حالاتِ حاضرہمضامین

کورونا اور ہماری زندگی

سید عرفان اللہ، بنگلورو

کورونا کو ہمارا مہمان ہوئے کافی عرصہ ہو چکا ہے اور اب کورونا کو میں مہمان بھی نہیں کہتا اب تو ہم اس کے مہمان ہو گئے ہیں وہ جب چاہے جہاں اور جیسے چاہے کسی بھی بہانے ہم تک پہنچ جاتا ہے اور پھر ہمیں ہمارے مالکِ حقیقی سے ملا بھی دیتا ہے۔لیکن یہی کام انگریزوں نے بھی کیا تھا مہمان بن کر آئے تھے اور ہمیں غلام بنا دیا تھا مگر یہ ظالم ہمیں اپنا لقمہ ہی بنا لیتا ہے۔ اس وباء سے بچنے اور احتیات کے لئے حکومتیں اپنی طور پر کافی اسکمیں اور کئی ترکیبیں نکال تو رہی ہیں کسی بھی ترکیب میں کامیابی نہیں مل رہی وہ الگ بات ہے۔ وہ اس لئے بھی کامیاب نہیں ہو رہے ہیں کیوں کہ ان کا منشا اسکیم کا صرف اعلان کرنا ہے اسے عمل میں لانا اور عوام الناس تک اس کا فائدہ پہنچانا تو بالکل نہیں اور اس میں حکومیتں پوری طرح کامیاب ہیں ۔

ہر روز نئے احکام، نئے قانون اور نئے اعلانات ہو رہے ہیں اور پولیس اور دیگر سرکاری عملہ کے ذریعہ اس کو پائے تکمیل تک پہنچانے کی پوری سختی کے ساتھ کوشش بھی کررہی ہے ۔ جیسے ماسک کے بنا آپ کو پٹرول نہیں ملیگا۔ بنا ماسک آپ گھر سے نہیں نکل سکتے۔ آپ سڑکوں پرتھوک نہیں سکتے۔ آپ مذہبی ہو یا سماجی عوامی کاروائی نہیں کر سکتے ۔ ہاں اگر سیاست داں چاہے تو سیاسی جلسہ کر سکتے ہیں وہ لوگوں کے ساتھ مصنوعی کاموں کی تشہیر کر سکتے ہیں۔ مگر عوام الناس کا جینا بہت مشکل ہوگیا ہے ۔

اب شادی بیاہ کی ہی بات لیں۔ پہلے غریب ہو یا امیر کم از کم ہزار 2 ہزار سے کم کی دعوت کہاں مانتے تھے۔ یہاں تک کہ جنم دن ، چھلہ اور جانے کیا کیا تقاریب بھی شادی محل میں ہی سرانجام پا رہی تھیں۔ مگر اس منحوس کورونا کی وجہ سے حکومت نے صرف 50 لوگوں کی حد مقرر کر دی اور ہاں ان 50 میں عروس اور نوشہ دونوں کے طرف کے رشتہ دار شامل ہیں۔خیر کچھ دنوں پہلے ایک دوست کی دختر نیک اختر کی عقد سعید میں شامل ہونے کا شرف حاصل ہواجس میں عجیب تجربہ بھی ہوا۔ پہلے شادی کی تقاریب میں یہ ہوتا تھا کہ سب سے پہلے دلکش و خوبصورت دعوت نامہ بنائے جاتے تھے ۔ اس سے عروس کے خاندان والوں پر اضافتی بوجھ کا کسی کو کوئی خیال بھی نہیں اور اصراف کی تو بات ہی نہیں بلکہ نوشہ والے تو مہنگے سے مہنگے دعوت نامہ کی بھی فرمائش کر دیتے اور کہتے یہ ہماری نہیں آپ کے ہونے والے داماد کی فرمائش ہے۔ بیچارے لڑکی کے والد کو اپنی بیٹی کی خوشی اور اپنی عزت کی خاطر ہر زہر کو بس صبر کے ساتھ پینا پڑتا تھا۔ اس کے بعد حسین سے حسین اور مہنگا شادی محل پھر وہاں تک آنے میں عام لوگوں کو دشواریاں ہی کیوں نہ ہو۔ مگر شادی محل کسی راجہ کے محل سے کم والا نہ ہو۔

اس کے بعد پکوان بھی کم از کم 6سے 7رخم کے ہونا لازمی ہونا چاہئے اور اس کے بعد کیا کیا بیان کیا جائے کتنے شیوہ اور نخرے کئے جاتے کہ بس اللہ کی پناہ ۔ مگر کورونا کے بعد پورا نقشہ ہی بدل گیا ہے۔ حکومت نے جب سے 50 لوگوں کی قید لگائی ہے اور اس پر یہ بھی کہ ہر آنے والے کا بائیو تھرمل اسکینگ کرنا ہوگا اور ماسک لازمی ہے اس کے بعد ہینڈ سانئیٹیز لگانا ضروری ہے۔ مجھے بہت اچھا اس لئے لگا کہ کاش تمام غریب لڑکیوں کی شادی اب فٹا فٹ ہوجائے تاکہ اس دکھاوے کی شادی اور لڑکے کے والد پر پڑنے والے اصراف خرچ سے نجات بھی ملے۔ مگر یہاں ایک بات جو میں نے نوٹس کی وہ یہ کہ چاہے کورونا کے پہلے کی شادی ہو یا اب کورونا کے دوران کی شادی دونوں میں وقت اتنا ہی لگتا ہے۔

پہلے بھی 1000 سے 2000 لوگوں کی دعوت کے لئے تقریباً 3 گھنٹے لگتے تھے اور اب بھی اتنا ہی وقت لگ رہا ہے۔ صرف دعوت نامہ ، شادی محل اور کھانے کا خرچ کم ہو جارہا ہے۔ مگر کھانے کی دعوت میں وقت تو اتنا ہی لگ رہا ہے۔  کاش اس طرح کی عام دعوت عام ہوجائے اور آنے والے دنوں میں بھی لوگ اسی طرح کی دعوت کا اہتمام کورونا سے ڈر کر نہیں بلکہ شادیوں کو آسان بنانے اور اللہ رسولؐ کی رضا کی خاطر ہی صحیح اگر اس آسان شادی کے عمل کوکرنا شروع کردیں تو کتنا اچھا ہوگا۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

error: Content is protected !!