ہند میں اسلام کی آمد: ایک مطالعہ، ایک تحقیق
پہلی قسط
تحریر: ایس ایم صمیم عبدالسلیم، ناندیڑ
برصغیر ہند و پاک کے مسلمانوں میں ہمیشہ سے یہ تشنگی رہی ہے کہ ہند میں اسلام کی آمد کیسے ہوئی اس کے لئے مختلف روایات بھی زیر گفتگو رہتی ہیں۔ جیسے بعض حضرات یہ سمجھتے اور تصور دیتے ہے کہ ہند میں اسلام کی آمد صوفیانہ جدوجہد یا بالخصوص حضرت معین الدین چشتی رحمتہ اللہ علیہ کی سعی و جہد کا نتیجہ ہے اور بعض کا یہ خیال ہے کہ حضرت محمد بن قاسم کی آمد سے ہی اسلام کی آمد ہوئی ہے مورخین و مصنفین کا ایک گروہ ایسا بھی ہے جو راجہ چیرامن کیرالا کے ساحل سے اسلام کی آمد پر اپنا موقف رکھتا ہے۔
سندھ یا ہند کا تاریخی پس منظر
تیرا سو سال پہلے جس علاقہ کو سندھ کہا جاتا تھا وہ لمبائی اور چوڑائی کے اعتبار سے کافی بڑا اور پھیلا ہوا علاقہ تھا، اسلام کی آمد سے پہلے راجہ داہر کی حکومت میں جس ملک کو سندھ سے موسوم کیا جاتا تھا وہ مغرب میں مکران تک، جنوب میں بحرعرب اور گجرات تک، مشرق میں موجودہ مالوہ کے وسط اور رجپوتانے تک اور شمال میں ملتان سے گزر کر جنوبی پنجاب تک وسیع تھا،
یہ ملک تاریخی اعتبار سے اتنا قدیم ہے کہ کوئی بھی مورخ یہ ثابت نہیں کرسکتا کہ یہ ملک کب سے ہے اور اس کے نام میں کیا کیا تبدیلیاں ہوئی ہے، تاریخ سے صرف اتنا ہی پتا چلتا ہے کہ ہزاروں سال قبل جب آریہ اس ملک پر قابض ہوئے تو انہوں نے اس ملک کا نام سندھو رکھا کیونکہ وہ اپنی زبان میں دریا کو سندھو کہتے تھے، دھیرے دھیرے یہ نام سندھو سے سندھ ہونے لگا اور اتنا مقبول ہوا کے ہزاروں سال گزرنے کے بعد بھی سندھ ہی کے نام سے مشہور ہے۔ یہ بھی کہا جاتا ہے کہ اس کے بعد آریوں نے جتنے علاقے (ملک) فتح کئے ان کا نام سندھ ہی رکھا نام میں کوئی تبدیلی نہیں کی جب گنگا تک پہنچ کر رک گئے تو اس کا نام آریہ ورت رکھا مگر اس نام کو ملک کے باہر شہرت نہ مل سکی، ایرانیوں نے اسے اپنے لہجے میں ہند کہا اور یونانیوں نے ھ کو قریب المخرج حروف بدل کر اند کردیا رومن میں یہ لفظ اند سے اندیا اور انگریزی میں انڈیا ہوگیا۔
اسلام کی آمد سے پہلے اس ملک پر جو راجہ حکومت کرتے تھے وہ رائے کہلاتے تھے حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی حجرت سے قبل یہاں رائے حکومت تھی جو ایک سو تینتیس / ۱۳۳ برس تک قائم رہی، اس حکومت کے درجہ ذیل پانچ راجا گزرے جو عقیدے سے بدھ مذہب کے پیروکار تھے۔
1) رائے ڈیوانچ
2) رائے رس
3) رائے ساہ سی
4) رائے سیھرس ثانی
5) رائے ساہ سی ثانی
(حوالہ، تاریخ سندھ از اعجازالحق قدوسی)
سندھ یا ہند میں اسلام کا آغاز۔۔۔
اسلام دین یا نظریہ کی حیثیت سے پہلے جنوبی ہند میں پہنچا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات (632ء) کے بعد سے ہی مسلمان تاجر و مبلغ مالابار اور جنوبی ساحلوں کے مختلف علاقوں میں آنے جانے لگے تھے، مسلمان تاجر اخلاق و کردار کے ساتھ ساتھ پیشہ کے اعتبار سے بھی ایماندار و دیانت دار تھے جس کی وجہ سے مالیابار کے راجاؤں تاجروں اور عوام نے ان کے ساتھ حسن سلوک و رواداری کا معاملہ رکھا چنانچہ مسلمانوں نے ساحلوں پر عبادت گاہیں(مساجد) قائم کی اور دین اسلام کی دعوت و اشاعت میں مصروف ہوگئے (یاد رکھئے اس زمانے میں خانقاہوں کی تعمیر کا کوئی تصور ہی نہیں تھا) ہر مسلمان اپنے اخلاق و کردار سے دین کا مبلغ اور داعی تھا، تقریباً ایک صدی تک دعوت و تجارت کا یہ سلسلہ جاری رہا عوام اخلاق و کردار سے متاثر ہوتے چلے گئے اور دن بہ دن دین اسلام کا فروغ ہونے لگا یہاں تک کہ مالابار کے راجا نے بھی اسلام قبول کرلیا، جنوبی ہند میں فروغ اسلام کی ایک وجہ یہ بھی تھی کہ یہاں مذہبی کشمکش جاری تھی آریہ (ہندو) دھرم کہ پیروکار بدھ مت اور جین مت کی شدید مخالفت اور اس کو ذلیل کرنے کی کوشش کررہے تھے انسانی اقدار کی پامالی اور اونچ نیچ کو بڑھاوا دیا جارہا تھا ان حالات میں جب داعیانِ اسلام نے توحید حقیقی کی دعوت دیتے ہوئے چھوت، چھات، ذات، پات اور اونچ، نیچ کو خلاف انسانیت قرار دیا تو ہزاروں سالوں سے ان مسائل کا شکار عوام اسلام کی طرف مائل ہونے لگے اور اسلام کو بطور ان مسائل کا حل قبول کرتے چلے گئے اس وقت حکومت اور معاشرے کی طرف سے تبدیلی مذہب پر کوئی روک نہیں تھی اور نہ اسے منفی سمجھا جاتا تھا لہذا ہزاروں غیر مسلم مشرف بہ اسلام ہوگئے
اسلام کی آمد کے مختلف ادوار
دور فاروقی
دور فاروقی میں بحرین وعمان کے حاکم عثمان بن ابوالعاص ٹقفی نے 636ء-637ء میں (وفات رسول اللہ سے صرف 4 سال بعد) ایک فوجی مہم تھانہ نزد ممبئی میں بھیجی- پھر اس کی اطلاع حضرت عمر رض کو دی- آپ ناراض ہوئے اور لکھا” تم نے میری اجازت کے بغیر سواحل ہند پر فوج بھیجی- اگر ہمارے آدمی وہاں مارے جاتے تو میں تمہارے قبیلہ کے اتنے ہی آدمی قتل کرڈالتا” (تاریخ پاک وہند ص: 18)
عہد عثمانی
عہد عثمانی میں عراق کے حاکم عبداللہ بن عامر نے حکیم بن حبلہ کو بریصغیر سرحدی حالات کی تحقیق پر مامور کیا- واپسی پرانہوں نے حضرت عثمان رض کو اپنی رپورٹ میں بتلایا کہ ” وہاں پانی کیمیاب ہے، پھل نکمے ہیں، ڈاکو بہت دلیر ہیں اگر قلیل التعداد فوج بھیجی تو ہلاک ہوجائے گی اور اگر زیادہ لشکر بھیجا گیا، تو بھوکوں مرجائے گا” اس رپورٹ کی بناء پر حضرت عثمان غنی رض نے مہم بھیجنے کا ارادہ ترک کردیا۔ (تاریخ پاک وہند ص: 19)
دور معاویہ
حضرت امیر معاویہ رض کے دور حکومت میں مشہور سپہ سالار مہلب بن ابی صفرہ نے برصغیر کی سرحد پر حملہ کیا اور لاھور تک بڑھ آیا- انہی ایام میں خلیفہ اسلام نے ایک اور شپہ سالار عبداللہ بن سوار عبدی کو سواحل برصغیر کے سرکش لوگوں کی گوشمالی کے لیے 4 ھزار کی عسکری جمیعت کے ساتھ بھیجا- اس نے قیقان کے باشندوں کو سخت شکست دی اور مال غنیمت لے کر واپس چلاگیا- ان نے حضرت امیر معاویہ رض کی خدمت میں قیقانی گھوڑے پیش کیے- لیکن کچھ مدت بعد عبداللہ بن سوار قیقان واپس آگیا، جہاں ترکوں نے یورش کرکے اسے قتل کردیا- (تاریخ پاک وہند ص:19)
عہد ولید بن مالک
بعد ازاں 712ء یعنی 93ھ میں ولید بن مالک کے زمانہ میں وہ واقعہ پیش آیا جس نے برصغیر میں اسلام کی اشاعت کے سلسلہ میں بڑا موثر کردار ادا کیا یعنی محمد بن قاسم رح نے اس سال سندھ کے سارے علائقہ کو فتح کرلیا- اس حملہ ک اسباب و محرکات ہمارے موضوع سے خارج ہیں- ہم ویہ دیکھنا چاہتے ہیں اس مہم میں محمد بن قاسم نے دیبل، نیرون، سیوستان، سیسم، رادڑ، برہمن آباد، اوور، باتیہ (موجودہ بہاولپور کے قرب و جوار میں موجود تھا)، اور ملتان کو فتح کیا اور قنوج کی تسخیر کا ارادہ کررہا تھا کہ اسے واپس بلالیا گیا-
محمد بن قاسم رح کے جانے کے بعد فتوحات کا سلسلہ اچانک رک گیا- بہرحال عرب سندھ و ملتان پر 200 سال سے زیادہ عرصہ تک (یعنی 10 صدی عیسوی تک) قابض رہے، چوتھی صدی ہجری تک خلیفۃ المسلمین والیان سندھ کا تقرر کرتے رہا- اس کے سندھ میں عربوں کی دو نیم ریاستیں قائم ہوگئیں- ان میں سے ایک ملتان اور دوسری منصورہ تھی۔ (تاریخ پاک وہند ص: 35)
جاری۔۔۔