جواب چاہیے مجھے، جواب ڈھونڈتا ہوں میں!
حافظ عبد المجید ارشاد
ملک کے ملی قائدین سے ایسے سوال جن کے جواب اب ملت کے ہر فرد کو مطلوب ہیں۔
بھارت کے مسلمان، بہت سارے حادثات اور مشکلات سے گزر رہے ہیں. کبھی فسادات سے گزرے، کبھی بغاوت کے ٹیاگ سے گزرے، کبھی موب لنچنگ سے گزرے، کبھی پارٹیوں کی بدسلوکی سے گزرے ، کبھی میڈیا ٹراںٔیل سے گزرنا پڑ رہا ہے، کبھی جوڈیشری جس پر آخری انصاف کی جو ذمہ داری ہے وہاں سے بھی مایوسی ہاتھ لگ رہی ہے۔
یہ ملت بے وزنی کا شکار کیوں ہے؟؟؟
کیا یہ بے سہارا قوم ہے! اس ملک میں اتنی بڑی تعداد ہونے کے باوجود بے یار و مددگار کیوں ہے؟
یہ سوال اپنے آپ سے بھی ہے اور یہ سوال ملک کی قیادت سے بھی ہےجو لوگ قیادت کررہے ہیں چاہے وہ سیاسی قیادت ہو، یا جماعتی، چاہے وہ علمی قیادت ہو، مدارس کے ذمہ داران ہو، درگاہوں کے پیر صاحب، شیخ صاحب ہوں۔۔۔۔
آخر گذشتہ 72/ سالوں میں ہم نے، ہماری قیادتوں نے ایسی کیا پلاننگ کی؟ 20,25 کروڑ مسلمانوں کے لیے۔۔۔!!!
اورکیا لائحہ عمل بنایا؟؟؟
آج 72/ سال کے بعد قیادتوں سے یہ سوال کرنا کیا ضروری نہیں؟
بڑے بڑے مدارس بنائے، بڑے بڑے ادارے قائم کئے۔۔ بڑی بڑی جماعتیں بنائی۔۔ بڑی بڑی انجمنیں بناںٔی۔۔ بڑے بڑے عرس کئے، اسلامک سنٹر قائم کئے، خدمت خلق کے شعبہ میں بڑے بڑے کام انجام دیے۔ اس ملک میں دعوۃ دین کے شعبہ میں انڈیا بھر میں بہت بڑے بڑے کام انجام دیے گئے۔۔ بڑی بڑی مساجد کی تعمیرات ہوںٔی ، جماعتی لیول پر ، دینی لیول پر،مسلکی لیول پر بہت کام ہوا 72 سالوں میں۔۔
لیکن۔۔۔۔۔
20,25 کروڑ مسلمانوں کو اس ملک کی گندی سیاست کے حوالے۔۔۔۔، اُن پارٹیوں کے حوالے بے یار و مددگار چھوڑ دیا گیا۔ یہ سوال دراصل قیادتوں سے کرنا ہے۔۔
ہم آج اپنے آپ کو بے سہارا و بے یار و مددگار محسوس کر رہے ہیں۔۔ کبھی ذاکر نائیک کا میڈیا ٹراںٔیل ہوتا ہے، کبھی تبلیغی جماعت کا میڈیا ٹرائل ہوتا ہے اور ہم اپنے آپ کو صحیح ثابت کرنے میں، صفائی دینے میں۔۔اپنےآپ کی اورملت کی وفاداری ثابت کرنے میں لگ جاتے ہیں۔۔
وقتیہ طور پر سب مل کر سامنے آتے ہیں۔۔ لیکن کوئی مضبوط پلاننگ نہیں۔۔۔۔
ہماری قیادتوں نے 72 سالوں میں مسلمانوں کے لئے، مسلمانوں کے وقار کے لئے، مسلمانوں کو جھوٹے پروپیگنڈوں سے بچانے کے لیے۔۔ یہ جو پاؤرفل ادارے ہیں جمہوری ملک کے۔۔۔۔ اس کے لیے۔۔۔۔
مسلمانوں کے تناظر میں کیا پلاننگ کیے؟ اور کیا کام انجام دیے؟
یہ سوال اپنے آپ سے بھی ہے اور یہ سوال قیادتوں سے بھی ہے۔۔۔
72سال کا عرصہ کوئی معمولی وقت نہیں ہوتا ہم نے دینی لیول پر، مسلکی لیول پر آپ سونچ کر دیکھیے بہت کام انجام دیا لیکن حکومتی لحاظ سے، حکومتی سطح پر مسلمانوں کے وقار کے لیے مسلمانوں کو طاقتور بنانے کے لئے، اپنی ساکھ کو مضبوط کرنے کے لئے۔۔۔۔
ہم نے کیا کام انجام دیے، کیا یہ سوچنااب بھی ضروری نہیں؟
کبھی شاہ بانو کا کیس آگیا ہم نے وقتیہ طور پر کچھ کام انجام دے لیا،..کبھی اور کوئی مسئلہ آگیا ہم نے وقتیہ طور پر کوئی کام انجام دے لیا۔۔۔۔۔
لیکن کوئی ٹھوس اور مضبوط کام کیوں انجام نہیں دئیے۔۔۔ یا اگر انجام دیے ہیں تو اس کا نتیجہ کیا ہے؟؟؟
معاف کرنا آج بھارت کا مسلمان یہ سوال کرنے پر مجبور ہے۔۔
وقت گزرتا گیا۔۔ پھر وقت گزرتا گیا یہاں تک کہ باطل نے مضبوط پلاننگ کی اور آج پورے ملک کی باگ ڈور ان کے ہاتھ میں چلی گئی ہے۔۔ ہم بھی وہیں سے چلے تھے وہ بھی وہیں سے چلے تھے اور آج وہ پارلیمنٹ میں،اسمبلییوں میں، جوڈیشری میں ہر جگہ ان کا دبدبہ اور قبضہ ہوتاگیا۔۔۔۔
اور ہم۔۔۔۔۔ ہم کہاں ہیں؟؟؟
یہ سوال کرنا جتنا ضروری ہے، اس سے کہیں زیادہ اب دیر کیے بغیر اس سوال کا عملی جواب دینے کے لیے ملت کے ہر فرد کو، ملی، دینی، سماجی و فلاحی اداروں کے ذمہ داران کو منظم منصوبہ بندی کے ساتھ عملی میدان میں بلا تاخیر کودنا بہت ضروری ہے۔ ورنہ۔۔۔ نئی نسل اور مستقبل ہمیں معاف نہیں کرے گا۔