خدا نہ کرے۔۔۔
مرزا انور بیگ میرا روڈ تھانہ
خدا نہ کرے کہ یہ آفت زیادہ دنوں تک چلے لیکن مستقبل کا لائحہ عمل بھی تیار رہنا چاہئے۔ عنقریب رمضان المبارک آمد ہوگی۔ مساجد میں بھیڑ ہوگی اور خصوصاََ تراویح میں گھنٹہ ڈیڑھ گھنٹہ کے لئے لوگ اکٹھے ہوں گے۔ ایک تو اگر یہی ماحول رہا تو بیماری کے پروان چڑھنے کا خطرہ ہے۔ دوسرے انتظامیہ کی نظروں میں بھی ہم مخدوش و مطعون ہو جائیں گے اور جب وہ کارروائی کریں گے تو ہم طرح طرح کے رونے روئیں گے۔
اس لئے میری علماء کرام سے عاجزانہ گزارش ہے کہ وہ ابھی سے اس مسئلے پر غور کریں اور کوئی معتدل رائے سے ملت کی رہنمائی کریں۔
کچھ میرے بھی مشورے ہیں۔
۱۔ تراویح فرض نہیں ہے سنت ہے۔ لوگ گھر میں ہی پڑھ لیں۔
۲۔ یہ بھی ہو سکتا ہے کہ مسجد میں صرف ۸ رکعت ہی پڑھائی جائیں وہ بھی مختصر سورتوں کے ساتھ۔
۳۔ بہتر ہے کہ سحری میں جلدی بیدار ہو کر تہجد کا اہتمام کریں۔
بہت کچھ یاد آتا ہے۔۔۔
بہت افسوس کے ساتھ کچھ باتیں عرض کر رہا ہوں۔
سنہ 2002 میں میں نے ایک غزل لکھی تھی جس کے یہ اشعار اب بھی یاد ہیں کہ
زرا سی آگ رکھ دے کوئی ان کے آشیانے میں
پتا تو ہو کہ ہوتا کیا کسی کا گھر جلانے میں
کبھی انگلی جلا بیٹھے کبھی دامن جلا بیٹھے
ہواؤں سے گھٹاؤں سے چراغوں کو بچانے میں
بھارت جب سے آزاد ہوا ہے مسلسل فسادات کی لپیٹ میں رہا ہے۔ کہنے کو تو یہ ہندو مسلم فساد تھے مگر حقیقت میں یہ سب یک طرفہ تھے۔ زرا سی چنگاری بھڑکائی جاتی اور مسلمانوں کو مارا کاٹا جاتا، دوکانیں اور مکانات نذر آتش کردے جاتے اور تماش بین بنی پولیس جب فسادیوں کو پوری طرح کھل کھیلنے دے دیتی اس کے بعد حرکت میں آتی اور پھر کرفیو لگا دیا جاتا۔
وضاحت کردوں کہ یہ کرفیو فساد زدہ علاقوں میں ہی لگتا یعنی محصور وہی لوگ ہو جاتے جو فساد کے متاثرین ہیں اور مفسد آزادانہ گھومتے پھرتے۔ گرفتاریاں بھی بعد میں مسلمانوں کی ہی ہوتیں۔
دہلی فساد تک تو اس صنعت نے کافی ترقی کرلی ہے اب پولیس تماشائی نہیں خود فسادیوں کی ساتھی و مددگار بن چکی ہے۔ فساد کے بعد کرفیو کی سختی صرف مسلمان جھیلتے آۓ ہیں۔
کشمیری عوام ایک عرصے سے آۓ دن کرفیو کی ذد میں رہتی تھی مگر آرٹیکل 370 ہٹا کر پوری ریاست کو سات ماہ تک یرغمال بنا لیا گیا اور عوام کو گھروں میں کرفیو لگا کر قید کردیا گیا۔
افسوس آج پورا ملک بلا تفریق مذہب و ملت کرفیو کی سختی جھیل رہی ہے۔ اب سبھی کو احساس ہو جانا چاہئے کہ کس قدر سخت ہوتے ہیں کرفیو گرہست علاقے۔ کتنی تکلیفیں اٹھاتے ہیں معصوم بچے اور کس قدر اذیت محسوس کرتے ہیں ضغیف اور بیمار۔
اگر اب بھی نہ احساس ہو اور وہی رویہ رہے تو کل کوئی آنسو پونچھنے والا نہیں ہوگا۔