تحریک اسلامی: قائد اور اسکے اوصاف
از: سمیع الله جموں و کشمیر
دنیا کے ہر کام اور ہر مہم کے لئے قیادتِ کی ضرورت پڑتی ہے اور کسی بھی فلاح و کامیابی میں موزوں قیادت کا مرکزی رول ہوتا ہے۔انسان قائد کے بغیر کسی تحریک یا کسی ادارے کے قیام کا تصور بھی نہیں کرسکتا۔قائد کی ذہانت و قابلیت اس کی گوناگوں صلاحیتوں ہی کی بدولت تحریک یا ادارے کی کامیابی کے امکانات روشن ہوتے ہیں یا ترقی کی راہیں کھلتی ہیں۔
تحریک اسلامی کے قائد کے لئے ضروری ہے کہ وہ اعلیٰ درجے کا مہذب انسان ہو،جدید علوم و فنون کے اصولوں سے واقف ہو۔یہ ضروری نہیں کہ وہ تمام علوم میں ڈاکٹریٹ کی ڈگری حاصل کرلے مگر اتنا ضرور ہے کہ اقوام و مملک کی تاریخ پر اس کی نظر ہو۔قومی و بین الاقوامی قوانین،ملک کے معاہدوں،بیرونی ممالک سے اس کے تجارتی،تاریخج اور سیاسی تعلقات سے پوری واقفیت ہو۔
قائد کے لئے ضروری ہے کہ وہ ہر معاملے میں عملی نمونہ پیش کرے تاکہ لوگ دستور کے صفحات سے زیادہ اس کی ذات و شخصیت سے استفادہ کریں۔
لہذا ضروری ہے کہ قائد ایک ذہین،عقل منڈ،عالم اور بہادر شخص ہو۔کیونکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اپنی قوم کے سب سے زیادہ بہادر اور صاحب فہم و دانش شخص تھے۔جب کبھی سخت جنگ ہوتی اور کلیجے منہ کو آنے لگتے تو صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف رجوع کرتے،اسی طرح اسے نرم خو،پاکباز،متحمل اور باکردار ہونا چاہئے۔
قائد کے لئے یہ بھی ضروری ہے کہ وہ بردبار ہو۔امن و سکون کی حالت میں بردباری کی ضرورت نہیں پڑتی بلکہ اصل دانشمندی تو یہ ہے کہ انسان غصے کی حالت میں اپنے نفس پر قابو رکھے کیونکہ نفس تمام برائیوں کی جڑ ہے ۔
ضروری ہے کہ قائد ثابت قدم ،عفو درگزر سے کام لینے ولا اور دوست ہو۔اس کی دوستی،اس کی نرمی،اس کے عفو درگزر سے اس کے قریبی اور دور کے سبھی لوگ مستفید ہوں۔تحریک کے لئے سب سے بڑا خطرہ ان کے وہ کارکن ثابت ہوتے ہیں جو محض نظریاتی اختلافات کی بنیاد پر دوسروں پر تنقید کرتے ہیں،،،،کسی کی بے راہ روی پر اس کو برا بھلا کہتے ہیں۔غرضیکہ ہر وہ شخص جو ان کا ہمنوا نہیں ان کی نظر میں مہتم ہے۔یہ لوگ حکام سوء سے بھی زیادہ خطرناک ہیں۔
قائد کے لئے عہد کی پابندی اور وفا شعاری بھی ناگزیر ہے اس سے اس کے اندر پختگی پیدا ہوتی ہے اس کا اس کے رب سے رشتہ مضبوط ہوتا ہے۔
صدق گوئی بھی قائد کے لئے ضروری اوصاف میں سے ہے،یہ تو مردانگی کی علامت ہے۔ابوس سفیان رضی اللہ عنہ جب کہ وہ مشرک تھے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے سلسلے میں پوچھے جانے پر جھوٹ نہ بول سکے جب کہ وہ رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے سخت دشمن تھے تو آخر ایک مسلمان سے اس کی توقع کیونکر کی جاسکتی ہے اور تحریک اسلامی کے قائد کے بارے میں تو سوچا بھی نہیں جاسکتا۔
اسی طرح قائد کو چغل خوروں اور لگاؤ بجھاؤ کونے والے افراد سے دور رہنا چاہئے اور یہ پہلو بہت اہمیت کا حامل ہے۔کیونکہ بہت ساری تنظیمیں ایسی ہیں جنھوں نے سالہا سال قیل و قال اور غیر ضروری مباحث میں لگا دیے یا ایک دوسرے کے خلاف الزام تراشی اور اعتراضات کا جواب دینے میں گزار دیے۔اور یہ چیزیں چغل خوری،لگاو بجھائی اور غیبت کے ذریعہ ہی فروغ پاتی ہیں۔اس کا نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ ایک ہی امت کے افراد کے درمیان الفت و محبت کے پھول کھلنے کے بجائے بغض و نفرت کے شعلے بھڑکنے لگتے ہیں۔حدیث شریف میں آیا ہے” اللہ تعالیٰ کے بہترین بندے تو وہ ہیں جو ذکر خداوندی میں مشغول ہوتے ہیں اور شریر بندے وہ ہوتے ہیں جو چغل خوری کرنے،دوستوں کے درمیان تفرقہ پیدا کرنے اور دوسروں کی عیب جوئی میں لگے رہتے ہیں۔
لہذا قیادت کی اولین ذمہ داری ہے کہ وہ پہلی فرصت میں ان شرپسند عناصر سے خود کو آزاد کرلے تاکہ ایک طرف دوسرے لوگ ان کے شر سے محفوظ ہو جائیں اور دوسری طرف تحریک کی ترقی کے راستے میں حائل رکاوٹیں دور ہوجائیں۔
ابن حزم رحمہ اللہ کا قول ہے”ملکوں کی تباہی،حکومتوں میں انتشار،افراد کے درمیان خون خرابہ اور افشائے راز کے پیچھے ہمیشہ چغل خوروں اور کاذبوں کا ہاتھ رہا ہے اور بغض رکھنے والے افراد ہمیشہ غیر دانشمندانہ اقدام پر اصرار کریں گے جس کے نتیجے میں ذلت،بدنامی،رسوائی کے سوا اور کچھ ہاتھ آنے کا نہیں”.
تحریک اسلامی کے قائد کے لئے ہر طرح کا فیصلہ کرنے سے قبل شوریٰ سے مشورہ لینا ضروری ہے اور شوریٰ کے فیصلے پر اعتماد کرنا دینی فریضہ ہے” باہم مشورہ کرنا دین اسلام کی بنیاد ہے،پوری دنیا کے لئے اللہ تعلی کی سنت ہے۔ شوریٰ کسی مسئلے پر مل بیٹھنے کا نام ہے،ہر ایک اپنی رائے کا اظہار کرسکتا ہے۔جب بھی کوئی معاملہ درپیش ہو اس وقت تک کوئی فیصلہ نہ کیا جائے جب تک باہم مشورہ نہ کرلیا جائے (وأمرهم شوریٰ بینهم).
اقول قولي هذا واستغفر الله لي ولكم والله اعلم بالصواب۔