حالاتِ حاضرہمذہبیمضامین

وباء کا دور اور مساجد میں نماز

نعیم محودشیخ معلّم مدنپورہ، ممبئی)

ملک اور دنیا بھر میں پھیلی ہوئی کووڈ-19 کی وبائی بیماری اور اس کی روک تھام کی تدبیر کے طور پر ملک بھر میں لاک ڈاؤن جیسی سنگین اور ہنگامی صورت حالت (emergency) جاری ہے- ملک میں آج کل کورونا وائرس کی خطرناکی بہت زیادہ بڑھ رہی ہے _  اس بنا پر پورے ملک میں زبردست احتیاطی اقدامات کیے جا رہے ہیں _ ذرائعِ مواصلات موقوف کردیے گئے ہیں ، دفاتر ، تعلیمی ادارے ، دوکانیں اور مالس بند کردیے گئے ہیں  ، یہاں تک کہ مذہبی اداروں اور عبادت گاہوں کو بھی بند کرنے کے لیے کہہ دیا گیا ہے _ اس صورت حال میں بہت سے لوگ سوال کررہے ہیں کہ کیا مسجدوں میں باجماعت نمازیں موقوف کردی جائیں؟ کیا مسجدوں میں جانے کے بجائے گھروں میں نمازیں ادا کی جائیں؟

            یقیناً عام حالات میں مسجدوں میں جاکر باجماعت نماز ادا کرنا پسندیدہ ، مطلوب اور افضل عمل اور گھروں میں فرض نماز ادا کرنا ناپسندیدہ اور غیر افضل عمل ہے ، لیکن جب کورونا مرض وبائی صورت اختیار کرلے اور اس بات کا قوی امکان پیدا ہوجائے کہ مسجدوں میں باجماعت نماز ادا کرنے سے بہت سے نمازی اس موذی اور مہلک مرض کا شکار ہوجائیں گے تو اس وقت گھروں میں نماز پڑھنا مسجد میں نماز پڑھنے سے افضل ہوجائے گا اور اگر ضرورت متقاضی ہو تو وقتی طور پر کچھ عرصہ کے لیے مسجدوں میں باجماعت نماز موقوف کردینے میں بھی کوئی حرج نہ ہوگا –

 اللہ کے واسطے حالات کے پیشِ نظروباء کے دور میں ، لاک ڈاؤن کے خاتمے تک ، جمعہ کی نماز کے لئے مسجدوں میں جمع مت ہونا – ان حالات میں جمعہ کی فرضیت وقتی طور پر موقوف ہو گئی ہے – آپ اطمینانٍ قلب کے ساتھ اپنے اپنے گھروں میں نماز ظہر ادا کریں – چاہے انفرادی طور پر یا اپنے اہل خانہ کے ساتھ – اللہ تعالیٰ آپ سے راضی بھی ہوگا اور آپ اجروثواب کے مستحق بھی ہوں گے – خدارا مزید حماقتوں کے ذریعے امت مسلمہ کی ذلّت وخواری کا سبب نہ بنے – ” کنتم خیر امة اخرجت للناس”  کی عملی تفسیر بن جائیں – اللہ تعالیٰ بھی راضی ہو جائے گا اور دنیا میں بھی عزت وکامرانی ملے گی -موجودہ حالات میں آپ کا گھروں میں ظہر ادا کرنا،  مسجدوں میں جمعہ ادا کرنے سے زیادہ باعث اجروثواب ہوگا-

 اور ہاں مساجد میں نمازیں منسوخ نہیں کر دی گئیں ہیں – بلکہ وہاں جماعتِ قلیلہ کی شکل میں ہورہی ہیں – جس میں صرف امام، موذّن اور مسجد میں رہنے والے خادم شامل ہوں رہے ہیں – اگر بعض مقامات پر مکمّل بھی  بند رہی تو کوئی بات نہیں – یہ اللہ تعالیٰ کی عبادت کا معاملہ ہے – کوئی کرکٹ کا مقابلہ نہیں ہے – یہ امّت مسلمہ کی ناک کا معاملہ نہیں ہے بلکہ کروڑوں انسانوں کو وبائی مرض اور ہلاکتوں سے بچانے کی بات ہے – مسجد کی کمی کو پورا کرنے کے لئے کسی  گھر میں یا کسی ہال یا کسی عمارت کی چھت پر بھی جمع نہ ہوں – اصل مقصد سماجی دوری (social distancing) قائم رکھنا ہے- آپ کو مسجد سے دور کرنا نہیں ہے-

 افسوس کہ بعض نادان مسلمان اب بھی مسجدوں میں نماز پڑھنے پر اصرار کررہے ہیں _ چوں کہ کورونا کے کیسیز میں برابر اضافہ ہورہا ہے اس لیے اب مرکزی اور ریاستی حکومتوں کی جانب سے سخت اقدامات کیے جارہے ہیں اور انتظامیہ اور پولیس افسران کی طرف سے سخت کارروائی کی جارہی ہے _ ایسے متعدد ویڈیوز سوشل میڈیا میں گردش کررہے ہیں جن میں مسجدوں میں نماز پڑھ کر وہاں سے نکلنے والے مسلمانوں پر پولیس ڈنڈے برسا رہی ہے _ ایسی بھی کیا مذہبی شدّت پسندی جو ذلّت و رسوائی کا سبب بن جائے _ اللہ تعالیٰ ایسے مسلمانوں کو سمجھ عطا کرے _

      علما نے جمعہ کے بارے میں بھی ہدایت جاری کی ہے _ انھوں نے کہا ہے کہ لوگ جمعہ کے بجائے اپنے گھروں میں ظہر کی نماز باجماعت ادا کریں _ مسلمانوں کی طبیعتیں اس پر بھی آمادہ نظر نہیں آرہی ہیں _ وہ سوال کررہے ہیں کہ کیا دو چار گھروں کے لوگوں کو جمع کرکے جمعہ کی نماز پڑھ لی جائے؟ کیا اپنے اہل خانہ کے ساتھ ہی جمعہ کی نماز ادا کر لی جائے؟

      عرض ہے کہ یہ تکلّف کرنے کی ضرورت نہیں ہے _ اس مرض سے تحفّظ کی واحد صورت یہ بتائی جارہی ہے کہ افراد کے درمیان کم سے کم اختلاط ہو _ اس لیے نہ دو چار گھروں کے افراد کو جمع کرکے جمعہ قائم کرنے کی کوشش کی جائے اور نہ افرادِ خانہ کے ساتھ جمعہ کی نماز پڑھنے کا تکلّف کیا جائے ، بلکہ ان کے ساتھ عام دنوں کی طرح ظہر کی نماز ادا کی جائے _ کورونا (Covid 19) نامی مرض کا قہر پوری دنیا میں جاری ہے _ تمام انسانی سرگرمیاں ٹھپ ہوکر رہ گئی ہیں _ تمام لوگ خوف و دہشت میں مبتلا ہیں _ اس موقع پر اسلام کی تعلیم یہ ہے کہ اس مہلک بیماری سے تحفّظ کے لیے ہر ممکن تدبیر اختیار کی جائے ، اس کے بعد امید رکھی جائے کہ اللہ تعالیٰ اس سے حفاظت فرمائے گا _ کورونا وائرس چھینک کے ذرّات کے ذریعے یا ہاتھ ملانے سے ایک شخص سے دوسرے تک پہنچتا اور اس کو متاثر کرتا ہے _ اس لیے چھینکتے وقت رومال یا ٹشو پیپر کا استعمال کیا جائے ، بھیڑ بھاڑ کی جگہوں سے بچا جائے ، فاصلہ رکھا جائے اور ہاتھ ملانے سے گریز کیا جائے _ یہ وائرس گندگی میں پنپتا ہے ، اس لیے صفائی ستھرائی کا خاص خیال رکھا جائے _

      اس صورت حال میں توکّل اور تدبیر دونوں ضروری ہیں _ بعض لوگ کہتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے جو کچھ تقدیر میں لکھ رکھا ہوگا وہ تو ہو کر رہے گا ، اگر اس بیماری میں مبتلا ہونا ہمارے مقدّر میں ہے تو تمام تدابیر اختیار کرنے کے باوجود اس سے نہیں بچا جا سکا ، اس لیے کسی طرح کے پرہیز اور احتیاط کی ضرورت نہیں ہے ، یہ عقیدۂ تقدیر کی غلط تعبیر ہے _ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ و سلم کا عمل یہ رہا ہے اور یہی آپ نے اپنی امّت کو سکھایا ہے کہ تحفّظ کے تمام اسباب اختیار کیے جائیں اور تمام تدابیر پر عمل کیا جائے ، پھر اللہ پر توکّل کیا جائے _

-حکومت کے قوانین وضوابط کا احترام بھی ایک اچھے مسلمان کا فرض ہے – لیکن آپ سے یہ درخواست حکومت کے قوانین وضوابط سے ڈر کر نہیں کی جارہی ہے – بلکہ یہ احتیاطی تدابیر قرآن و احادیث کی تعلیمات کے عین مطابق ہیں – ان پر عملدرآمد ہو کر اور اپنی، اپنے اہل خانہ کی اور جملہ انسانیت کی جان کی حفاظت کرنے پر آپ اللہ تعالیٰ کی رضا اور خوشنودی کے حفداربھی ہوں گے –

اصل میں غلطی آپ کی بھی نہیں ہے – ان معاملات کی ذمّہ دار ہماری مذہبی قیادت ہے – انہوں نے امت کو یہ نہیں بتایا کہ عام دینی احکامات ، عام حالات کے لئے ہوتے ہیں اور اضطراری اور ہنگامی حالات میں  دینی احکامات کی نوعیت بدل جاتی ہے – اصولوں کے ساتھ ساتھ استشناء بھی ہوتا ہے – جنگ میں حضرت محمد صلی الله عليه وسلم کی نمازہں بھی قضاء ہوئی تھی – آپ صلی الله عليه وسلم نے کھڑے ہو کر پانی بھی پیا ہے – شریعت کے اوامر و نواہی عام حالات کے لیے ہیں  _  استثنائی حالات میں ان کے خلاف کرنے کی اجازت ہے _  مثال کے طور پر ریشمی کپڑا پہننا مَردوں کے لیے حرام قرار دیا گیا ہے _ (بخاری : 5837، مسلم :2067) لیکن علاج معالجہ کے مقصد سے اس کا استعمال ان کے لیے جائز ہے _ چنانچہ حدیث میں ہے کہ حضرت عبد الرحمن بن عوف اور حضرت زبیر بن العوام رضی اللہ عنہما کو خارش کا مرض ہوگیا تو اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ و سلم نے انہیں ریشمی قمیص پہننے کی اجازت دے دی تھی _(بخاری :2919، مسلم 2076) – اپنے دورِخلافت میں جب قحط کا دور آیا تو حضرت عمر فاروق رضی اللہ تعالیٰ نے چور کے ہاتھ کاٹنے کی سزا وقتی طور پر منسوخ کردی تھی – ماضی میں طاعون اور دیگر ہنگامی واضطراری موقعوں پر حج بھی نہیں ہو سکا-

 معدودے چند علماء کو چھوڑ کر ہماری مذہبی قیادت بروقت امّت کی رہنمائی نہیں کر تی اور اجتہاد سے پرہیز کرتی ہے اور امّت مسلمہ کو اندھیروں میں رکھتی ہے نتیجتاً امت بھارت میں ہر محاذ پر ذلیل و خوار ہو رہی ہے اور قیادت خوابِ غفلت کا شکار ہے – یہ لوگ اللہ تعالیٰ کے پاس جوابدہ ہوں گے –

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

error: Content is protected !!