ادبی دنیانثر

افسانہ: “مارا گیا”

افسانہ نگار: ثروت فروغ، گوپال گنج بہار

“جب وہ مارا گیا آسمان اس پر ٹوٹ کر رویا تھا”                             

میکانیکل انجینئر حامد مختلف مقامات پر نوکری کی تلاش میں جدوجہد کے بعد تھک ہار کر گھر واپس آگیا تھا اور اپنا زیادہ تر وقت دوستوں سے سیاسی مسائل پر گفتگو میں صرف کرتا- وہ روزانہ اپنے دوست کیلاش جس نے سنسکرت میں پی ایچ ڈی کی تھی نوکری کی تلاش میں در در بھٹک رہا تھا _موہن ایم_ایڈ پاس  نوکری سے محروم، فرمان کمپیوٹر انجینئر پانچ ہزار روپے کی نوکری کرنے والا کے ہمراہ شام کو تفریح کے لئے نکلتا لیکن اس دن نہ جانے اس کے جی میں کیا آیا وہ تنہا ہی ٹہلتا ہوا  دور چراگاہ کی طرف نکل گیا-

شام کا سورجمیٹ کر تاریک رات کی چادر اوڑھنے کو تیار تھا- پرندے پورے دن کا لمبا سفر کرنے کے بعد  رات کی تیرگی میں اوجھل ہونے کے لئے اپنے اپنے گھونسلے میں بیٹھے اونگھ رہے تھے- پتوں سے ڈھکے لمبے لمبے درخت سیاحی میں لپٹ کر دیو قامت آسیب میں تبدیل ہوتے جارے تھے – پھائیں پھائیں کرتا سنّاٹا کسی خوفناک حادثے کی ترجمانی کرنے میں لگا تھا –  شانت ماحول میں کانوں کو چھو کر گزرنے والی ہوا کسی ماتم کا راگ چھیڑنے کا پیغام دے رہی تھی _

اندھیرا بڑھتا جا رہا تھا، آسمان میں ستارے چند لمحے کے لئے نکل کر بادلوں کے نیچے چھپ گئے  تھے_ہوا تیز تھی تھوڑی دیر میں بوندا باندی شروع ہو گئی – حامد اپنے بچاؤ کے لیے پناہ گاہ ڈھونڈنے لگا – کچھ دور جانے پر مٹی سے جڑا ہوا ایک گھر نظر آیا جس کی دیواریں آدھی ادھوری تھیں گویا کسی بمباری حادثے کا شکار ہوئی ہوں – اس میں نظر آنے والی موٹی موٹی  دراڑیں اس کے قدیم ہونے اور اس پر کئے جانے والے ظلم و تشدّد کی رودادِ غم سنا رہی تھیں – ایک کونے میں آخری سانس لیتی موم بتّی کسی غم کے ماتم میں رو رو کر اپنی اصلیت کھو چکی تھی – گھر کے اندر داخل ہوتے ہی حامد نے دیکھا ایک بلّا مردہ جسم کے پاس بیٹھا میاؤں میاؤں کر رہا ہے اور چمکتی آنکھوں سے آنسوں چشمے کی مانند ابل رہے ہیں-

حامد کی آنکھیں کھلی کی کھلی رہ گئیں- مردے کے منہ میں مٹی بھری ہوئی تھی گویا بھوک مٹانے کا وہ آخری ذریعہ ہو، آنکھیں آسمان کی جانب امید بھری نظروں سے دیکھ رہی تھیں جیسے کسی مسیحا کی فریاد کر رہی ہوں جو اس کی بھوک مٹا کر دکھ کا درماں کرتا_حامد سوچنے لگا ایسی نہ جانے کتنی چھونپڑیاں اور بوسیدہ گھر ہوں گے جن میں ان گنت لوگ بھوک اور موت کی جنگ میں اپنی زندگی ہار کر مردہ لاش بن گئے ہوں گے  جن کے سرہانے بجائے انسان کے  ایک جانور بیٹھا ماتم منا رہا ہوگا –

نہ جانے کتنے معصوم بچے بھوک کے مارے اپنی ماؤں کی گود میں  منہ چھپا کر اس مسلادھار بارش میں کھلے آسمان کے نیچے بلک رہے ہوں گے – ان گنت جھونپڑیاں اور بوسیدہ گھر ہوں گے جن پر سیلابی بارش کا قہر ٹوٹا ہوگا – حامد ایک کونے میں بیٹھا سر کو پیروں میں دباۓ تیز تیز سسکیاں لے رہا تھا اور غصہ سے چلاّ رہا تھا “مرا نہیں مارا گیا” – 

 بارش تھمنے کا نام نہیں لے رہی تھی- تھوڑی دیر بعد حامد جھونپڑی سے باہر نکلا چاروں سمت گُپ اندھیرا چھایا ہوا تھا- اس نے ہمت جٹا کر گھر کی جانب دوڑ لگائی  اور بڑبڑاتا رہا “مرا نہیں مارا گیا” –  حامد بے صبری سے صبح کا انتظار کرنے لگا – صبح ہوتے ہی اس نے اخبار کی سرخی کا جائزہ لیا جس میں موٹے حروف میں لکھا تھا “مرنے اور مارنے والے کی تفتیش جاری ہے” اور نیچے اس مردہ کی تصویر چھپی تھی جس کو وہ گزشتہ رات دیکھ کر آیا تھا- حالات کا جائزہ لینے کے لئے حامد نے باہر کا رخ کیا- گاؤں میں ہر طرف پولس پھیلی ہوئی تھی- تھوڑی دور پر گاؤں کے لوگ، سرمایہ دار اور سرکاری ملازمین اس کی لاش کو گھیرے کھڑے تھے-

لوگ ایک دوسرے سے کہہ رہے تھے “بچارا غریب مزدور کا یتیم بیٹا تھا- پہلے گاؤں کے داروغہ کے محل میں اینٹیں جوڑ کر اپنا پیٹ بھرتا تھا- پچھلے مہینے میرے پڑوسی نے اسے کچرے سے سوکھی روٹی اٹھاکر چباتے دیکھا ، لگتا ہے کئی دنوں سے بھوکا رہنے کی وجہ سے مرا ہے – اسی بھیڑ میں کوئی کہہ رہا تھا ارے ہریش چند کتنا اچھا ہوتا جو یہ غریب مزدور بھی دو وقت کا کھانا سکون سے پیٹ بھر کر کھاتےاور کسانوں کو ان کی محنت کا پورا فائدہ ملتا – دوسرے آدمی نے حیرت سے ہریش چند کو دیکھتے ہوئے کہا ارے یہ کیا سوچ رہے ہو تم! ایسا سوچنا تو ہمارے سماج کے لئے بڑا خطرہ ہے اور سرکار سے سوال کرنا، اپنے حق کے لئے آواز اٹھانا اس سے بھی بڑا جرم جس کی سزا قیدوبند ہے-

غریب مزدور، کسان سکون سے زندگی بسر کرنے لگیں تو ہماری سرکار کی تجوری خالی ہوجائے گی – وہ بھی ان کسانوں اور مزدوروں کی طرح بےسکون ہو جاۓ گی- آئندہ ایسی باتیں سوچ سمجھ کر بولنا – حامد ان کی باتیں بڑے غور سے سن رہا تھا تبھی کیلاش بھیڑ کو چیرتا ہوا لاش کے پاس پہنچ گیا اور غصہ سے چلا کر بولا ” مرا نہیں مارا گیا” ان کے ہاتھوں جو اس کی محنت کی بنائی ہوئی روٹی کو اپنی سیاست کے توے پر سیکتے اور اپنے پیٹ کی آگ بجھاتے ہیں – بھیڑ میں شور مچ گیا- ایک پولس افسر آگے آیا اور کیلاش کو پکڑ کر اپنے ساتھ لے کر جانے لگا، لوگ چلّانے لگے اسے چھوڑ دو وہ سچ کہہ رہا ہے لیکن پولس لاش اور کیلاش دونوں کو لے کر چلی گئی – لوگ گھنٹوں چلانے کے بعد افسردہ اپنے اپنے گھر لوٹ گئے-

حامد اور موہن ایک دوسرے سے گفتگو کرنے لگے – موہن نے کہا اس کا  بڑا بھائی بھی  مارا گیا تھا – حامد  __ کیسے؟ موہن  __  اس کا باپ ایک معمولی مزدور تھا- اوپر والے کی کرپا سے پھیلی زمین اس کا بستر اور  آسمان چھت ، پیٹ بھرنے کے لئے دو سو روپے کی ٹھیلا کھینچنے کی مزدوری جو اس مہنگائی کے دور میں گزارہ کرنے کے لئے ناکافی تھی- موہن کی آواز بھرا گئ اور وہ خاموش ہو گیا _حامد __  پھر کیا ہوا؟ 

موہن  __  آنکھیں ڈبڈبا گئیں اور وہ بھرائی آواز میں کہنے لگا “بھوک سے نجات اور زندہ رہنے کے لئے وہ گاؤں کے ٹھاکر صاحب کے گھر سیمنٹ کی بوریاں اٹھا کر لانے کے لئے سو روپے کی مزدوری پر کام کرنے لگا – وقت گزرتا گیا اور وہ دن بھی آیا جب اس پر غموں کا پہاڑ ٹوٹ پڑا، اس کی آنکھوں کے سامنے بجلی سی کوند گئی جب اس نے اپنے باپ کو ٹھیلے سمیت ٹرک کے نیچے دبا دیکھا- اس کا بھیجا اسکی کھوپڑی سے جدا چاروں طرف پھیلا ہوا تھا، پولس دور کھڑی اس کو بس دیکھتی رہی-

رامو نے اپنے باپ کے مردہ جسم کو سمیٹا اور آخری رسم ادا کی- اس کے بعد رامو اداس رہنے لگا، کچھ دن وہ ٹھاکر صاحب کے گھر کام پر نہیں گیا- ناگہ کرنے کی وجہ سے ٹھاکر صاحب نے نہ تو اس کے کام کی مزدوری دی اور نہ ہی کام پر رکھا – وہ واپس گھر نہیں آیا، تپتی دھوپ میں چوراہے پر سوتا رہا – کچھ دنوں بعد اس کی لاش نالے میں پڑی دکھائی دی – بڑا بھائی سولہ سال  اور چھوٹا آٹھ سال کی عمر میں “مارا گیا” –                                                    

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

error: Content is protected !!