حالاتِ حاضرہمضامین

پرشانت بھوشن کے گرد توہینِ عدالت کا شکنجہ!

سمیع اللّٰہ خان

ہندوستان کی نظریں سپریم کورٹ بنام پرشانت بھوشن پر: کل کا دن تاریخی ہے، جب مشہور بیباک وکیل ایڈوکیٹ پرشانت بھوشن کو سپریم کورٹ گستاخئ عدالت کی سزا سنائےگی، پرشانت کے خلاف توہینِ عدالت کی کارروائی کو مشہور سینئر تاریخ داں رام چندر گہا نے جمہوریت کے لیے سیاہ دن لکھا ہے* سپریم کورٹ آف انڈیا نے گزشتہ دنوں ایک پیٹیشن پر سماعت کرتے ہوئے معروف وکیل اور سماجی انصاف کے رضاکار ایڈوکیٹ پرشانت بھوشن کو توہینِ عدالت کا مجرم قرار دیا ہے، جسٹس ارون مشرا کی صدارت والی سپریم کورٹ کی سہ رکنی ججوں کی بنچ جس میں جسٹس بی آر گاوی اور جسٹس کرشنا مراری بھی شامل ہیں اس بنچ نے کہا کہ یہ گستاخی کا سنگین معاملہ ہے ۲۰ اگست کو پرشانت بھوشن کے اس جرم کی سزا سنائی جائے گی، comments of court. Act 1971 کی روشنی میں دیکھا جائے تو پرشانت بھوشن کو اس معاملے میں صرف ۲ ہزار روپے جرمانہ دینا پڑسکتا ہے یا پھر زیادہ سے زیادہ چھ مہینوں کی سزا بھی سنائی جاسکتی ہے، اسی قانون میں یہ بھی گنجائش ہیکہ ماخوذ اگر معافی مانگ لے تو عدالت چاہے تو اسے معاف کرسکتی ہے_دراصل پرشانت بھوشن نے چیف جسٹس شرد اروند بوبڑے سمیت مزید چار سابق ججز کے متعلق ٹوئیٹ کیے تھے, ۲۲ جولائی کو ازخود توجہ دیتے ہوئے سپریم کورٹ نے پرشانت بھوشن کو نوٹس جاری کیا تھا عدالت کے مطابق ان ٹوئیٹ کی وجہ سے انصاف کے نظام کی توہین ہوتی ہے، اور انہی ٹوئیٹس کے متعلق سپریم کورٹ نے پرشانت بھوشن کو مجرم پایا ہے_ہندوستانی جمہوریت میں سپریم کورٹ کی طرف سے بھوشن کے خلاف یہ اقدام تشویشناک ہے، انصاف پسند جمہوریت دوستوں کو اس پر سرجوڑ کر بیٹھنا چاہیے.

کیا اب دنیا کی سب بڑی جمہوریت کہلانے والے ملک کی سب سے بڑی عدلیہ کے ججز پر سوال اٹھانا یا تنقید کرنا گستاخی کہلائے گا؟ اگر ایسا کیا جانے لگے تو اس ملک کی روح ختم ہوجائے گی اور یہاں کے تنوع کا حسن جو کہ زعفرانیت کے تلے مرجھا رہا ہے کَٹ کر گرجائے گا،دوسری طرف بڑی تعداد میں ملک کے نامور ماہرین قانون، صحافی، اہلِ تعلیم, سابق آفسران، معززین اور سابق ججز، جن میں ہندوستانی سپریم کورٹ کے سابق چیف جسٹس بھی شامل ہیں وہ بھوشن کی حمایت کررہےہیں انہوں نے یہ اپیل کی ہیکہ پرشانت بھوشن کے خلاف توہین کے یہ معاملے واپس لیے جائیں۔ پرشانت بھوشن پر توہینِ عدالت کا یہ شکنجہ درحقیقت اپنے پردے میں بہت کچھ بے چینی لیے ہوئے ہے، پرشانت بھوشن سچائی اور انصاف کے اصولوں میں یقین رکھنے والوں میں سے ہیں وہ جسے سچ سمجھتے ہیں پھر اسی پر قایم رہتےہیں، سرکار چاہے کانگریس کی ہو یا بھاجپا کی، سپریم کورٹ میں وہ مقدمات جو سرکار کے خلاف دائر ہوتے رہے جن سے حکمرانوں کی نیند بے چین اور سکون بے قرار ہوتا رہا، ایسی پیٹیشن جن کے ذریعے مرکزي حکومت کی پالیسیوں میں چھپی کارروائیوں پر سوال اٹھائے گئے ہوں ایسے سوالات جن کا سامنا کرنے سے وزیراعظم اور عدالتوں کے ججز بچتے ہوں ان سرگرمیوں کو اٹھانے میں آپکو کہیں نہ کہیں پرشانت بھوشن کی وکالت ضرور کارفرما نظر آئے گی_ایسا سوچنا غلط ہیکہ بھوشن نے صرف مودی سرکار کے خلاف کام کیا ہے بلکہ وہ تقریبا چار دہائیوں سے ایسی ہی انصاف پسند سرگرمیوں میں جدوجہد کرتے رہے، ان کا نظریہ اصول پسندی، سچائی اور انصاف انہی اصولوں پر ٹکا ہوا ہے، جب بھی انہوں نے کسی کو اپنی نظر میں زیادتی اور جھوٹ پر پایا اس کے خلاف وہ سرگرم ہوئے ہیں کئی معاملات میں ہم ان کے زاویہء نظر سے اور ان کی پیٹیشن سی بھی اختلاف کرسکتےہیں لیکن انہوں نے مذہبی تعصب اور گروہی عصبیت کی بنا پر اقدامات نہیں کیے یہ بات کہی جاسکتی ہے وہ عام انسانیت کو انصاف فراہم کرنے میں یقین رکھتےہیں۔

پرشانت بھوشن کی زندگی جدوجہد کرنے والوں کے لیے ہمت افزا ہے، ان لوگوں کے لیے بھوشن کی زندگی سبق آموز بھی ہے جو جمہوریت کا مطلب انصاف کے خلاف سمجھوتہ، خود سپردگی، حکمرانوں و مافیاﺅں کے مظالم اور سپریم کورٹ کے غلط فیصلوں پر خاموشی کو جمہوریت سمجھتے ہیں اور اسی کی تلقین کرتےہیں، کیسے ایک شخص بغیر کسی سیاسی پارٹی کے ملکی امور میں فیصلہ کن مقام حاصل کرتاہے اس کا نام پرشانت بھوشن ہے، کئی مرتبہ اپنی وکالت کے ذریعے پارلیمنٹ میں بالادستی یافتہ اور مرکزی حکومت میں سرکار بنانے والوں کو اپنے فیصلوں سے پیچھے ہٹنے پر مجبور کردیتا ہے_

پرشانت مشہور ماہر قانون سابق وزیرِ قانون شانتی بھوشن کے بیٹے ہیں، وہ اپنے اصولوں اور نظریات میں میں بالکل سخت ہیں وہ پھانسی کی سزا کے خلاف ہیں اور اپنے اس نظریے کو انہوں نے ممبئی کے دہشتگردانہ حملوں کے مجرم اجمل قصاب کی پھانسی کے وقت بھی بیان کیا تھا وکیل بننے کے بعد اتراکھنڈ میں غیرقانونی کان کنی پر روک لگانے کے ساتھ انہوں نے حقوق انسانیت کے لیے انصاف حاصل کرنے، ظالم حکومتوں کے خلاف لڑنے اور شفاف نظامِ قانون کو یقینی بنانے کے لیے اپنی لڑائی کا آغاز کیا، قانونی لڑائی کے ساتھ ساتھ وہ سماجی تحریکات اور مختلف سماجی آرگنائزیشن کا حصہ بنے رہے، کمزوروں، اور غریبوں کے لیے انہوں نے معمولی درجے کی فیس پر مقدمات لڑے ہیں، قانونی امداد اور ظالمانہ فسطائی سامراج کے خلاف ہندوستان کی ناواقف عوام میں آئینی حقوق کی بیداری کے لیے بھی انہوں نے محنت و مشقت کی ہے، پرشانت بھوشن CPiL سینٹر فار پبلک انٹرسٹ لیٹی گیشن، PUCL پیوپل یونین فار سوِل لبرٹیز کا حصہ ہیں، اس کے علاوه عدالتی نظامِ انصاف کی اصلاح کے لیے بنے، Campaign for judicial accountability اور جوڈیشل ریفارمز کی ورکنگ کمیٹی میں بھی ہیں مشہور نرمدا بچاؤ آندولن میں بھی وہ قانونی لڑائی پوری محنت سے لڑتے رہے، ۱۹۹۰ میں بھوشن نے بھوپال گیس سانحے کے متاثرین کو معاوضہ دلانے کے لیے اس مقدمے کو دوبارہ سپریم کورٹ میں شروع کروایا،۲۰۰۹ میں سپریم کورٹ اور ہائیکورٹ کے ججز کو آر ٹی آئی کے دائرے میں لانے والے معاملے کی پیروی بھوشن نے کی تھی، پرشانت بھوشن نے کانگریس کی منموہن سنگھ سرکار کے وقت ۲جی موبائل ٹیلیفون اسپیکٹرم الاٹمنٹ کے معاملے کو لیکر سپریم کورٹ میں مفاد عامہ کی عرضی داخل کی تھی، اس مقدمے میں آگے چلکر اُس وقت کی سرکار کے وزیر اے راجا کو جیل جانا پڑا تھا، یہ صرف دو تین مثالیں ہیں جبکہ درحقیقت ان کی ایسی مفاد عامہ عرضیوں کی تعداد ۵۰۰ کے قریب ہوگی.

پرشانت بھوشن بھی ان لوگوں میں سے ہیں جنہوں نے انا ہزارے کے ڈرامائی آندولن سے دھوکہ کھایا تھا، وہ انا آندولن کا حصہ بننے کے بعد عام آدمی پارٹی بنانے والوں میں سے بھی ہیں لیکن بعد میں کیجریوال پارٹی نے انہیں اور یوگیندر یادو کو باہر نکال دیا تھا کیونکہ عام آدمی پارٹی ازخود فاشسٹ پس منظر رکھنے والی پارٹی ہے _ مودی سرکار کے دور میں پرشانت بھوشن ماب لنچنگ اور بھاجپا نیتاؤں کی نفرت انگیزی سمیت بیشتر مجرمانہ اور ظالمانہ معاملات کے خلاف مظلوموں کو انصاف دلانے کے لیے سرگرم تو رہے ہی، اسی کےساتھ وہ مودی سرکار میں بھارت کے بھگوا کرن کے خلاف کڑی تنقید کرتے رہے، پارلیمنٹ سے غیرجمہوری قوانین کا پاس ہونا ہو کہ آئین کو تبدیل کرنے کی سازش پرشانت بھوشن ان سب کے خلاف آواز اٹھاتے رہے اور NRC / CAA کے خلاف عوامی تحریک کے ساتھ مسلسل محنت میں لگے رہے اس کے علاوہ مودی سرکار کے دور میں ملک کی عدالتوں کے بدلتے رخ پر بھی وہ نہایت بےباکی سے بولتے رہے ۔ ۲۰۱۸ میں جسٹس برج گوپال لویا کی موت کا معاملہ انہوں نے دوبارہ اٹھایا جسٹس لویا سہراب الدین فرضی انکاؤنٹر معاملے میں امیت شاہ کے مقدمے کی سماعت کررہے تھے اور اسی دوران ان کی موت ہوئی تھی, لیکن سپریم کورٹ سے جسٹس لویا کی موت پر سماعت کی عرضی خارج کردی گئی، گجرات کے ہرین پانڈیا قتل کیس کی ایس آئی ٹی کے ذریعے دوباره جانچ، آر ٹی آئی ایکٹ کو کمزور کرنے کی کوشش، رافیل معاملہ، لاکڈاون میں مزدوروں کی بدحالی اور مودی سرکار کی ناکامی، اسی طرح کرونا کے نام پر وزیراعظم فنڈ پی ایم کیئر فنڈ کے معاملات پر سوالات اٹھانے میں پرشانت بھوشن بے باکی کے ساتھ سرگرم رہے_

پرشانت بھوشن پہلے بھی چالیس سالوں سے سرکاروں کی غلط پالیسیوں اور ظالموں کے خلاف کام کررہےتھے لیکن ادھر جب سے آر ایس ایس کی حمایت یافتہ فاشسٹ جماعت بھاجپا کی مودی سرکار ہندوستان کی مرکزی حکومت میں آئي ہے تب سے انصاف کے لیے لڑنے والوں کی آزادی مزید سلب کی جانے لگی ہے، حکومت کےخلاف آواز اٹھانا حکومت اور عدلیہ پر سوالات اٹھانا جوکہ جمہوریت اور ہندوستانیت کی روح تھی انہیں روندا جارہا ہے،. مودی اور امیت شاہ کی جانب سے نہایت ڈھٹائی سے یہ نعرہ دیا جاتاہے کہ مخالفت اور تنقیدوں کا استقبال ہے لیکن اگر کوئی ایسا کردے تو اسے جیل بھیج دیا جاتا ہے.

پرشانت بھوشن کو اگر چند ٹوئیٹ کی وجہ سے جیل جانا پڑا تو میری نظر میں یہ ہندوستانی جمہوریت کی ہار ہے، میں یہ مانتا ہوں کہ سوشل میڈیا پوسٹنگ جن میں حکمرانوں اور جمہوری اداروں کے ذمہ داروں پر تنقیدیں کی گئی ہوں اُن پر اس طرح کی کارروائیاں کہ جج صاحب صدر صاحب یا وزیراعلیٰ یا وزیراعظم صاحب کی شان میں گستاخی ہورہی ہے یہ عدم برداشت والی صفات ہیں اور تاریخ میں ایسے مزاج کو آمریت کا نام دیاگیاہے ، ہمارے ہندوستان میں ایسی چھوئی موئی والی نفسیات کبھی نہیں پائی گئی، اس سے ملک کے عہدیداروں کو بچنا چاہیے.

افسوسناک مقام تو یہ ہیکہ ملک کے عدالتی سسٹم کے ایک مشہور جج لویا کی موت مشکوک ہے اور اس پر سوالیہ نشان لگا ہوا ہے، لیکن اسقدر حساس سوالیہ نشان کو نظرانداز کردیا جاتاہے جسٹس لویا کی مشکوک موت کا ابہام دور کرنے کی کوشش نہیں کی گئی جوکہ درحقیقت واضح توہین عدالت ہے، کپل مشرا فساد بھڑکا کر بھی آزاد ہے، لیکن اب کارروائی ہوگی تو ملکی نظامِ قانون کے بزرگ محنتی کارکن بھوشن کے خلاف، یہ کارروائی عدلیہ کے حق میں بھی نہیں ہوگی، جمہوری نظام میں بالادستی آئین کو حاصل ہوتی ہے نہ کہ ججوں کے مزاجی رویے کو، جج صاحبان کو سمجھنا چاہیے کہ اگر ہم ان پر تنقید کرتےہیں تو ملک میں مضبوط آئینی اور شفاف عدالتی نظام کے خواہاں ہیں، بہرحال، مبصرین و مؤرخین سماجی کارکنان، تاریخ اور قانون کے طلباء، سب مضطرب ہیں، دنیا بھر کے لوگ اس مقدمے کو دلچسپی سے دیکھ رہےہیں کہ کل ہندوستانی جمہوریہ کی تاریخ میں ایک اور افسوسناک باب کا آغاز ہوگا سپریم کورٹ بنام پرشانت بھوشن جیت کس کی ہوگی؟ یہ آنے والی صدی کی تاریخی کتاب میں پڑھا جائےگا_

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

error: Content is protected !!