ٹاپ اسٹوری

شاہین باغ مظاہرہ میں اپنا فلیٹ بیچ کرلنگرتقسیم کرنے والے سکھ ڈی ایس بندرا کا دہلی فسادات کی پولیس چارج شیٹ میں آیا نام!

حیران بندرا نے کہا ’کیا لنگرتقسیم کرنا جرم ہے؟‘

شاہین باغ میں سی اے اے اور این آر سی مخالف مظاہرہ کو سپورٹ کرنے کے لیے اپنا فلیٹ فروخت کرنے والے ڈی ایس بندرا کے سامنے ایک مصیبت کھڑی ہو گئی ہے۔ پولس چارج شیٹ میں اپنا نام ہونے سے مایوس ڈی ایس بندرا کہتے ہیں کہ ہم نے سکھوں اور مسلمانوں کے درمیان بھائی چارے کو قائم رکھنے کا کام کیا۔ اس کام کی حوصلہ افزائی کی جگہ ہمیں نشانہ بنایا جا رہا ہے۔

شاہین باغ میں سی اے اے اور این آر سی مخالف مظاہرہ کو سپورٹ کرنے کے لیے اپنا فلیٹ فروخت کرنے والے ڈی ایس بندرا کے سامنے ایک مصیبت کھڑی ہو گئی ہے۔ ان کے خلاف پولس نے دہلی فساد میں ہلاک کانسٹیبل رتن لال قتل معاملہ سے متعلق چارج شیٹ داخل کر دی ہے۔ اس چارج شیٹ سے ایک طرف تو ڈی ایس بندرا حیران ہیں اور دوسری طرف سیکولر ذہن افراد دہلی پولس کے خلاف آواز بلند کرنے لگے ہیں۔ آل انڈیا مسلم مجلس مشاورت کے سکریٹری نوید حامد نے بھی ٹوئٹ کر کے دہلی پولس کے اس عمل کی مذمت کی ہے اور کہا ہے کہ سیاسی آقاؤں کی ہدایت پر بے قصوروں کو ہدف بنانا مناسب نہیں۔

دراصل دہلی باشندہ ڈی ایس بندرا ایک وکیل ہیں اور انھوں نے شہریت ترمیمی قانون (سی اے اے) کے خلاف کھل کر احتجاج درج کیا تھا اور شاہین باغ کے ساتھ ساتھ چاند باغ کے مظاہروں میں پبلک کچن اور لنگر سروس شروع کی تھی۔ اس کے لیے وہ کئی اخبارات کی سرخی بنے تھے۔ لیکن اب ان کا نام دہلی فساد سے جوڑا جا رہا ہے۔ اس تعلق سے نیوز پورٹل ‘دی کوئنٹ’ نے ایک رپورٹ شائع کی ہے جس میں بندرا کے حوالہ سے لکھا گیا ہے کہ “میں نے کچھ بھی غلط نہیں کیا ہے، میں صرف لنگر بانٹنے کا کام کرتا تھا۔ کیا یہ جرم ہے؟”

تصویر سوشل میڈیا

بندرا نے اپنے اوپر لگے سبھی الزامات کو مسترد کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ “میں نے صرف لنگر دینے کا کام کیا۔ میں نے وہی کیا جو میرا مذہب مجھے سکھاتا ہے، جو ہمارے گروؤں نے ہمیں سکھایا ہے۔ مجھے سمجھ نہیں آ رہا ہے کہ اس کے لیے مجھے نشانہ کیوں بنایا جا رہا ہے۔” دی کوئنٹ کی رپورٹ کے مطابق دہلی پولس کی چارج شیٹ میں بندرا پر چاند باغ علاقہ میں مظاہرہ کو مشتعل کرنے کا الزام ہے۔ حالانکہ ان کا نام رتن لال کے قتل کو لے کر درج کی گئی چارج شیٹ میں موجود 17 ملزمین میں شامل نہیں ہے، لیکن رائٹ وِنگ ویب سائٹ ‘اوپ انڈیا’ نے اپنی رپورٹ میں پورا فوکس بندرا اور اس تشدد میں ان کے شامل ہونے کو لے کر کیا ہے۔ بندرا کا اس سلسلے میں کہنا ہے کہ ویب سائٹ نے انھیں ان کی بات رکھنے کا موقع بھی فراہم نہیں کیا۔

بہر حال، دہلی پولس کی چارج شیٹ کے مطابق تشدد میں ڈی ایس بندرا، سلمان صدیقی، سلیم خان، سلیم منا، شاداب، اختر اور کچھ دیگر لوگوں کا ہاتھ تھا۔ بتایا گیا ہے کہ انھوں نے مقامی لوگوں کے ساتھ مل کر تشدد پھیلانے کا کام کیا۔ پولس نے کچھ گواہوں کی بنیاد پر بندرا کے خلاف یہ الزام عائد کیا ہے۔ بتایا جاتا ہے کہ کانسٹیبل سنیل اور گیان سنگھ نے اس تعلق سے اپنی گواہی دی ہے۔ چارج شیٹ کے مطابق ان دونوں کی ڈیوٹی اسی علاقے میں تھی۔ ایک دیگر گواہ کا کہنا ہے کہ “بندرا نے سبھی لوگوں سے کہا کہ باہر نکل کر سی اے اے کے خلاف مظاہرہ کریں۔ انھوں نے کہا کہ میں مظاہرین کے لیے لنگر اور میڈیکل کیمپ لگاؤں گا۔ پورا سکھ طبقہ آپ لوگوں کے ساتھ ہے۔ اگر آپ لوگ ابھی باہر نہیں آئے تو وہی حال ہوگا جو 1984 میں سکھوں کے ساتھ ہوا تھا۔”

بندرا نے اس طرح کے سبھی الزامات کو سرے سے خارج کر دیا ہے۔ انھوں نے اس الزام کو بھی خارج کر دیا کہ وہ سی اے اے مخالف مظاہرے کے اہم کنوینر تھے۔ انھوں نے واضح لفظوں میں کہا کہ “میں نے جیسا کہ پہلے بتایا، میں نے وہاں صرف لنگر لگانے کا کام کیا تھا۔ یہ میرے سکھ مذہب کا ایک حصہ ہے۔ اس دوران ہر طبقہ کے لوگ وہاں آئے اور انھوں نے بغیر کسی تفریق کے وہ لنگر کھایا۔ پھر چاہے وہ پنجاب سے آئے سکھ ہوں یا پھر مقامی مسلم، سبھی لوگ وہاں لنگر کھاتے تھے۔” بندرا مزید کہتے ہیں کہ ہم نے سکھوں اور مسلمانوں کے درمیان بھائی چارے کو قائم رکھنے کا کام کیا۔ میرے اس کام کی حوصلہ افزائی کی جگہ ہمیں نشانہ بنایا جا رہا ہے۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

error: Content is protected !!