بنگلورو میں بزمِ امیدِ فردا کے زیرِاہتمام ”سیمینارومحفلِ مشاعرہ“ کا کامیاب انعقاد
بزمِ امیدِ فردا جیسی اور تنظیموں کی آج اردو دنیا کو اشد ضرورت ہے – منیر احمد جامی
نامور قلمکاروں کو چاہئے کے جواں سال قلمکاروں کے لئے صف بندی کا اہتما م کریں – سید عرفان اللہ
بنگلورو: 2/مارچ (پریس ریلیز) بزمِ امیدِ فردا کے زیرِ اہتمام ”سیمینار و محفلِ مشاعرہ“ کا انعقاد بروز ہفتہ بمقام دارالسلام اردو ہال، کوئنس روڈ، بنگلور عمل میں آیا۔ جس میں جواں سال اور نو مشق قلمکاروں کے ساتھ پہلی بار قداور قلمکاروں نے بھی اپنے فن کا مظاہرہ کیا۔
اس ”سیمینار و محفلِ مشاعرہ“کی صدارت جناب منیر احمد جامی، معروف شاعر و ادیب نے فرمائی ڈاکٹر سید رفیق باشاہ حسینی، اے ڈی پی، دوردرشن، بنگلور اور جناب محمد ذبیح اللہ، اردو پروڈیوسر، دوردرشن مہمانانِ اعزازی شریک رہے اور کرناٹک اردو اکادمی کے سابق چیرمین ڈاکٹر وہاب عندلیب،محترمہ نور زہرا، سکریٹری، KUTWDCT اور محترمہ کوثر بی بی، ڈانڈیلی بطورِ مہمانانِ خصوصی شریک رہے۔
صدارتی کلمات ادا کرتے ہوئے جناب منیر احمد جامی نے کہا کہ”میں چاہتا ہوں کے کرناٹک اردو اکادمی اور دوردرشن کے ذریعہ نئے لکھنے والوں کی تربیت کے لئے کارگاہ منعقد کی جائے اور اس کے لئے بزمِ امیدِ فردا کی طرح اور اردو انجمنوں کے ساتھ مل کرکام کیا جائے“ انہوں نے مزید کہا کہ ”بزمِ امیدِ فردا کی ریاستِ کرناٹک کے ہر ضلع میں ضلعی شاخ قائم ہواور جناب عرفان اللہ کوثمیمِ قلب کے ساتھ مبارکباد پیش کرتا ہوں جو وہ تنِ تنہا اردو محبت کی شمع کو جلائے رکھنے میں انتک کوشش کر رہے ہیں“ مزید کہا کہ ”مجھے خوشی کہ آج دو کتابوں کی رسمِ اجرائی میں ایک جواں سال اور متحریک نوجوان مبین احمد زخم کی کتاب عمل میں آئی ہے، ہمیں چاہئیے کے قداور مصنفین کے ساتھ ساتھ نوجوانوں کی بھی حوصلہ افزائی کی جائے“۔
ڈاکٹر سید رفیق باشاہ حسینی، اے ڈی پی، دوردرشن، بنگلور نے پروگرام کے انعقاد پر دلی مسرت کا اظہار کیا اور نوجوانوں دوردرشن آنے کی دعوت بھی پیش کی اور بزمِ امیدِ فردا کو مبارکباد پیش کرتے ہوئے دوسرے اداروں کوبھی اس طرح کے ادبی نشستیں انعقاد کرنے کی اپیل کی۔ جناب محمد ذبیح اللہ، اردو پروڈیوسر، دوردرشن نے کہا ”میں خود بھی نوجوانوں کے ساتھ اس طرح کے کام کرنے کا قائل ہوں اور میں چاہتا ہوں کے کرناٹک کے نوجوان قلمکار کھل کر سامنے آئیں اور دوردرشن سے رابطہ کریں اور نئے نئے پروگرام کے تعلق سے ایک مثبت لائحہ عمل تیار کریں جس سے ان کو بھی فائدہ پہنچے اور اردو زبان کی ترقی و ترویج بھی ہو۔
سید عرفان اللہ نے ہدیہ تشکر پیش کرتے ہوئے فرمایا ”نوجوان نسل چاہتی ہے آگے آنا مگر صحیح رہنمائی کے فقدان نے انہیں صحیح منزل اور مقام عطا نہیں کیا ہے۔اگر استاد شعرائے کرام اورادباء اگر اس جانب توجہ دیں تو یقینا ایک عمدہ اور صحت مند کام ہو سکتا ہے“۔ اس موقع پر ڈاکٹر امجد حسین کرناٹکی، سابق چیرمین، کرناٹک اردو اکادمی کی کتاب ”شانِ غزل“ اور جناب مبین احمد زخم کی کتاب ”آئینے“ کا رسمِ اجرا عمل میں آیا۔ نثر نگار میں جناب عبداللہ سلمان نے ڈاکٹر سید رفیق باشاہ حسینی کا خاکہ پیش کیا اور محترمہ صبا انجم عاشی نے مبین احمد زخم کی کتاب پر تبصرہ پیش کیا۔ جناب سید عرفان اللہ نے ”بدعت“ عنوان سے ایک افسانہ پڑھا۔
محترمہ یاسمین تماپوری، جناب مبین احمد زخم، ڈاکٹر سید رفیق باشاہ حسینی، جناب مجاہد احمد عمری، محترمہ سہاراشاہ کار،جناب عزیز داغ، جناب ابراہیم نفیس، قاضی سعیداور سید شفیق الزماں نے کلام پیش کیا۔ پروگرام کا آغاز مولانا نعیم رضا، بنگلور کے تلاوتِ آیاتِ ربانی سے ہوا، مناجات جناب منیر احمد جامی نے پڑھی اور نعتِ شریف کا نظرانہ عزیزم محمد یونس نے پیش کیا۔ نظامت کے فرائض جناب عبداللہ سلمان اور محترمہ صبا انجم عاشی نے ادا کئے۔ جناب سید عرفان اللہ کے ہدیہ تشکر کے ساتھ کامیاب پروگرام کے اختتام کا اعلان ہوا۔