مساجد پر پابندی: ملی قائدین اور تنظیمیں خاموش کیوں!
ذوالقرنین احمد
ہندوستان میں کورونا وائرس کے نام پر ۲۵ مارچ سے لاک ڈاؤن جاری ہے، جو سلسلہ وار دو، تین ہفتوں کے اضافے کے ساتھ بڑھتا جارہا ہے اس لاک ڈاؤن کو تقریباً دو مہینے مکمل ہونے والے ہے۔ جب سے حکومت نے لاک ڈاؤن کا اعلان کیا ہے عوام تمام احتیاطی تدابیر اختیار کر رہی ہے۔ عبادت گاہوں کو عام عوام کیلے بند کردیا گیا ہے چند افراد کے علاوہ مسجدوں میں تمام مسلمانوں پر پابندی عائد کر دی گئی ہے۔ دیگر مذہبی عبادت گاہیں بھی بند ہے لیکن ہم ایک اللہ کے ماننے والے ہیں جو تمام کائنات کا حقیقی رب ہے اس لیے ہمارے لیے عبادت گاہوں کے دروازے بند ہونا عزاب الہی کو دعوت دینا ہے۔ بے شک اسلام میں جان کی حفاظت کو فرض قرار دیا ہے اور دوسرے انسانوں کو تکلیف دینے سے بھی منع کیا ہے وبائی مرض جس جگہ پھیل جائے وہاں سے باہر جانے اور وبا کے ڈر سے مقام چھوڑنے سے منع فرمایا ہے تاکہ اس سے دوسرے انسانوں کو تکلیف نہ ہو۔
لیکن یہ بات غور طلب ہے کہ ایک ایسی وبا جو ایک عام وائرل کے سوا کچھ نہیں ہے اور اسکی حقیقت کا ادراک تک ماہر طبیعیات اور کیمیاء کو نہیں ہے جس وبا کا شرح اموات دیگر عام بیماریوں سے بھی کم ہو جتنے افراد عام دنوں میں کینسر ، ٹی بی، ہرٹ اٹیک، شوگر ، دمہ، وغیرہ سے مرتے ہیں یہ وبا اسکے مقالے میں ایک فیصد بھی نہیں ہے۔ پوری دنیا اس تذبذب کا شکار ہے کہ حقیقت میں یہ وبا ہے یا پھر دنیا میں سپر پاور بننے کیلے معیشت کو اپنے ہاتھوں میں لینے کی جنگ ہے یا کسی کا بنایا ہوا بائیو لوجیکل ہتھیار ہے۔ ایسے حالات میں جبکہ ملک میں ایک شدت پسند تنظیم کی سیاسی جماعت اقتدار میں ہے وہ اس موقع کو غنیمت جان کر اپنی خفیہ پالیسی پر عمل کرنے میں مصروف ہے۔ جس کا مقصد ملک میں ہندو راشٹر کا قیام عمل میں لانا ہے۔
جبکہ بھارت ایک غیر مذہبی سیکولر ملک ہے جس میں تمام مذاہب کے ماننے والوں کو مذہبی آزادی کا حق دیا گیا ہے۔ بھارت میں مذہبی آزادی ایک بنیادی حق ہے جس کی ضمانت بھارتی آئین کی شق نمبر 25-28 میں دی گئی ہے۔ جدید بھارت کا آغاز 1947ء سے ہوتا ہے اور بھارتی آئین میں 1976ء میں ترمیم کے مطابق ملک کو سیکولر ریاست قرار دیا گیا۔ جس کے مطابق ہر شہری کو اپنے مذہب کے مطابق اپنی زندگی گزانے کا پورا حق حاصل ہے۔ اپنے مذہبی تعلیمات کی تبلیغ واشاعت کی بھی آزادی دی گئی ہے۔ اس بنا پر حکومت کو احتیاطی اقدامات اٹھانے چاہیے اور عوام کیلے عبادت گاہوں کہ دروازے کھول دینا چاہیے کیونکہ کائنات اللہ تعالیٰ کی دو انگلیوں کے درمیان ہے وہ جب چاہتا ہے حالات تبدیل کردیتا ہے۔ ملی قائدین اور تنظیموں کے ذمہ دران کو یہ بات سمجھ لینی چاہیے کہ اگر حکومت اپنے ناجائز ناپاک عزائم کی تکمیل کیلے وبا کے نام پر جاری لاک ڈاؤن کا استعمال اپنے مفادات کیلے کر رہی ہے تو یہ صرف مسلمانوں کیلے نہیں بلکہ ملک کی جمہوریت کیلے خطرے کی گھنٹی ہے۔ جتنا خوف و ہراس کا ماحول وبا کے نام پر پھیلایا گیا ہے اس کے مطابق ملک میں اموات نہیں ہوئیں ہے۔ ۱۴ دن پازیٹیو مریضوں کو قرنطینہ میں رکھ کر ڈسچارج کیا جارہا ہے اور جتنے متاثرین بتائیے جارہے ہیں ابتک ان میں سے آدھی تعداد صحت یاب ہوکر گھر لوٹ چکی ہے۔ ایسی کونسی میڈیسن کا استعمال کیا جارہا ہے جس سے مریض ٹھیک ہورہے ہیں پھر تو امریکہ اور چین بھارت سے اس ویکسین کے مطالبہ کیلے دھمکیا دے چکے ہوتے۔
مزید یہ بات بھی غور طلب ہے کہ جب مارچ سے لاک ڈاؤن شروع ہوا اور اب اسکی تعداد بڑھتی جارہی ہے تو پھر لاک ڈاؤن میں سختی کے بجائے اچانک ڈھیل دینے کا کیا مطلب ہے جبکہ روزانہ صرف مہاراشٹر میں ایک سے ڈیڑھ ہزار مریض پازیٹو پائے جارہے ہیں۔ اور ملک بھر میں روزانہ ۴ سے ۵ ہزار مریضوں کے تعداد میں اضافہ دیکھنے مل رہا ہے۔ اس مطابق لاک ڈاؤن کو مزید سخت کرنا چاہیے تھا۔ اگر حکومت اس وبا سے اتنی ہی خوف زدہ ہے اور بھارتیوں کی اتنی فکر ہے تو پھر لاکھوں مہاجر مزدوروں کو کیوں سڑکوں پر پیدل سفر کرنے کیلے انکے حال پر چھوڑ دیا جارہا ہے۔ کیوں غریب ۷۵ سے ۸۰ سے فیصد غریب عوام کا روزگار چھین لیا گیا ہے۔
ان تمام باتوں پر غور کیا جائے تو حکومت کی فرقہ پرست ذہنیت اور انکے ناجائز عزائم کا اندازہ لگانا ایک عام پڑھے لکھے شہری کیلے خاص بات نہیں ہے۔ ڈر و خوف کا ماحول پیدا کرکے اصل ٹارگیٹ مسلمانوں کو اقلیتوں کو کیا جارہا ہے انکی مذہبی آزادی پر حملے کیے جارہے ہیں۔ مسلمانوں نے سب سے زیادہ لاک ڈاؤن میں حکومت کا ساتھ دیا ہے یہ بات الگ ہے کہ تبلیغی جماعت کو میڈیا کے ذریعے بدنام کرکے کورونا پھیلانے کا الزام ان پر عائد کردیا گیا جو سراسر جھوٹ ہے۔ لاک ڈاؤن کے شروع سے ہی مساجد پر سختی کا معاملہ پولس اور انتظامیہ کی طرف سے کیا گیا لاؤڈ اسپیکر پر آذان دینے پر پابندی عائد کردی گئی ہے، مساجد کو عام مسلمانوں کیلے بند کردیا گیا ہے۔ جو لوگ جمعہ وغیرہ پڑھتے دیکھائی دیے ان پر سخت مقدمات چلائے جارہے ہیں کئی پر مساجد پر حملے کیے گئے مسلم نوجوانوں کو چن چن کر ظلم و تشدد کا نشانہ بنایا گیا۔ اور ایک طرف دیگر مذہب کے ماننے والوں نے بڑی تعداد میں یاترائے کی ، میلے ٹھیلے اور مذہبی پیشواؤں کے مرنے پر ہزاروں کی تعداد میں جمع ہوکر لاک ڈاؤن کی دھجیاں اڑائی ان پر کسی قسم کی کوئی کاروائی نہیں کی گئی۔
ان تمام باتوں کو مدنظر رکھا جائے تو صاف ظاہر ہے کہ اب مسلمانوں پر مذہبی پابندی عائد کرنے کی تیاری جمہوری انداز میں غیر محسوس طریقے سے کی جارہی ہے۔مریضوں کی تعداد میں دن بدن تیزی سے اضافہ ہوتا جارہا ہے پھر بھی حکومت بازار، دوکانیں، نکل و حمل، شراب کی دکانیں، وغیرہ کھولنے کی جازت دے رہی ہیں اور عبادت گاہوں پر پابندی لگائی جارہی ہے جبکہ بازاروں کی حالت دیکھیں جائے تو پتہ چلتا ہے کس طرح سے سوشل ڈسٹنسنگ کی دھجیاں اڑائی جارہی ہے۔ حکومت کو شراب کی دکانوں کے باہر کئی میٹر لمبی قطاریں دیکھائی نہیں دے رہی ہیں کیونکہ اس میں حکومت کا فائدہ ہے انہیں اس سے انکم ہوگی ، لیکن خدا کی ناراضگی کی فکر کسی کو نہیں ہورہی ہے۔
آج مساجد کا بند ہونا مسلمانوں کیلے ملک میں بڑے خطرے کی گھنٹی ہے علماء اکرام، ملی تنظیموں کے قائدین کو ملت کے مستقبل کے چیلنجز کو دیکھتے ہوئے انہیں ملت کے ایمانی قوت کی فکر کرنی چاہیے انہیں ہمت حوصلہ دیکر جرأت مندانہ اقدامات کرنے کی ضرورت ہے۔ حکومت سے دو ٹوک لفظوں میں بات کرنی ضرورت ہے۔ عید کی نماز اور تمام فرض نمازوں کی ادائیگی کیلے حکومت سے مطالبہ کرنا چاہیے اگر بازار کھلنے سے کوئی مسلہ نہیں ہورہا ہے تو مساجد اسکولیں کھلنے سے بھی کوئی مسلہ پیدا نہیں ہوگا۔ یہ احتیاط بزدلی کی طرف لے جارہا ہے۔ آئندہ مستقبل میں جس کے مضر اثرات مرتب ہونگے۔