انصاف اورامن کے لیےغیرمسلم ابنائے وطن کے ساتھ مل کرحکمت عملی بنانااورکوشیش کرنا رسول اللہ ﷺ کی سنت ہے: مفتی افسرعلی ندوی
بیدر: 13/مارچ (پریس ریلیز) مفتی افسر علی نعیمی ندوی نے درگاہ اشٹور کی تاریخی مسجد موقوعہ مقابر سلاطین بہمنیہ میں نماز جمعہ سے قبل خطاب کرتے ہوئے کہا کہ رسول اللہ ﷺ کی زندگی تمام انسانوں کے لیے بہترین نمونہ ہے، خواہ وہ امیر ہو یا غریب، دوستوں میں ہو یا دشمنوں میں، فاتح ہو یا مغلوب، خوشی میں ہو یا غم میں، غرض زندگی کے ہر موڑ پر سیرت طیبہ ہماری رہنمائی کرتی ہے۔ اس وقت ہندوستانی مسلمان جس حالات سے دو چار ہیں، اس سے نکلنے کے لیے سیرت سول ﷺ میں ”حلف الفضول“ کا واقعہ بہترین نمونہ ہے۔
”حلف الفضول“ ایسے ماحول میں قائم کی گئی جب ظالموں کو ظلم سے روکنے والی کو طاقت موجود نہیں تھی، مظلوموں کو انصاف حاصل کرنے کا کوئی راستہ نہیں تھا، برائیوں کو روکنے والی کوئی طاقت نہیں تھی، حلف الفضول کا مقصد معاشرہ میں انصاف کو قائم کرنا اور کمزوروں کو انصاف دلانا تھا، جمہور کی مدد سے ظالم کا پنجہ تھامنا، اجتماعی شیرازہ بندی کے ذریعہ انصاف قائم کرنے کی کوشش، چھوٹی چھوٹی طاقتیں مل کر بڑی طاقت بناکر ظلم کو روکنا تھا۔ ہمارے ملک میں بھی اس وقت یہی صورت حال ہے۔
ظالم کا خونی پنجہ اتنا طاقتور ہو چکا ہے کہ علی الاعلان خون کی ہولی کھیلی جا رہی ہے، لوگوں کی املاک لوٹی جاتی ہیں، عزت و آبرو پامال کی جاتی ہے، افسوس صد افسو س کہ ظالموں کی حمایت میں نعرہ لگائے رہے ہیں، ایسے حالا ت سے نمٹنے کے لیے ضروری ہے کہ ایک نئی شیرازہ نبدی کریں، اپنی آپسی اختلاف کو نظر انداز کر کے ایک ایجنڈے پر متفق ہو جائیں کہ فرقہ پرست طاقتوں سے ملک کو بچائیں گے، ملی اتحاد کے ساتھ ساتھ دیگر اقلیتیں، دلت اور سیکولر برادران وطن کو ساتھ لے کر ایک ایسا پلیٹ فارم بنائیں کہ جو ہر ظلم کے مقابلہ میں کمر بستہ ہو، مظلوم کو انصاف دلانے کے لیے اٹھ کھڑا ہو، کسی طبقہ پر ظلم و زیادتی ہو تو سب مل کر احتجاج کریں۔
رسول اللہ ﷺ نے عدل و انصاف اور امن و مان کی بر قراری کے لیے غیر مسلم ابنائے وطن کے ساتھ مل کر مختلف معاہدات کیے، آپ نے مکہ میں بھی یہ پیش کش کی تھی کہ بقائے باہم کے اصول پر مسلمان اور غیر مسلم دونوں سوسائٹی میں مل جل کر رہیں، مدینہ پہنچتے ہی آپ ﷺ نے مسلمان، یہودی اور مشرک قبائل کے درمیان ایک تحریری معاہدہ کیا، جس پر تمام قبائل نے دستخط کیے، ملک کے دستور اور اس کی جمہوری قدروں کو بچانے اور عدل و انصاف کے تقاضے کو پورا کرنے کے لیے پیش قدمی کریں، حقیقت یہ ہے کہ اگر موجودہ حالات میں مسلمانوں نے سوچے سمجھے منصوبے کے مطابق کوئی راہ عمل تیار نہیں کیا تو اتنے بڑے نقصان کا خطرہ ہے کہ اس کی تلافی بہت دشوار ہو جائے گی۔ مسجد کا اندرونی و بیرونی حصہ مصلیوں سے بھرا ہوا تھا۔