سماجیمضامین

پہلے جینا دشوار ہوا، اب نکاح دشوارہے!

سید عرفان اللہ، بنگلور

سبھی جانتے ہیں النکاح من سنتی کے مانے کیا ہیں اور کس کو کب اور کیسے نکاح کرنا ہے اور نکاح کس لئے ضروری ہے مگر سب لوگ سبھی کچھ جانتے ہوئے بھی نکاح کے تعلق سے جو غلط بیانی اور غلط رسم و رواج میں الجھے ہوئے ہیں ان کے تعلق سے کیا بیان کیا جائے بس ان کے حق میں اللہ سے خیر کی دعا ہی کی جا سکتی ہے۔ خاص کر اس پر آسوب دور میں جب نفسا نفسی کا عالم ہے جب لوگوں کی نوکریاں داؤ پر لگی ہیں جب لوگوں کو کھانے کے لئے ملنا ہی دشوار ہو چلا ہے ایسے دور میں جہاں لوگ گھروں سے نکلنے ڈر رہے ہیں۔ اور ایسی حالت میں جب کسی کے انتقال کی خبر کانوں میں پڑتی ہے تو دل اور بھی گھبرا جاتا ہے۔ مگر ہمیں ہر حال میں جینا تو ہے چاہے ہم چاہیں یا نہ چاہیں زندگی تو گذارنا ہی ہے۔ پھر ہم تین وقت کے بدلے دو وقت کی ہی روٹی کھالیں یا پھر دن میں ایک بار ہی صحیح پیٹ بھر کر کھا لیں زندگی تو گذارنا ہی ہے۔

جب تک ہم زندہ ہیں پیٹ کی آگ تو بجھانی ہے۔ مگر مجھے تکلیف تب ہوتی ہے جب اس پُر آسوب دور میں بھی لوگ ایک دوسرے کا خون چوسنے ایک دوسرے کے کاندھے پر پیر رکھ کر آگے بڑھنے کی کوشش کرتے ہیں۔ ایسے دور میں بھی ایک دوسرے کو نیچا دکھانے کوئی کسر نہیں چھوڑتے ایسے دور میں بھی جب بھوکوں کو ایسے ایسے مشورہ دیتے ہیں کہ دل خون کے آنسو رونے لگتا ہے ایسی حالت میں بھی جب کسی کی نوکری چلی جائے یا پھر وہ کسی اور ہی مشکل میں گرفتار ہوکر کسی کے آگے اپنا حال بیان کرے تو ایسے ایسے مشورہ ملتے ہیں کہ ایک لمحہ تو دل سے بد دعا ہی نکل رہی ہوتی ہے ہم پھراپنے آپ کو روک کر بڑھی ہی ہمت کے ساتھ چہرے پر ایک مسکان لئے ان کو شکریہ کہتے ہوئے آگے بڑھ جاتے ہیں۔ آج سے 6 ماہ قبل جب دور کچھ اور ہی تھا جب گھروں سے نکلنا کوئی بڑی بات نہ تھی۔ جب منہ پر ماسک لازمی نہیں تھا۔ جب ہاتھوں کو سینیٹائز کرنا کسی کو پتہ بھی نہ تھا۔ جب صبح اٹھنے کے بعد ہر کوئی شام تک اپنے گھر کو خیر کے ساتھ پہنچنے کی امید لئے گھر سے خدا حافظ کہہ کر نکل جاتا اور گھر والے بھی فی امان اللہ کہہ کر بھیج دیا کر تے تھے۔

اس دور میں کئی لوگوں نے کئی کاموں کا ارادہ کیا تھا۔ کسی نے نئے گھر کی تعمیر کا سوچنا شروع کیا تھا۔ کسی نے چھٹیوں میں اس بار کہیں اور جانے کا پروگرام بنایا تھا۔ کئی لوگوں نے رمضان سے قبل عمرہ کے لئے نکلنے کا منصوبہ تیا ر کر لیا تھا۔ اور ہاں انہیں دنوں میں کئی گھروں میں شادیوں کی تواریخ بھی طے ہوئی جا ررہی تھیں۔ کئی لوگوں نے رمضان کے فوراً بعد شادیوں کی تاریخ طے کر لی تھیں اور کئی نے بس اس کے آس پاس مگر اتنا تو ہر گھر میں طے ہو چلا تھا کے عید کے بعد تقریباً ہر گھر شادی خانہ آبادی ہوئی جا رہی تھی۔ دعوت نامہ کی تیاری اور پھر شادی کی خریداری، شادی محل کی دستیابی اور پھر مخصوص مہمانوں کی فہرست اور انکو ابھی سے سفر کے لئے تیاری کی ہدایت یہ ہر گھر میں تقریباً شروع ہو چکا تھا۔ کسی نے اس وقت یہ نہیں سوچا تھا کہ ایسا دور بھی آئے گا جب ہم لوگوں کو اپنے گھر آنے سے روک دیں گے یا سیدھے سیدھے منع ہی کر دیں گے۔

اس وقت کسی نے بھی ہاتھ ملانے کو عیب اور گلے ملنے کو بیماری کو دعوت دینا سمجھتے نہیں تھے بلکہ ایک انسانی نیک فعل تسلیم کیا جاتا تھا۔ مگرکسی نے یہ نہیں سوچا تھا کہ شادی میں جہاں ہم کسی ایک بھی رشتہ دار کا نام چوک جانا نہیں چاہتے وہاں ہم اب صرف 25 لوگوں کو ہی دعوت میں بلانا ہوگا۔ ارے اتنے تو ہم پہلی بار دلہن کو دیکھنے جاتے وقت بھی نہیں تھے۔ اتنی کم تعداد میں ہم گھر میں جنم دن کی تقریب بھی نہیں کرتے۔ یہاں تو شادی کے لئے صرف 25 لوگوں کو دعوت دینا اُف اللہ اللہ کیا دور آیا۔ اب ایسی حالت میں جہاں حکومت نے لاک ڈاؤن کا نظام لاگو کروادیا اور گھروں سے نکلنا ہی محال کروادیا۔ وہاں وہ لوگ جو روزانہ کماتے اور کھاتے تھے۔ وہ لوگ جو ماہانہ آمدنی سے بچا بچاکر اپنی بیٹیوں کی شادی کے لئے کچھ رقم جمع کر رہے تھے۔ اور ان میں کچھ ایسے لوگ بھی تھے جو کہیں سے قرض لے کر پھر دھیرے دھیرے قرض ادا کرنے کی صورت بنا رہے تھے۔

سب کی امیدوں سب کی ترکیبوں اور سب کے ارادوں کو جیسے کسی بہت بری نظر لگ گئی۔ آج تقریباً چار ماہ بعد حالات ایسے ہیں کہ جو لوگ دوسروں کو دو وقت کی روٹی کھلاسکتے تھے آج ایک وقت کی روٹی کے لئے در در مارے مارے پھر رہے ہیں۔ کئی لوگ جو کبھی کبھی سڑکوں پر چائے پیتے وقت کسی غریب کو دیکھ لیتے تھے تو اس کو بھی ایک پیالی چائے پیلانے میں ثواب دیکھتے تھے آج خود ایک پیالی چائے کے محتاج ہو گئے ہیں۔ حالات نے ایسی کروٹ بدلی کہ اچھے اچھوں کے پسینہ نکل گئے۔ ایسے حالت میں ان لڑکیوں کی شادیاں بھی مشکل میں پڑ گئیں جو کبھی بہت آرام سے اور بہت آسانی سے ہو سکتی تھیں۔ مگر آج ان غریب،مجبور،لاچار اور ابھی ابھی ان میں کئی لڑکیوں کے والداس عالمی وباء میں دنیا سے کوچ کر گئے ان کے گھروں میں تو بس ماتم ہی ماتم ہے۔ ان لڑکیوں کا جہاں پہلے بڑے بڑے شادی محل میں نکاح طے ہوا تھا۔ اب گھروں کے پاس بھی نکاح مشکل نہیں نہ ممکن سا نظر آنے لگا ہے۔ اور ایسے میں جب کوئی سماجی خدمت اور اللہ رسول کی خوش ندی کے لئے کوئی کام ہاتھ میں لیتا ہے تو اس پر سماج کے ضمیر سے گرے ہوئے اور بے دین ایسے ایسے سوالات کی بوچھار لگا دیتے ہیں کہ وہ بیچارہ اپنی توبہ خود کر لیتا ہے اور ان کاموں سے خود کو الگ تھلگ کر دیتا ہے۔

مگر وہ زمانہ کے بے ضمیر نہ آگے بڑھ کر اس غریب بے سہارا کے لئے خود کچھ کرتے ہیں اور جو کرنے والے تھے ان کوہی کرنے دیا۔ اب حالات یہ ہوئے کہ ان عالمی وباء سے پہلے جن جن کے گھر آرام سے شادیاں ہونی تھیں ان کے گھروں میں اب رشتہ منقتہ ہونے کی خبریں آرہی ہیں۔ اب تک تو کئی لڑکیوں نے خود پھانسی لگا لی ہے یا پھر کئیوں نے خود کو آگ لگا لیا ہے۔ سوچیں ان گھروں کا کیا حال ہوگا جہاں پہلے باپ اپنی بیٹی کے لئے اس عالمی وباء سے پہلے کیا کیا خواب بنے تھے مگر افسوس اس وباء میں وہی اس دارِ فانی سے کوچ کر گیا اور اب اس گھر میں شادی بہت دور کی بات کھانے کے لالے پڑے ہیں وہاں شادیاں کیا ہوں گی اور وہاں کی بیٹاں اب کیا گھر بسائیں گے۔ یہاں ایک چھوٹا سے ذاتی تجربہ پیش کرنا چاہوں گا۔ میں نے کچھ شادیوں کی ذمہ داری جب قبول کی تھی تو یقین مانیں یہ کبھی نہیں سوچا تھا کہ لوگ مجھ سے ایسے ایسے سوال پوچھ سکتے ہیں کہ یا تو میں ان شادیوں سے پیچھے ہٹ جاؤں یا پھر خود کشی ہی کر لوں۔

مگر شاید آپ لوگوں کو تعجب نہ ہو میرے سامنے ایسے حالات لائے گئے ایسے ایسے سوالات آپ بھی دیکھیں ان سوالات کو ”آپ کو ہی ان کی فکر کیوں ہے؟“، ”کیا کسی سماجی ادارے سے رجوع نہیں کئے؟“، ”حکومت سے واداعی اسکیم وغیرہ تو ہے اس میں تو آرام سے شادی ہو سکتی ہےً“، ”ان کے والد مرنے سے پہلے کیا کچھ تیاری نہیں کئے تھے؟“، ”ارے صاحب آپ اپنی فکر کریں ان کی شادیاں اپنے آپ ہو جائیں گی“، ”آپ کا کمیشن کتنا ہے؟“، ”آپ تنہا ہی اتنی شادیوں کی ذمہ داری کیوں قبول لئے دوسروں کو بھی مدد کے لئے بلانا تھاً“، ”ارے ایسی حالت میں جہیز وغیرہ دینے کی کیا ضرورت ہے؟“ ”آپ صرف نکاح کروا دو اور چائے پانی پر معاملہ ختم کردو، کونسی تمہاری خاص بیٹی ہے؟“ وغیرہ وغیرہ یقین مانیں جتنا لوگوں نے مجھ پر طنز کیا میں اتنا ہی اس کام کے عزم کو اور پختہ دل میں تیار کر تا گیا۔ اور اب تو کرو یا مرو کی صورت میں آ گیا ہوں۔ میرا سوال تمام سے بس اتنا ہی ہے ”کیا ہمارے قوم کی بیٹیاں ہماری بیٹیاں نہیں؟“، ”کیا کسی بیٹی کو اپنی بیٹی کی طرح رخصت کرنا ہمارا فرض نہیں؟“، ”کیا میرے مرنے کے بعد میرے گھر کے حالات ویسے ہی رہیں گے جیسے آج ہیں؟“، ”کیا ہمیں اللہ اور اسکے رسول کو چہرہ نہیں دیکھانا ہے؟“۔ اگر مرنے کے بعد اللہ کو منہ دیکھانا ہے تو پھر ایسے سوالات اور ایسے روڑے اٹھکیلیاں کیوں؟

اگر میں کسی کی مدد نہیں کر سکتا تو کم از کم جو لوگ اس جانب کام کر رہے ہیں ان کے ہاتھ مضبوط کرنے میں مجھے تکلیف کیوں؟، میں اگر کسی کی مدد نہیں کر سکتا تو کم از کم انہیں دعا تو دے سکتا ہوں اور نیک مشورہ تو دے ہی سکتا ہوں۔ بجائے ان کا دل شکنی کرنے کے ان کا دل مضبوط تو کر رہی سکتا ہوں۔ اگر میری بیٹی کی شادی ہے تو میں جہاں کچھ لاکھ خرچ کر رہا تھا تو کیا دوسری کی بیٹی کی شادی میں کچھ ہزار خرچ کرنے میں دشواری ہونی چاہئیے؟ ایسا کیوں میری بیٹی کی شادی بڑے سے بڑے شادی محل میں اور غریب کا جب نام آئے تو چائے پانی پر ختم کرنے کی بات! جہاں میری بیٹی کی شادی پر چار سے پانچ رقم کے سونے کے سیٹ اور غریب کی بیٹی کے لئے چاندی کے پائل یا پھر کچھ سو روپے، کیوں؟ اب تو عید کا موقع ہے مگر جانوروں کی خرید فروخت مشکل ہے یہ الگ بات ہے۔

مگر میرا سوال ہے جہاں ہم حج ہی نہیں کر سکتے وہاں کون سی عید تو کیا ہم ایسے میں ایسے مواقع گنوا سکتے ہیں۔ میں یہ نہیں کہتا ہم اس سال عید کریں یا نہ کریں یہ کام ہمارے مفتی صاحبان کا ذمہ ہے۔ مگر اتنا ضرور کہنا چاہوں گا۔ اگر آپ کے قریب کسی غریب یا مجبور کی بیٹی کی شادی بس کسی وجہ نہ ہو پائے اور آپ نے قربانی کا جانور ذبحہ کیا تو یاد رکھو یہ قربانی نہیں بس ایک دھوکہ ہوگا۔ کتنے ہی غیر سرکاری اسکول کے اساتذہ جنکے اسکول بند ہونے اوران کو تنخواہیں نہ ملنے کی وجہ سے بے یارو مددگار ہوئے پڑے ہیں۔ اور جو گھر گھر بھیک مانگنے پر مجبور ہوئے ہیں ان کے بارے میں سوچیں خدارا سوچیں اس سے پہلے کی میری آنکھ بند ہو جائے میں ایسا کچھ کر جاؤں کہ میرا اللہ مجھ سے راضی ہو جائے۔

آخر میں بس اتنا ہی کہ میں نے کچھ مستحق لڑکیوں کی شادی کے لئے ذمہ اٹھا یا ہے۔ آپ لوگ مجھ سے اس کارِ خیر کے لئے جڑ سکتے ہیں۔ براہِ کرم آپ مجھے کال کریں اور ترتیب معلوم کر لیں۔ یا کم از کم دعا میں تو ضرور یاد رکھیں۔خدا حافظ

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

error: Content is protected !!