ابن العربی کی تلاش!
عمر فراہی
حالانکہ پرانی ہندی فلموں کی شروعات بھی فحاشی سے ہی ہوئی ہے پھر بھی کچھ لوگوں کا خیال ہے کہ اس کے بعد کچھ ہندی سیریل جیسے کہ “ہم لوگ ” اور “بنیاد “کو دیکھا جاسکتا تھا لیکن اسی دوران نینا گپتا کے سیریل” درد “نے تو چھوٹے پردے کا بھی مزاج بدل دیا ۔نینا گپتا کے اسی درد سے جیتیندر کی لڑکی ایکتا کپور کو نئی روشنی ملی اور اس نے کارپوریٹ گھرانوں کی تہذیب کو اپنے سیریلوں میں اس طرح پیش کرنا شروع کیا جیسے کہ یہ گھر گھر کی کہانی ہو ۔ساس بہو نند جیٹھانی اور بھوجائیوں کے جھگڑے اور خلش تک تو بات ٹھیک ہے لیکن اس وقت بھی عام سماج میں فحاشی کا یہ وائیرس اتنا عام نہیں تھا کہ ایک شادی شدہ عورت مرد کے کئی کئی عورتوں سے نہ صرف ناجائز تعلقات عام تھے کبھی کبھی ان سیریلوں میں صرف یہی بتانے کی کوشش کی گئی کہ عورت اور مرد کا اصل مسئلہ صرف جسم کی بھوک ہے اور وہ اس پیار کو پانے کیلئے اخلاق و اقدار کی ہر دیوار کو روندنے کیلئے تیار ہے ۔
این ڈی ٹی وی کے معروف صحافی رویش کمار کو ادھر حال میں سمجھ میں آیا کہ لوگ ٹی وی دیکھنا چھوڑ دیں تو دیش کا ماحول پر سکون ہو جائے گا لیکن رویش کمار نے بھی یہ بات میڈیا میں گھس آئی فرقہ پرستی کے تناظر میں کہا ہے جبکہ ہمارا ہندوستانی سماج نہ صرف میڈیا کے گند سے وائیرس زدہ ہو رہا ہے ٹی وی سیریلوں میں دکھائے جارہے فحاشی کے مناظر نے بھی نوجوان نسل کو کم تباہ نہیں کیا ۔اسی بات کو محسوس کرتے ہوئے تقریباً بیس سال پہلے ہی میں نے بہت ہی حکمت سے ٹی وی کو گھر نکالا کر دیا ۔اس وقت اپنے جاہل مسلم سماج کی طرف سے ہی یہ طعنہ سننے کو ملا کہ اس طرح آپ جدید ترقی کرتے ہوئے سماج سے پیچھے رہ جائیں گے ۔آج ماشاءاللہ جو بہت اعلیٰ تعلیم یافتہ غیر مسلم ہیں انہیں ہی یہ بات سب سے پہلے سمجھ آئی کہ اس کے دیگر اور بھی کئی نقصانات ہیں اور آپ دیکھ سکتے ہیں کہ تیزی کے ساتھ تعلیم یافتہ غیر مسلم گھرانوں میں ہی یہ وبا نہیں پائی جاتی۔ویسےاب تو بہر حال ٹی وی سب کے ہاتھ میں ہے جو چاہیں دیکھ لیں فرق اتنا ہے کہ سب کے ہاتھ میں اس کا کنٹرول ہے اور سب کا کنٹرول کسی اور کے ہاتھ میں !!!
بہت دنوں سے سوشل میڈیا پر ترکی سیریل ارطغرل کے بارے میں ایک شور تھا لیکن چونکہ فکشن سے اب اتنی دل چسپی نہیں رہی اس لئے کبھی دھیان نہیں دیا ۔ایک دن وہاٹس آپ پر علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کے پروفیسر شکیل صمدانی صاحب کا اسٹیٹس دیکھا کہ لاک ڈاؤن میں جو لوگ ٹرکی سیریل ارطغرل دیکھنے میں دلچسپی رکھتے ہیں اگر چاہیں تو میں لنک بھیج سکتا ہوں ۔شکیل صاحب سے میری ذاتی ملاقات اور گفتگو رہی ہے اور میں نے محسوس کیا کہ وہ سنجیدہ طبیعت کے مالک ہیں اور لغویات میں اپنا وقت ضائع کرنا پسند نہیں کرتے اسی لئےخیال آیا کہ جب پروفیسر حضرات بھی متاثر ہیں تو مجھے تو حق ہے ک باوضو ہو کر دیکھوں ۔اب معمول یہ ہے کہ عشاء کی نماز بچوں کے ساتھ باجماعت ادا کر کے بچوں کے ساتھ لیپ ٹاپ پر یہ سیریل دیکھنے بیٹھ جاتا ہوں۔
میں تو بہرحال داستان ایمان فروشوں کےمطالعے سے ابو سفیان اور صلیبی سازشوں کے کردار سے پہلے ہی آشنا ہو چکا تھا اور نسیم حجازی کی دیگر تاریخی ناولوں میں جس طرح مسلمانوں کے اپنے اندر میر جعفر کی شکل میں قرتوگلوں کا کردار سامنے آتا ہے میرا مقصد اپنے بچوں کو بھی یہی دکھانا تھا کہ یہ کردار تمہارے اندر آج بھی موجود ہیں اور تم ان کی شناخت کیسے کر سکتے ہو !
آپ اسے ڈرامہ کہہ سکتے ہیں جبکہ سچائی یہ ہے کہ مصنف کسی بھی کہانں کو حالات سے متاثر ہو کر ہی تحریر اور ڈرامے کی شکل میں ڈھالتاہے ۔سچ کہوں تو ہم ہندوستانی مسلمان ایک صدی سے انہیں سازشوں اور ایمان فروشوں کی فریب کاریوں سے مسلسل گزر رہے ہیں فرق اتنا ہے کہ ہمارے درمیان ایمان فروشوں کی ایک پوری جماعت تو موجود ہے لیکن بیس کروڑ مسلمانوں کو ایک قبیلے کی شکل میں کبھی سلیمان شاہ جیسا کوئی سردار میسر نہیں ہوا اور نہ ہو سکتا ہے !!؟
میں پہلے بھی لکھ چکا ہوں کہ آزادی کے بعد جو کچھ نام کے ابن العربی زندہ تھے پچھلی دہائی تک ان کا مکمل خاتمہ ہو چکا ہے ۔اس سیریل میں درویش صفت شخصیت ابن العربی کے صندوق کا معمہ بھی عجیب ہے لیکن مصنف نے بہت ہی خوبصورتی کے ساتھ ابن العربی سے اس صندوق کو اس وقت ارتغل کے حوالے کرواتا ہے جب ابن العربی کو یقین ہو جاتا ہے کہ سلیمان شاہ کا بیٹا ارتغل عالم اسلام کی اس عظیم ممکنہ سلطنت کی بنیاد رکھنے کا عہد کر چکا ہے جو ایوبی کی اولادوں کی عیش پرستی میں انتشار کا شکار ہو چکی ہے ۔جو لوگ اس سیریل کی مخالفت کر رہے ہیں دراصل ان کے ذہنوں کی گندگی کا راز کچھ اور ہے ۔جہاں تک فحاشی کا تعلق ہے فلم ڈائیریکٹر نے نہ صرف عورتوں کے لباس کا خیال رکھا ہے کہیں پر ایک نامحرم مرد کو کسی نامحرم عورت سے کسی طرح کی غیر اخلاقی حرکت کا مظاہرہ نہیں کیا ہے ۔
پورے ایک سیزن کے پچھتر ایپیسوڈ میں شادی کے بعد ڈائریکٹر نے صرف اتنا گناہ کیا ہے کہ نور گل اور ارتغل کو اس نے کچھ سیکنڈ کیلئے ان کے ماتھے کا بوسہ لیتے ہوئے بتایا ہے۔بہرحال مجھ سے سوشل میڈیا اور یو ٹیوب پر کچھ اچھی چیزیں تلاش کرنے میں کچھ سیکنڈ کا گناہ توروز ہو جاتا ہے اس لئے میں اسے دیکھنا جائز سمجھتا ہوں ۔جو لوگ مجھ سے زیادہ متقی اور پرہیزگار ہیں وہ نہ دیکھیں ۔
باقی 2014 میں ریلیز ہونے والے اس ڈرامے میں بھی مصنف نے موجودہ وبا اور Quarantine جس میں کہ ہم سب لاک ڈاؤن ہیں اس سازش کو بھی بے نقاب کیا ہے جس پر تبصرہ پھر کبھی یا پھر آپ خود دیکھنا شروع کریں آپ کو محسوس ہوگا کہ صلیبی آج داڑھی ٹوپی اور نماز کی شکل میں آپ کی صفوں میں موجود ہیں آپ ان دیسی صلیبیوں کی زد سے کیسے چھٹکارا حاصل کریں گے .میں سمجھتا ہوں کہ مسلمانوں کیلئے یہ بیماری کرونا سے بھی زیادہ مہلک ہے ۔حالانکہ میں خود وہابی نظریے کا شدت کے ساتھ قائل ہوں لیکن ملک کےموجودہ پر فتن ماحول میں کسی درویش صفت ابن العربی سے کچھ استفادہ حاصل کرنے کی خواہش ہے کسی کی نظر میں ایسی کوئی شخصیت ہو تو نشاندھی کریں مجھے اب اس کی تلاش ہے !