کیا زمانے میں پنپنے کی یہی باتیں ہیں !
ساجد محمود شیخ میراروڈ
مکرمی!
بروز سنیچر کو یہ افسوسناک خبر سننے میں آئی کہ مورلینڈ روڈ پر جاری مظاہرہ گاہ جو ممبئی باغ کے نام سے مشہور ہے وہاں صبح صبح مرد منتظمین کے درمیان مارپیٹ ہوئی اور سابق پولیس افسر اور سماجی کارکن شمشیر خان پٹھان صاحب کو بہت بُری طرح سے زدوکوب کیا گیا۔ اس معاملے میں فریقین ایک دوسرے پر الزام تراشیاں کر رہے ہیں۔ یہ معاملہ مورلینڈ روڈ پر مظاہرے کو کورونا وائرس کے خدشہ کے پیش نظر ختم کرنے یا نہیں کرنے پر بحث سے شروع ہوا ہے ۔ دراصل ممبئی پولیس کمشنر کے ساتھ میٹینگ کے بعد منتظمین دو گروپ میں تقسیم ہوگئے تھے اور ایک گروپ کی رائے یہ تھی کہ وباء پھیلنے کے پیشِ نظر مظاہرہ عارضی طور پر ملتوی کر دیا جائے اور بعد میں صورتحال میں سدھار آنے کے بعد دوبارہ اسی مقام پر مظاہرہ شروع کیا جاسکتا ہے. جبکہ فریقِ ثانی مظاہرہ کو جاری وساری رکھنا چاہتا تھا ۔
ممبئی باغ میں ہوئی مارپیٹ ملّتِ اسلامیہ ممبئی کی ملّی تاریخ پر بدنما داغ ہے اور ملّی قیادت کے لئے مقام عبرت اور توجہ طلب معاملہ ہے ۔ یہ تو شرم سے ڈوب مرنے کا مقام ہے کہ ایسے وقت میں جب ملّتِ اِسلامیہ ہندوستان تاریخ کے انتہائی نازک دور سے گزر رہی ہے اور اُس کا وجود خطرے میں پڑ گیا ہے ہم انتہائی معمولی باتوں پر آ پس میں لڑائی جھگڑا اور مارپیٹ کرتے رہیں۔ کیا گفت و شنید سے مسئلہ حل نہیں کیا جاسکتا تھا۔کیا ممبئی کی ملّی قیادت اس پر کوئی ایسا حل نہیں نکال سکتی تھی جو سب کے لئے قابلِ قبول ہو۔ کیا افہام وتفہیم کے سارے دروازے بند ہو کر صرف مارپیٹ کا راستہ ہی باقی رہ گیا تھا ۔
اس واقعہ کے دور رس نتائج مرتب ہوں گے ۔ حکومت اور انتظامیہ جو پہلے ہی سے اس مظاہرے پر نظر بد جمائے ہوئے ہےاور ناگپاڑہ پولس اسٹیشن جو شروع دن سے اس پر خار کھائے بیٹھا ہے انہیں موقع مل جائے گا اور وہ نقص امن کے اندیشہ کے پیشِ نظر ممبئی باغ کو ختم کرنے پر زور دیں گے ۔ بالخصوص سینئیر پولیس انسپکٹر شالنی شرما کو یک گونہ سکون حاصل ہوگا کیونکہ ابھی چند روز پہلے ہی چند پولس اہلکاروں نے رات کے وقت مظاہرہ گاہ میں بیٹھی خواتین کے ساتھ مارپیٹ کی تھی اور ان زخمی خواتین نے الزام عائد کیا تھا کہ یہ ساری کاروائی انسپکٹر شالنی شرما کی ایماء پر ہوئی تھی اور متاثرہ خواتین شالنی شرما کے خلاف کارروائی کی مانگ کر رہیں تھیں مگر اِس واقعے کے بعد شالنی شرما کو اپنا دفاع کرنے کا موقع مل جائے گااور خواتین کا مطالبہ کمزور پڑ جائے گا۔ یہ شرمناک واقعہ جگ ہنسائی کا باعث بن سکتا ہے اور ہم کو برادرانِ وطن کے سامنے شرمندہ و پشیمان ہونا پڑ سکتا ہے ۔
کیا ایسا ممکن نہیں تھا کہ مظاہرہ کا فیصلہ خواتین پر چھوڑ دیا جاتا کہ جن کو مظاہرہ جاری رکھنا ہے وہ مظاہرہ جاری رکھیں اور جن کو نہیں شامل ہونا ہے وہ نہیں شامل ہوں ۔ بات پوری خواتین کی مرضی پر منحصر رہنے کی تھی اور فیصلہ انھیں پر چھوڑ دیا جاتا تو بہتر تھا ۔ یہ تنازعہ ملت اسلامیہ کی زوال پزیر اخلاقی صورت حال کی نشاندھی کرتا ہے اور ملّی مفاد پر ذاتی مفادات کو ترجیح دینے کی سوچ کو اجاگر کرتا ہے۔ اور ہمارے درمیان اختلاف وبرداشت کی کمی کو محسوس کراتا ہے ۔ ممبئی باغ کا المیہ ملت اسلامیہ ہندوستان کی داخلی صورت حال اور ملّی ومذہبی جماعتوں کی نفسیات کو عیاں کرتا ہے ۔ حقیقت یہ ہے کہ ہندوستان میں مسلمانوں کے درمیان مذہبی ومسلکی جھگڑے عام بات ہے ۔ ہر کوئی اپنی قیادت کو چمکانے اور اپنی جماعت کو بڑھاوا دینے کے لئے کوشاں رہتا ہے ۔بات بات پر لڑائی جھگڑا اب معمولی بات ہوگئی ہے ۔ انتشار و افتراق کا عالم یہ ہے کہ ہم اپنا ملّی مفاد یکسر فراموش کر بیٹھتے ہیں۔
یہ وقت متّحد ہو کر ملت کے مجموعی مفاد کے لئے کام کرنے کا ہے اور سب مل کر دشمنان دین و ملت کی سازشوں کو ناکام بنانے کا ہے ۔ اگر ہم آپس میں اسی طرح چھوٹی چھوٹی باتوں پر لڑتے رہے تو وقت کا مؤرخ ہمیں معاف نہیں کرے گا کہ یہ بات بھی تاریخ کا حصہ بن جائے گی کہ جب ہندوستان میں مسلمانوں کے خلاف زبردست سازش ہو رہی تھی اور مسلمان قوم نیست و نابود ہونے کے دہانے پر پہنچ گئی تھی مگر پھر بھی کچھ لوگ اپنے ذاتی مفادات کی خاطر ایک دوسرے کو نیچا دکھانے میں لگے ہوئے تھے ۔ خدا ہماری قوم کو نیک توفیق عطا فرمائے اور حالات کو سمجھنے کا شعور دے اور زمانے میں جینے کا سلیقہ بھی سکھائے۔ آمین