مذہبیمضامین

نظام عدل سے درخشاں اسلامی تاریخ کے مناظر

تحریر: انا تسنیم منصوری، ممبئی

اسلام ایک مکمل نظام حیات ہے۔ اخلاقی، معاشرتی، سماجی، سیاسی اور مذہبی ہر سطح پر اسلامی تعلیمات انسانوں کی رہنمائی کرتی ہیں۔ اسلام کا ایک بہت اہم جُز عدل و انصاف ہے۔ جس کے بغیر اسلامی نظام حیات کا ڈھانچہ مکمل نہیں ہو سکتا۔ نظام عدل کا یہ ڈھانچہ اپنے آپ میں منفرد ہونے کے باوجود زندگی کے ہر شعبے سے تعلق رکھتا ہے۔ جسکے بغیر اسلام کا کوئی جُز مکمل نشونما نہیں پا سکتا۔
عدل و انصاف کا نظام ہی کسی بھی معاشرے کی اصل روح ہوتا ہے۔ اگر کوئی معاشرہ اس روح سے محروم ہو تو وہ صالح معاشرہ نہیں بن سکتا ہاں ظلم و جبر کی آماجگاہ ضرور بن جائے گا۔

عدل و انصاف ہی تمام نیکی اور محاسن کی اساس ہے۔ یہی وجہ ہیکہ اللہ تعالی نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات پاک میں عدل و انصاف کا عنصر انکی زندگی کے شروعاتی دور میں ہی پیدا کر دیا تھا جبکہ ابھی وہ نبوت کی ذمہ داری سے سرفراز بھی نہیں ہوئے تھے۔ اس تعلق سے حجر اسود کو کعبہ شریف میں نصب کرنے کا واقعہ کافی مشہور ہے۔ علاوہ ازیں واقعہ حلف فضول بھی غور طلب ہے جو قبل نبوت ہی پیش آیا۔ واقعہ کچھ اس طرح ہے کہ ایک غیر مکی سوداگر اپنا سامان بیچنے مکہ مکرمہ آیا۔ مکہ مکرمہ کے ایک شخص نے اس سے کچھ سامان لیا اور ان کی قیمت ادا کرنے سے انکار کردیا۔ تاجر نے مدد کے لیے قریش کے مختلف قبیلوں سے رابطہ کیا ، لیکن چونکہ مکہ قبائلی معاشرہ تھا، لہذا سب نے اس کی مدد کرنے سے انکار کردیا۔ آخر کار وہ شخص ایک پہاڑ کی چوٹی پر گیا اور اپنی شکایات سب کو سنانے لگا۔

اس کے جواب میں عرب قبائل کے کچھ قائدین اکٹھے ہوئے اور مکہ مکرمہ کے سوداگر کو اس کا بدلا ادا کرنے پر مجبور کیا۔ مزید برآں، ان رہنماؤں میں سے کچھ نے وہ معاہدہ کیا جو حلف فضول (Pact of Chivalry)کے نام سے جانا جاتا ہے جہاں انہوں نے معاشرے میں ناانصافیوں اور مظلوموں کے حقوق کی بحالی کے لئے مل کر کام کرنے کا عہد کیا۔ حضرت محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اس معاہدے کی عظمت کا مشاہدہ کیا اور اگرچہ اس کا آغاز مشرکین نے کیا تھا, انھوں نے اسے منظوری کے ساتھ یاد کیا۔

آپﷺ اعلان نبوت کے بعد انسانیت پر مبنی اس تاریخی معاہدہ کا ذکر کرتے ہوۓ کہتے : “میں عبداﷲ بن جدعان کے مکان پر ایک ایسے معاہدہ میں شریک ہوا کہ مجھے اس کے عوض سرخ اونٹ بھی پسند نہیں اور اگر مجھے اس کے لئے دور اسلام میں بلایا جاتا تو میں اسے یقینا قبول کرلیتا۔” (الرحیق المختوم ص: ۷۷
یہ معاہدہ مکہ مکرمہ کے باہر ہر فرد کے لئے تھا اس کا مقصد محفوظ معاشرے کو یقینی بنانا، بازار تک منظم طور پر رسائی اور جبر اور معاشرتی ناانصافیوں کو ختم کرنا تھا۔
بالکل اسی طرح آپ صلی اللہ علیہ وسلم نبوت کے بعد بھی قاضی بالحق کی حیثیت سے فیصلے کرتے رہے۔ صحابہ کرام رضی اللہ تعالی عنہا اور دوسرے اشخاص آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں اپنے معاملات اور مقدمات کے فیصلے پیش کرتے اور حضور صلی اللہ علیہ وسلم ان کا فیصلہ حکم الہی کے مطابق فرمادیتے تھے۔ یہ فیصلے تمام انسانوں کے لئے فصل خصومات اور فیصلے مقدمات کے لئے شرعی امثال اور قانونی نظیریں ہیں جسکی مدد سے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد صحابہ کرام رضی اللہ تعالی عنہ اور باقی خلیفتہ الاسلام نے اپنے نظام عدلیہ میں فیصلے سنائے۔

تاریخ اس بات کی شاہد ہے کہ جب تک اسلامی معاشرے میں عدل و انصاف کا یہ وصف باقی رہا معاشرہ مستحکم اور بقا کا ضامن رہا۔ کیونکہ یہی وہ اعلی وصف ہے جسے اپنانے والی قوم سر بلندی اور سرفرازی سے ہمکنار ہوتی ہے۔
اسلامی تاریخ عدل کی بے شمار مثالوں سے بھری ہوئی ہے:

عمر بن خطاب رضی اللہ تعالی عنہ ایک باعظمت، انصاف پسند اور عادل حکمراں مشہور ہیں۔ انکے خلافت کے دور کا ایک بہت دلچسپ واقعہ ہے کہ ایک بار امیرالمومنین عمر رضی اللہ تعالی عنہ نے کسی دیہاتی سے گھوڑا خریدا، اسے پیسے دیے اور گھوڑے کو ایڑ لگائی اور کافی دور جا پہنچے۔ تھوڑی دیر میں گھوڑے پر تھکاوٹ کے آثار ظاہر ہونے لگے اور وہ زخمی بھی ہو گیا عمر رضی اللہ تعالی عنہا فوراً واپس لوٹے اور جس سے گھوڑا خریدا تھا اسے جا پکڑا۔ عمر رضی اللہ تعالی عنہا نے کہا “یہ گھوڑا بیمار ہے, اسے واپس لے لو” مگر دیہاتی ماننے کو تیار نہیں تھا اس نے پوری جرأت سے جواب دیا “اے امیر المومنین! جب میں نے اسے بیچا تھا تو یہ تندرست تھا.”
عمر رضی اللہ تعالی عنہ نے فرمایا “ایسا کرتے ہیں کسی تیسرے شخص سے فیصلہ کروا لیتے ہیں.” دونوں وقت کے قاضی شریح بن حارث کندی رحمتہ اللہ علیہ کے پاس پہنچے. دونوں نے اپنا موقف سامنے رکھا حضرت شریح نے جب دونوں کی باتیں سن لیں تو عمر رضی اللہ تعالی عنہا سے پوچھا “اچھا آپ نے جب یہ گھوڑا لیا تھا تو تندرست و توانا تھا یا نہیں؟” عمر رضی اللہ تعالی عنہ نے عرض کیا “یہ بالکل صحیح سلامت تھا۔”
حضرت شریح رحمتہ اللہ علیہ نے عرض کیا “پھر آپ اپنی خرید کردہ چیز اپنے پاس رکھیں اور اگر واپس کرنا چاہتے ہیں تو ویسی ہی حالت میں دیں جیسی لی تھی۔”
سیدنا عمر رضی اللہ تعالی عنہ نے یہ دو ٹوک فیصلہ سنا تو خوشی سے حضرت شریح رحمتہ اللہ علیہ کو دیکھا اور آپ کے منہ سے بلا اختیار نکلا
“فیصلہ ہو تو ایسا ہو”

حضرت شریح بن حارث کندی جو عظیم تابعین کی صف میں شامل ہیں جن کے علم و فضل، فہم و فراست، دیدہ دری، آگہی، اصابت رائے، بالغ نظری، نکتہ رسی، صائب الراۓ اور پختہ فکری سے عمر رضی اللہ تعالی عنہ بخوبی واقف تھے اور اسی بنا پر انہیں عہدہ قضا کی ذمہ داری دی تھی۔ عمر رضی اللہ تعالی عنہا کا انتخاب ایسا لاجواب تھا کہ آپ رضی اللہ تعالی عنہا کے بعد عثمان رضی اللہ تعالی عنہ، علی رضی اللہ تعالی عنہ اور معاویہ رضی اللہ تعالی عنہ نے بھی انہی کو بحیثیت قاضی عہدے پر برقرار رکھا۔ صرف یہی نہیں بلکہ بعد کے دیگر خلفائے بنو امیہ نے بھی آپ کو ہی کوفہ کا قاضی برقرار رکھا۔
“سات طرح کے انسانوں کو قیامت کے روز اللہ اپنے سائے میں جگہ دے گا جب کہ اس کے سائے کے سوا کوئی اور سایہ نہ ہوگا ان میں ایک امام عادل (یعنی انصاف کرنے والا حاکم یا قاضی) ہے۔ (بخاری)

عدل کی ایک اور مثال عمر بن عبدالعزیز رحمۃاللہ علیہ کی سیرت میں بھی موجود ہے یہ نیک دل خلیفہ اپنی بے شمار خوبیوں کی بدولت عمرثانی کہلاۓ۔ عمر رحمۃ اللہ علیہ کی والدہ ام عاصم عمر بن خطاب رضی اللہ تعالی عنہ کی پوتی تھیں۔ عمر بن عبدالعزیز جب خلیفہ بنے تو عدل و انصاف کے معاملے میں سب سے زیادہ اللہ سے ڈرنے والے تھے۔خلیفہ بنتے ہیں انہوں نے خلافت راشدہ کی یاد تازہ کردی۔ فقر و سادگی کو اپنا شعار بنایا۔ شاہی خاندان نے بیت المال اور عوام کے لوٹے ہوئے مال و اسباب سے جو بڑی بڑی جاگیریں بنا لی تھیں ان کی واپسی کا آغاز اپنے گھر سے کیا۔ اور اس طرح عمر بن عبدالعزیز کی پیروی میں بنو امیہ کے تمام لوگوں نے غصب شدہ جائیدادیں واپس کردیں۔ سرکاری خزانے سے معمولی سا فائدہ اٹھانا بھی انہیں گوارا نہ تھا۔

رات کو جب تک حکومت کا کام کرتے تھے اسی وقت تک سرکاری شمع جلاتے تھے اور جب اپنا کوئی ذاتی کام شروع کرتے تو اپنا چراغ جلا لیتے۔ ایک مرتبہ آپ کے ملازم نے آپ کے لئے وضو کا پانی سرکاری باورچی خانے میں گرم کر لیا آپ کو معلوم ہوا تو آپ نے اتنی لکڑی خرید کر سرکاری باورچی خانے میں داخل کرا دیں۔ آپ اتنے زیادہ احتیاط سے کام لیتے تھے کہ ایک دفعہ سرکاری خزانے سے خوشبو آپ کے سامنے لائی گئی تو آپ نے ناک بند کرلیں لوگوں نے عرض کیا “امیرالمومنین! اس کی خوشبو سونگھنے میں حرج کیا ہے؟” فرمایا “خوشبو کا نفع یہی تو ہے”۔ یہ تھے وہ نیک دل خلیفہ جو پیکر انصاف کی واضع مثال تھے۔
عدل و انصاف کی راہ میں عموماً دو چیزیں رکاوٹ بنتی ہیں۔
١-عداوت
٢-قرابت

اللہ تعالی نے قرآن میں فرمایا ہے “اور جب بات کہو انصاف کی کہو خواہ معاملہ اپنے رشتے دار ہی کا کیوں نہ ہو”(سورہ انعام:١٥٢)
محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی سیرت مبارکہ سے اس کی بہت سی مثالیں ملتی ہیں جس میں سے ایک غزوہ بدر کا وہ واقعہ ہے جس میں دوسرے قیدیوں کے ساتھ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے چچا بھی گرفتار ہوئے تھے۔ قیدیوں سے فدیہ لے کر انہیں رہا کیا جا رہا تھا۔ فدیے کی رقم چار ہزار درہم تھی لیکن امیر ترین لوگوں سے اس سے بھی کچھ زیادہ رقم لی جا رہی تھیں۔ چونکہ حضرت عباس حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے چچا تھے اس لئے چند صحابہ کرام نے عرض کیا “یا رسول صلی اللہ علیہ وسلم اجازت دیجئے کہ عباس کا فدیہ معاف کر دیا جائے اور انہیں یوں ہی رہا کر دیا جائے” یہ سن کر رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا “ہر گز نہیں بلکہ عباس سے ان کی امیری کی وجہ سے حسب قاعدہ چار ہزار درہم سے زیادہ وصول کیے جائیں۔”(صحیح بخاری, کتاب المغازی)

اسلام کی نظر میں قرابت اور رشتے ناتوں کی اہمیت قانونِ شریعت اور عدل و انصاف سے بڑھ کر نہیں ہے۔

عدل و انصاف کے مثبت نتائج میں سے ایک یہ بھی ہے کہ اس سے انسانی نفس مطمئن اور پر سکون ہو جاتی ہے۔ اس تعلق سے عمر رضی اللہ تعالی عنہ کا وہ واقعہ قابل ذکر ہے جب قیصر بادشاہ روم نے عمر رضی اللہ تعالی عنہ کے پاس اپنا قاصد بھیجا۔ وہ مدینہ میں آیا تو پوچھا “تمہارا بادشاہ کہاں ہے؟” لوگوں نے کہا ہمارا بادشاہ نہیں ہے بلکہ ہمارا تو امیر ہے. اور وہ شہر سے باہر گیا ہوا ہے. چنانچہ وہ شخص تلاش میں نکل کھڑا ہوا. کیا دیکھتا ہے کہ مسلمانوں کا امیر ریت پر دٔرّہ سرہانے رکھے سویا ہوا ہے۔ قاصد نے دیکھا تو اس کے دل پر رقّت طاری ہوگئی۔ اور کہنے لگا “یہ شخص کہ دنیا کے بادشاہ جس سے کانپ رہے ہیں، اس اطمینان سے اکیلا سویا ہوا ہے.” وہ کہنے لگا “اے عمر رضی اللہ تعالی عنہ تم نے انصاف کیا اس لیے تم سکون اور اطمینان میں ہو. اور دنیا کے بادشاہ ظالم ہیں اس لیے وہ خائف ہیں اور ان کی نیندیں اڑی ہوئی ہیں۔”
عدل و انصاف ہی وہ پیمانہ ہے جس سے انسانی زندگی کو لطف حاصل ہوتا ہے یہی وہ جزبہ ہے جو نہ صرف انسان بلکہ پوری قوم کو بلندی کی طرف لے جاتا ہے تاریخ اسلامی کے یہ تمام واقعات اس بات پر شاہد ہیں۔

حفاظت باغ کی جب باغ کے مالی نہیں کرتے
تو پھر موسم بہاروں کے بھی ہریالی نہیں کرتے

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

error: Content is protected !!