کے ساتھ بھی محبت اور عزت سے پیش آتے تھے۔ مشہور صحابی سعد بن ابی وقاص کا تعلق بی بی آمنہ کے خاندان بنوزہرہ سے تھا۔ وہ صحابی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے ننھیالی رشتےدار تھے، جب بھی وہ دربار رسالت میں حاضر ہوتے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم پرتپاک استقبال کرتے۔ایک مرتبہ حضرت سعد بن وقاص کو دیکھ کر آپ ﷺ نے فرط محبت سے فرمایا:
“یہ میرے ماموں ہیں کسی کا ماموں ان جیسا ہو تو مجھے دکھاؤ”۔( جامع ترمذی)

آنحضرت ﷺ کی رضاعی والدہ ثویبہ :
بی بی آمنہ کے ساتھ ابتدائی دنوں میں ہی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو جناب ثویبہ نے دودھ پلایا تھا۔جناب ثویبہ ابولہب کی لونڈی تھیں۔ جو بعد میں آزاد کردی گئیں۔

جناب ثویبہ تا عمر نبی کریم ﷺ کی جانب سے اعزاز واکرام حاصل کرتیں رہیں۔جب بھی نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے ملاقات کے لئے آتیں تو آپ ﷺ انھیں مال و اسباب سے نوازتے اور ان کی ضرورتوں کو پورا کرتے۔
فتح خیبر کے بعد جب نبی کریم ﷺ کو جناب ثویبہ کے انتقال کی خبر ملی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم غم زدہ ہوگئے۔ اس خبر کے بعد بھی کہ جناب ثویبہ انتقال فرما چکیں آپ ﷺ نے رضاعی والدہ کا حق ادا کرنے کے لئے ان کے اہل وعیال کے بارے میں دریافت کیاتو جواب ملا کہ ثویبہ کے بیٹے مسروح بھی وفات پا چکے۔فتح مکہ کے موقع پر بھی آپ ﷺ نے جناب ثویبہ کے احسان کو یاد کرتے ہوئے آپ کے اہل خانہ کے بارے میں دوبارہ دریافت کیا۔

نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی رضاعی والدہ حلیمہ سعدیہ:
جناب ثویبہ کے بعد نبی کریم ﷺ کو دودھ پلانے کی سعادت دائی حلیمہ کے حصہ میں آ ئی اور نبی کریم ﷺ کو سب سے زیادہ دودھ پلانے کا شرف انھیں ہی حاصل ہوا، اسی مناسبت سے دائی حلیمہ نبی کریم ﷺ کی حقیقی رضاعی ماں کہلائیں۔
دائی حلیمہ بنت ابی ذؤیب، بنوہوازن کے قبیلے سعد بن بکر سے تعلق رکھتی تھیں۔آپ طائف کے مضافات میں رہائش پذیر تھیں۔ آپ کے شوہر کا نام حارث بن عبد العزی تھا۔

حلیمہ سعدیہ نے محبوب کبریاء محمد ﷺ کی برکتیں سمیٹتے ہوئے رضاعت کی مدت مکمل کی اور مزید آپ ﷺ کو اپنے آغوش محبت میں رکھا۔
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اپنے مبارک بچپن کے پانچ سال حلیمہ سعدیہ کے گھر گزار کر مکہ واپس آگئے۔
حلیمہ سعدیہ نبی کریم ﷺ کی محبت میں آپ سے ملنے مکہ اور مدینہ بھی آتی رہیں۔آپ ﷺ بھی اپنی رضاعی ماں سے بے انتہا محبت کرتے۔حلیمہ سعدیہ جب بھی آپ کی خدمت میں حاضر ہوتیں آپ ﷺ فرط محبت سے کھڑے ہوجاتے اور اپنی چادر مبارک کو ان کے لیے بچھا دیا کرتے تھے۔ اور واپسی پر رضاعی والدہ کو اونٹ بکریوں سے نوازتے۔
نبی کریم ﷺ اپنے رضاعی بھائیوں بہنوں سے بھی محبت و الفت سے پیش آتے تھے۔غزوہ حنین کے قیدیوں میں حلیمہ سعدیہ کے خاندان بنوہوازن کے لوگ بھی شامل تھے ۔آپ کی رضاعی بہن شیماء بنت حارث بھی تھیں۔آپ ﷺ کے سامنے حاضر ہوئیں تو آپ ﷺ نے انہیں پہچان لیا اور ان کی عزت وتکریم کی، انھیں آزاد کر کے مال و اسباب کے ساتھ انھیں ان کے خاندان واپس بھیج دیا۔

ام ایمن (رضی اللہ عنہا ):

ام ایمن،وہ مبارک خاتون جنھیں خود نبی کریم ﷺ نے ماں کاشرف عطا کیا ہے۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کہا کرتے تھےکہ ام ایمن میری حقیقی ماں کے بعد میری ماں ہے”(استعاب)
ام ایمن کا نام برکہ تھا۔آپ نبی کریم ﷺ کے والد عبداللہ کی کنیز تھیں۔جناب عبداللہ کے انتقال کے بعد بی بی آمنہ کے زیر دست آئیں اور بی بی آمنہ کے ساتھ ان کے آخری سفر و آخری ایام میں ساتھ تھیں، بی بی آمنہ کے انتقال کے بعد نبی کریم ﷺ کو اپنی آغوش میں سنبھالا، مکہ واپس آئیں ۔آپ ﷺ کو ماں کی طرح رکھا۔ ام ایمن کو یہ شرف حاصل رہا کہ وہ آپ ﷺ کے ساتھ تا عمر رہیں۔
ام ایمن کا آپ ﷺ کے ہاں بلند رتبہ اور بڑی قدرومنزلت تھی۔
آپ جب بھی ان کو دیکھتے یا ان سے گفتگو فرماتے تو ہمیشہ اے والدہ ، اے والدہ سے یاد کیا۔ ام ایمن رضی اللہ عنہا بھی آپ سے بے انتہا محبت و شفقت سے پیش آتی تھیں نبی اکرم ﷺ کی رحلت کے بعد ام ایمن نے جو قصیدہ پڑھا اس سے عیاں ہے انھیں نبی کریم ﷺ سے کس قدر محبت تھی۔

عين جودي فإن بذلك للد
مع شفاء فاكثري البكاء
اے سخی آنکھ بے شک آنسوؤں کی وجہ سے شفاء مل رہی ہے لہذا رونے کو خوب زیادہ کر۔
حين قالوا الرسول امسي فقيداً
ميتا كان ذاك كل إلبلاء
جب لوگوں نے کہا رسول اللہ ﷺ چلے گئے ہیں وفات پا کر تو یہ ہر مصیبت سے بڑھ کر مصیبت ہے۔

یہ تھیں محبت کے پیکر مبارک ہستیاں جنھیں نبی کریم ﷺ نے ان کے حق کے مطابق حق سے نوازا۔
ارشاد ربانی ہے:
لَقَدْ كَانَ لَكُمْ فِي رَسُولِ اللَّهِ أُسْوَةٌ حَسَنَةٌ
(تمہارے لئے رسول الله کی ہستی میں بہترین نمونہ ہے -)
ہرشخص کو چاہئے کہ وہ اپنے اخلاق کو سیرت النبی صلی اللہ علیہ وسلم کے آئینہ میں سنوار کر اپنے والدین کو راضی کر کے جنت حاصل کرلے۔۔
اللہ ہمیں توفیق عمل دے (آمین)

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

error: Content is protected !!