سوشل میڈیا اور ہمارے کرنے کے کام…
سید شہاب الدین
کہا جا تا ہے کہ محبت نفرت کی آمیزش کے ساتھ ہو تو وہ نفرت ہی کہلاتی ہے ۔مئی 2014 کی تاریخ دنیا کا سیاہ ترین دن تھا جس وقت ملک کا وزیر اعظم ایک ایسا شخص بنا جس کے کاندھے پر گجرات جیسے جگر کو پا رہ پارہ کرنے والے فسادات وزیر اعلیٰ کی پشت پناہی کے طفیل ہزاروں مسلمانوں کو جرم مسلمانی میں موت کے گھاٹ اتاردیا گیا ۔جس کی گواہی پوری دنیا دے چکی ہے ۔اسوقت کے حالات میں بھی پھر مودی کا وزیر اعلیٰ بننا کسی گھٹنا سے کم نہیں تھا ۔ہندو فا شسٹ چہرہ پورے ملک کے سامنے ابھر کر آچکا تھا گویا کہ من حیث القوم آئندہ وہ پورے ملک کا وزیر اعظم وہ شخص بنا جس کے سر گجرات فسادات کا داغ تھا ۔جس نفرت کا اظہار گجرات میں ہوا 2014کے بعد سے اب تک اسی نفرت کو بنیاد بنا کر جس طرح مہمات کو یکے بعد دیگرے انجام دیا جا رہا ہے وہ حیرت نا ک ہی نہیں اذیت ناک بھی ہے جس طرح اس کے اثرات حقائق بن کر سامنے آرہے ہیں وہ ضمیر کے ختم ہونے اور روح کے بے جان ہو نے کی بین دلیل ہے۔
ماب لنچنگ کے واقعات شاید بھارت میں اس سے قبل کبھی نہیں ہو ئے تھے لیکن جب یہ واقعات سلسلہ وار سامنے آئے تو لوگ سراپا احتجاج بننے کہ ان واقعات کی سوشل میڈیا پر کھلی اڑانے کے کو ئی دوسرا کا م نہیں کررہے تھے ۔اور آئی ٹی سیل والا طبقہ جن کے سینکڑوں کی تعداد میں سوشل میڈیا پرفیک (جھوٹے) اکا ؤنٹ ہیں وہ شئر کررہے تھے ۔ایسے بہت سے واقعات ہے کہ جس کی بنا پر یہ کہا جا سکتا ہے کہ سوشل میڈیا کے ذریعے جن جن مہمات کو بی جے پی آئی ٹی سیل انجا م دے رہا ہے وہ ذہن سازی سے زیادہ ذہن کی خرابی پر کام کررہا ہے،بی جے پی آئی ٹی سے مستعفی حضرات کے انٹرویوز سے تو یہ معلوم ہوتا ہے کہ بھلے سماج میں جہاں مختلف مذاہب کے لوگ امن و امان کے ساتھ رہتے ہو، انکے خاندان والے برسوں سے ساتھ اٹھنا بیٹھنا، کھانا پینا، خوشی وغم کے شریک ہو اگر ایسی محبتوں اور خوشگوار تعلقات کو نفرت، اور خاک و خون کی ہولی سے بدلنا ہو تو سوشل میڈیا کے ذریعے وہاں فساد کروادے نفرتوں کے سوداگروں کو ان کے سارے مقاصد حاصل ہوجائینگے-
فیس بک، ٹوئیٹر، پر جعلی اکاؤنٹس کی بھرمار ہے جسکے لاکھوں، ملینوں میں فالو ور ہے بعض ایسے مسلم نام سے اکاؤنٹس بنے ہیں جہاں آن لائن صلاۃ،یامسلم ریلیٹیڈ کوئی میسیجیز ڈالدے تو مسلمانوں کی کمنٹس میں اللہ اکبر، ماشاء اللہ کی لائن لگ جاتی ہے لیکن سمجھ نہیں پاتے کے آخر جس پیج پر وہ کمنٹس کررہے ہیں یا لائیک کررہے ہیں وہ پیج کون چلارہا ہے-
واٹس ایپ پر فیک میسیجیز کی بھرمار ہے جو محض مسلمانوں دلتوں کے خلاف ہے- اگر کمزور دل والا ان واقعات کو یا ان میسیجز کو پڑھ کر مایوسی، کم ہمتی کا ثبوت دے رہا ہے وہ فرسٹیشن کا شکار ہے تو ایسے وقت میں مسلم مفکرین نے ملت اسلامیہ ہند کو اور خا ص کر یہا ں رہنے والے سیکولر اذہان کو جن کاموں کی طرف متوجہ کیا تھا اس میں بنیا دی طور پر یہی ہے کہ ہمیں نفرت کا مقابلہ محبت سے دینا ہے ،نفرتوں بھرے اذہان کو خدمتوں سے بدلنا ہے ،یا اس قدر تکثیری سماج کا ہمیں حصہ بن جانا چا ہئے جس سے مسلمان اسلام کا بیش قیمتی پیغام ان لو گو ں تک پہنچا سکیں یا اس تصویرکے برعکس بن جا ئے جو تصویر یہاں کے انتہا پسند ہندو مسلمانوں کی پیش کرنا چاہتے ہیں۔
مسلمانوں کی یہ لڑائی ایک اہم لڑائی ہیں یہ تعقب ایک فکری تعقب ہے ،یہ جنگ ایک فکری جنگ ہے ،یہ مقابلہ ایک فکری مقابلہ ہے اس ظلم اور نفرت کا مقابلہ اگر جذباتیت کا شکار ہوکر ہم دینے لگ جا ئیں تو ممکن ہے نقصان اٹھانا پڑے یا پھر محبت اور فکر کے ساتھ دیا جائے تو ممکن ہے معاملہ اس کے بر عکس ہو ملت کے بہی خوا ہوں کو،ملت کے قائدین کو ،ملت کے نوجوا نوں کو ملت کی ما ؤں اوربہنوں کو اس سے متعلق سنجیدہ ہوکر سوچنا پڑیگا اور اس موقع پر ہم سب جسد واحد بن کر ہماری اینرجی کوصحیح سمت لگانا پڑے گا اور بر وقت لگانا ہوگا۔
بتایا جاتا ہے کہ جب نظریہ کا مقابلہ نظریہ، قلم کا مقابلہ قلم، سرگرمیوں کا مقابلہ سرگرمیاں، سنجیدگی کا مقابلہ سنجیدگی سے کیا جائے تو مظلوم طبقہ آج نہیں کل ضرور ابھر کر آئیگا ظلم اور ناحق آج کسی درجہ میں بالادست ہے تو کل اسی قوت کو اسی قوت کے زور سے موڑدیا جائے تو غلبہ سچائی کا راست بازی کا حق گوئی کا ہی ہوگا سوال یہ ہیکہ اس انداز میں یا اس قوت سے حق کی آواز کو پیش کیا جا سکے-
آج ملک کی تمام اہم سیاسی پارٹیوں کے آئی ٹی سیل ہیں- یہ تمام آئی ٹی سیل مارکیٹنگ، ایڈورٹائز مینٹ، یا اپوزیشن پارٹیوں پر تنقید کے لیے کام کرتا ہے جو سوشل میڈیا کے ذریعے لوگوں تک پہنچا ئی جاتی ہے- لیکن ملک کی مشہور و معروف بھارتیہ جنتا پارٹی کا آئی ٹی سیل جو پارٹی کی طرح معروف و مشہور ہے اسے جھوٹی خبروں کے ذریعے سے کافی مقبولیت اور کامیابی حاصل ہوئی ہیں لیکن اس کے اہم مقاصد یہ ہے جس پر وہ کام کرتا ہے- ,Photoshop, FakeNews, Doctorat Videos, Paid Twitter Trends, Paid News بی جے پی آئی ٹی سیل کی کامیابی کا ایک اہم زینہ ہے-
اپوزیشن کو بدنام یا تنقید کرنے کے لیے وہ آن لائن مہم کے لیے PR کمپنی کا استعمال کرتی ہے جنہیں Influencer بھی کہاجاتا ہے- ہر مہمات کے لیے 50 سے 70 روپیے انہیں دیے جاتے ہیں- مرکز سے ضلع کے سطح پر دی جانے والی یہ مہمات ملکی سطح پر 150 سے زائد افراد اپنی سیلری کے ساتھ انجام دے رہے ہیں اسکے علاوہ ان گنت مرکز، ریاست، ضلع، تعلقہ سطح پر ان کے فالوور کام کررہے ہیں- ان میں بے شمار ایسے نوجوان کام کررہے ہیں جو نوکری کے خواہشمند تھے جنہیں کہیں نوکری نہیں مل رہی تھی لیکن مجبوراً اس آئی ٹی سیل میں سوشل میڈیا پر ہندو مسلم کرکے پیسہ کما رہے ہیں بعض ایسے بھی ہیں جنہیں اپنا ضمیر بار بار ملامت کررہا تھا تو مجبوراً اس نوکری کو چھوڑ کر بھی آئے ہیں-
حزب مخالف گروہ اپنی منظم سعی کے ساتھ نظریاتی میدان میں برسر پیکار ہے اس کا مقابلہ بھی منظم سعی اور نظریہ کی قوت کے ساتھ ہونا چاہیے- حزب مخالف اپنے کارکنوں کے ہاتھوں میں دس دس موبائیل مختلف ناموں کے ساتھ دیتا ہے انہیں دئے گئے وقت میں سارے ٹوئیٹ کرنے ہوتے ہیں ہم رضا کارانہ طور پر اپنے ٹیم میں تربیت یافتہ افراد کی شمولیت کو یقینی بنا سکتے ہیں-
ٹرینڈ کے موضوعات:
افراد کی تعداد کے مطابق، انکے ٹائم اور اوقات کو دیکھتے ہوئے کسی ایسے وقت کا انتخاب کیا جائے جس میں فرد میسر ہوسکے- موضوعات عموماً ہمارے دفاعی ہوتے ہیں حزب مخالف جہاد کی تصویر کو مسخ کررہا ہے تو ہم اس کی صحیح تصویر بتانے کے لیے اگلا ٹرینڈ چلاتے ہیں یہ یاد رہے کہ ہندتوا کی علمبردار ٹیم اس بات سے خوفزدہ ہوجاتی ہے کہ آپ کوئی دعوتی کام کرے یا آپ کوئی دعوتی ایجنڈے سے بھرپور کوئی میسیج پوسٹ کرے تو آپ ذہنی طور پر گالیاں کھانے کے لیے تیار رہے یا پھر Troll Army کے ذریعے ٹرولرس کا سامنا کرے- یہ سلسلے اس میدان کے وہ سلسلے ہیں جو طے کرتے ہیں کہ آپ کے میسیجیز زندہ ہے یا ان کے ٹرولرس زندہ ہے-
اس لیے بہتر یہی ہے کہ اقدامی پوزیشن میں آکر ہمیں سوشل میڈیا کو اسلام کے پیغام کا میڈیا بنانا چاہیے اور دعوتی موضوعات جن سے متعلق بے شمار غلط فہمیاں جو یہاں کی غیر مسلم آبادی کو ہے ان موضوعات پر مکمل مواد کے ساتھ دعوتی ٹرینڈ چلائے جا ئے تاکہ ٹرولرس یا ویزیٹرس ان سارے موضوعات کو آن لائن مختلف اکاؤنٹس پر پڑھ سکے یا اس موضوع کے متعلق انکی غلط فہمی کا ازالہ ہوسکے-
مواد کی فراہمی:
ایسے حالات میں جبکہ ہمارے پاس وسائل کی کمی ہے ہمیں ہر محاز کو سنبھالتے ہوئے اس محاز پر بھی اثر انداز ہونا ہے- جو وسائل میسر ہو اسے پر درج ذیل طریقے پر عمل ہو تو کسی حد تک اثر انداز ہوسکتے ہیں وہ مندرجہ ذیل ہیں-
مرکز سے دیہات پر مبنی ٹیم:
آپ اگر ٹوئیٹر یوزر ہے تو روز مرہ کے چلنے والےٹرینڈس سے تو آپ واقف ہونگے جو مسلمانوں کے یا کسی حادثے پر یا پھر کسی سیاسی لیڈر کی کھلی اڑانے کے لیے چلایا جاتا ہے- ہم اپنے ٹرینڈ میں ایسا مواد جمع کریں کہ اس سے اس موضوع کا ایک عام فہم تعارف آجائے یاد رہے یہ تعارف ٹوئیٹر کے الفاظ کی لیمیٹیشنس کے ساتھ ہو، فیسبک اور واٹس ایپ کے لیے مواد زیادہ ہو تو چلیگا لیکن ایسا مواد ہو کہ جو تبدیل نہ ہوسکے جسے بدلہ نہ جا سکے وہ اسکرین شارٹ بھی ہوسکتا ہے-
2009 میں ایک میسیج بی جے پی آئی ٹی سیل کے دفتر سے لیک ہوا اتفاقا وہ پرتیک سنہا فاؤنڈر ،الٹ، نیوز کے ہاتھوں لگا انہوں نے اس میسیج کے الفاظ کو تبدیل کیا جیسے آزاد کو غلام اور وتھ کو وداؤٹ ہائی کو لو کردیا پھر اسی ڈاکیومینٹ میں اسے سیو کردیا پھر آئی ٹی سیل نے جب ٹوئیٹ کرنا شروع کیے تو ارتھ کا انرتھ ہوتا دکھائی دے رہا تھا پرتیک سنہا نے کہا بھی تھا کہ میں آئی ٹی سیل کو ایکسپوز، اور ان کا مزاق اڑانا چاہ رہا تھا- ایسے بے شمار الفاظوں کے ساتھ کھلواڑ سوشل میڈیا پر معمول ہے- اسلیے الفاظ اور جملوں کی تبدیلی نا ہوسکے ایسے فارم میں مواد فراہم کیا جا ئے-تاک اس مواد کو دعوتی نکات کے تحت استعمال کیا جاسکتا ہے-
حزب مخالف کا مواد جو ذہن خراب کرنے میں زیادہ معاون و مددگار ثابت ہوا ہے وہ کنٹینٹ ہی ہے کنٹینٹ کی بھرمار جو بار بار وائرل ہوتے رہتے ہیں اور بار بار پلٹ کر آتے ہیں یہی ذہن بگاڑتا ہے- اس کے بالمقابل ایسے میسیجیز ہو جو اسلام اور مسلمانوں سے متعلق پھیلائی گئی ایک ایک موضوع کے تحت جواب بھی ہو پیغام بھی اور دعوت بھی اور بار بار پلٹ کر وائرل ہوتے رہے-
اکاؤنٹس/پیج/ویب سائٹس سوشل میڈیا پر بالخصوص اور بالعموم فیس بک پر ہمارے وہی دوست ہوتے جو ہمارے نظریہ سے اتفاق رکھتے ہیں یا ہم جسے پہچانتے ہیں وہی ہمارا دوست ہوتا ہے، ہم اس فرد کو رکویسٹ بھیجنا نہیں چاہتے جو ہمیں نہیں جانتا یا ہم اسے نہیں جانتے اسی دقت کیوجہ سے فیس بک ایک Bubble بنالیتا ہے جس سے کہ آپ اپنی آواز ایک مخصوص گروہ تک ہی پہنچا سکتے ہیں اس سے آگے فیس بک کے میدان کی جو دنیا ہوتی اسے ہم ہرگز نظر انداز کردیتے یا پھر وہ ہالہ ہم توڑ نہیں پاتے یاد رہے ہمارے مخاطب یہاں کی غیر مسلم آبادی ہے جس تک ہمیں اپنا پیغام پہنچانا ہے اس کے لیے ضروری ہے کہ ہم سب کو رکویسٹ بھیجے بس لحاظ اس بات کا رکھے کہ کہیں ہماری رکویسٹ کسی پورن اکاؤنٹ کو نہ چلی جائے-
ایک فرد نے کم ازکم فیسبک پر 5 سے زائد اور ٹوئیٹر پر غالبا 3 الگ الگ ناموں سے چلانا چاہیے اور مختلف موضوعات کے تحت اس پر کچھ اچھا شیئر کرتے رہنا چاہیے- یہ بات شاید آپ کے علم میں ہو کہ یوپی کے الیکشن کے وقت 70 لاکھ واٹس گروپ بی جے پی نے اپنی کیمپیننگ کے لیے بنائی تھی ان کی جیت کا سہرا کسی درجہ میں سوشل میڈیا اکاؤنٹس کو بھی جاتا ہے یہ تمام مواد انگریزی یا ہندی میں ہونا چاہیے-
واٹس ایپ پر اگر تمام افراد اپنے غیر مسلم بھائیوں کی ایک دعوتی لسٹ بنالیں اور مختلف شہروں یا ضلعی سطح پر ایک بروڈکاسٹ بنالیں تو میسیج کا اندازہ بھی ہوجاتا ہے کہ کن کن مقا مات تک میسیج گیاہے- یہ پوری ٹیم کو منظم کرلیا جائے اور یہ مستقل مزاجی سے کام کرے تو انشاء اللہ آپ حالات تبدیل ہوتے دیکھینگے اس موقع پر یہ بھی کہہ دینا چاہتا ہوں کہ موضوعات سماجی سیاسی بھی ہوسکتے ہیں تاکہ ہر غلط فکر، غلط کام، اور غلط چیزوں کو کریٹیسائیز کیا جاسکتے-