حالاتِ حاضرہمضامین

غرض میں کیا کہوں تجھ سے کہ وہ صحرا نشیں کیا تھے!

عمر فراھی

ایک ایسے وقت میں جبکہ کتابیں پڑھنے کا رواج ختم ہو رہا ہے اور نئی نسل کئی کتابوں کے مصنف اور مفسر قرآن مولانا آزاد کو تو ایک سیاسی شخصیت کی وجہ سے جان بھی لیتی ہے ورنہ اب جدید ٹکنالوجی سے ہاسپٹلوں میں پیدا ہونے والی نسل کو اقبال، شبلی، حالی، مودودی، دریابادی، نجیب آبادی، التمش، نسیم حجازی اور ابن صفی کہاں یاد رہے۔ جہاں تک ان کی تخلیقات سے تاریخ اور سیرت کے مطالعے کی بات ہے اب اردو پڑھنے والے بچوں کی تعداد بھی کتنی رہی۔ حالانکہ اقبال کے دور میں اردو اپنے عروج پر تھی پھر بھی اقبال تہذیب مغرب کے عروج اور مسلمانوں کی مرعوب ذہنیت کا یوں ماتم کرتے ہوئے دکھائی دیتے ہیں۔

؎ کبھی ائے نوجواں مسلم تدبر بھی کیا تونے
وہ کیا گردوں تھا تو جس کا ہے اک ٹوٹا ہوا تارا
تجھے اس قوم نے پالا ہے آغوش محبت میں
کچل ڈالا تھا جس نے پاؤں میں تاج سر دارا
غرض میں کیا کہوں تجھ سے کہ وہ صحرا نشیں کیا تھے
جہاں گیرو جہاں دارو جہاں بان و جہاں آرا

اگر چاہوں تو نقشہ کھینچ کر الفاظ میں رکھ دوں
مگر تیرے تخیل سے فزوں تر ہے وہ نظارہ
گنوا دی ہم نے جو اسلاف سے میراث پائی تھی
ثریا سے زمیں پر آسماں نے ہم کو دے مارا
مگر وہ علم کے موتی کتابیں اپنے آبا کی
جو دیکھیں ان کو یوروپ میں تو دل ہوتا ہے سیپارہ

اقبال کے اس کلام کے تناظر میں ترک ڈرامہ ارطغرل کو دیکھا تو محسوس ہوا کہ جس بات کو سمجھانے کیلئے ارطغرل کے مصنف اور ڈرامہ سازوں نے ہزاروں کروڑ روپئےخرچ کئے قرآن اور اقبال نے یہ سبق مفت میں دے دیا تھا ۔ مگر نہ تو اب ہم قرآن کو ہی سمجھتے ہیں نہ اقبال کو ۔ اس لئے ضرورت تھی کہ ادھر سو سالوں میں جہاں انگریزی لبرل اور اسلام دشمن مصنفین نے مسلمانوں کے اسلاف کی جو منفی شبیہ پیش کی ہے اور کچھ مرعوب ذہنیت کے نام نہاد مسلم قلمکاروں اور علماء کے خیالات بھی بھٹکتے اور بہکتے نظر آئے جدید نسل کو اپنے اسلاف کے کردار کی تصویر دکھانے کیلئے سیٹلائٹ کے پردے سے بھی کوئی کرشمہ ظاہر ہو۔ اس میں کوئی شک نہیں یہ کام کسی اسلام پسند حکمراں کی پشت پناہی سے ہی ہو سکتا تھا لیکن اس ڈرامے کے چھتیس سالہ مصنف محمد برزاق نے بھی جدید اقبال کا کردار ادا کیا ہے۔

ارطغرل کے بعد عثمان کے پہلے سیزن کے آخری ایپیسوڈ میں جب عثمان اور اس کے فوجی صغوت قلعے کی خاتون گورنر صوفیہ کے قتل کے بعد فارغ ہوتے ہیں تو ان کے ہاتھوں میں ننگی تلواریں دیکھ کر دہشت زدہ عیسائی عورتوں اور بچوں کا ہجوم ایک کونے میں دبک کر اس انتظار میں بیٹھ جاتا ہے کہ اب ان کے قتل کی باری ہے۔ عثمان ننگی تلوار کے ساتھ آگے بڑھتا ہے اور ایک عورت کی گود سے اس کا بچہ چھین کر اپنی گود میں لے لیتا ہے۔ عورت سمجھتی ہے کہ شاید اب اس کے بچے کو قتل کر دیا جائے گا لیکن عثمان اس بچے کا بوسہ لیتے ہوئے کہتا ہے کہ یہ اب ہمارا بچہ ہے ۔اس کے بعد وہ کہتا ہے کہ لوگو سنو آج تک آپ نے ظالموں پر ہمارا قہر دیکھا ہے اب آپ مظلوموں کے ساتھ ہمارا رحم اور انصاف بھی دیکھیں گے۔ عیسائی بچے اور عورتیں جن کی آنکھوں میں دہشت ہوتی ہے ان کی آنکھوں سے خوشی کے آنسو ٹپکنے لگتے ہیں اور پھر اس کے بعد تمام فوجی ایک ایک کرکے اس بچے کو گود میں لیکر اللہ اکبر کا نعرہ لگاتے ہوئے جشن منانا شروع کردیتے ہیں۔

تقریبا یہی بات مورخین نے صوفیہ چرچ کے بارے میں لکھا ہے کہ ان کا عقیدہ تھا کہ جب ترک دشمن قسطنطین کے ستون پر داخل ہوں گے تو آسمان سے ایک فرشتہ اترے گا اور ان سب کو قتل کردے گا۔ مگر جب سلطان اپنے فوجیوں کے ساتھ اس ستون سے ہوتے ہوئے اس ہال میں داخل ہوا جہاں عیسائی عوام نے پناہ لے رکھا تھا تو وہ حیران رہ گئے، سلطان نے یہاں عیسائیوں سے مخاطب ہوتے ہوئے کہا کہ میں نے آپ سب کو معاف کردیا آپ لوگ پرامن ہوکر اس عمارت کو خالی کردیں ۔آیا صوفیہ میں موجود عیسائی جو اپنی موت اپنے سامنے دیکھ رہے تھے سلطان کے اس اعلان پر پھوٹ پھوٹ کر رونے لگے، گویا انہیں ترک فوجوں سے اس رحم کی امید نہ تھی۔ جبکہ اسی مقام پر اگر بازنطینی اور منگول ہوتے تو ترک عورتوں کو بندی بنا کر اپنے خیموں میں لے جاتے۔ دوسرے لفظوں میں کہا جائے کہ اسلامی تعلیمات سے لبریز ترکوں نے اپنے مفتوحہ علاقوں کے لوگوں اور شکست خوردہ حکمرانوں کو جنگ کے آداب سکھائے۔

اتفاق سے آج آیا صوفیہ چرچ سے میوزیم اور پھر مسجد میں تبدیل کئے جانے کے بعد ترک عدالت پر وہ لوگ بھی انگلیاں اٹھا رہے ہیں جن کے بارے میں برطانیہ کی نو مسلم خاتون جرنلسٹ یون ریڈلی نے معقول جواب دیا ہے کہ پہلے ان لوگوں کو اپنی تاریخ درست کرنے اور مہذب ہونے کی ضرورت ہے جن کے اپنے یہاں سیکڑوں مسجدیں چرچ میں تبدیل کردی گئیں یا سیکڑوں چرچ برائے فروخت ہیں اور چرچوں میں پادری نوخیز بچوں کے ساتھ جنسی زیادتی کے مرتکب ہورہے ہیں۔ ان کی خلش ایک میوزیم کو مسجد میں تبدیل کرنے سے نہیں ہے ان کا مسئلہ یہ ہے کہ یہ لوگ ایک طاقتور ترکی کو اسلام کی طرف لوٹنے سے روکنا چاہتے ہیں اور وہ مخالف طاقتیں جن کی یادداشت میں خلافت عثمانیہ کی عظمت ڈراؤنے خواب کی طرح پیوست ہے وہ یہ برداشت کرنے کو تیار نہیں ہیں کہ ترک ایک بار پھر اپنے ماضی کی اسلامی روایات کے اسیر ہوں۔

یہی وہ ذہنیت ہے جو ارطغرل ڈرامے کی مقبولیت کے بعد بھی سامنے آئی اور اس ڈرامے کو اکیسویں صدی کا ایٹم بم بھی کہا گیا۔ جبکہ خود ترکی کے سیکولر طبقے میں بھی آیا صوفیہ فیصلے کے خلاف کوئی بے چینی اور احتجاج کا ماحول دیکھنے میں نہیں آیا۔ بدقسمتی سے سیکولر نسوانیت جمہوریت اور غامدیت زدہ معاشرے کے پروردہ ہم جیسے مسلم قلمکارجن سے ایک بیوی,ایک خاندان اور تنظیم نہیں سنبھل پارہی ہے دو دو تین تین اور چار چار بیویوں والے سلطان جو تین براعظموں پر حکمراں تھے ان کو انصاف اور حکومت کا سلیقہ سکھا رہے ہیں !

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

error: Content is protected !!