چٹانیں چور ہو جائیں جوہوعزم جواں پیدا
زین العابدین ندوی، دارالعلوم امام ربانی ؒ، نیرل ۔ مہاراشٹر
ایمان ومادیت کے ٹکراو سے کوئی زمانہ خالی نہیں رہا، ہر زمانہ میں قدرت کی جانب سے فراعنہ وقت کا مقابلہ کرنے کو عصائے موسی کا، اور نماردہ زمانہ سے نبرد آزمائی کے لئے سنت ابراہیمی کے پیروکاروں کا انتخاب کیا گیا ،اور یہ سلسلہ تا قیامت جاری رہے گا جس سے کچھ تو عبرت حاصل کرتے ہوئے اپنی عاقبت سنوارنے کا کام کریں گے اور کچھ مزید گمراہی کے دلدل میں پھنستے ہوئے اپنی عاقبت کی تباہی کا انتظام کریں گے ، اور یہ کوئی نئی اور انوکھی بات نہیں بلکہ ہر زمانہ اس کا سچا گواہ ہے ۔
حالیہ امریکہ اور طالبان معاہدہ ایمان ومادیت کے ٹکراو کے نتیجہ میں باطل کی شکست فاش کا ایک کھلا باب ہے ، جس نے یہ ثابت کردیا کہ حق کی خاطر ، رضائے الِہی کی طلب میں اٹھنے والے اقدامات خدائی نصرت سے خالی نہیں ہوا کرتے ، یہ اور بات ہے کہ درازی وقت کے سبب ایمان میں مزید پختگی ہوتی ہے ، جسے مادی نظر بے بسی اور لاچارگی تصور کرتی ہے ، طالبان یہ وہ جماعت ہے جس نے ملا عمر کی قیادت میں ظلم کےخلاف آواز بلند کیا اور مدرسہ سے اٹھنے والا یہ بندہ اپنے ایک دوست کے ساتھ مدارس کا دورہ کرتا رہا ،جس نے تعلیم اس لئے ترک کی تھی کہ ایسے ماحول میں جب کہ ہماری عزتیں محفوظ نہ ہوں ، ایمان پر حملہ کیا جا رہا ہو تقاضہ وقت یہ ہے کہ اس کی خوشنودی حاصل کرنے کے لئے کوئی اور راستہ اپنا یا جائے ، اور اسباب پر نظر کئے بغیر اس ذات باری پر توکل کیاجائے جس کے حکم کے بغیر کائنات کا کوئی ذرہ اپنی جگہ سے حرکت نہیں کرسکتا ، اسی ایمانی فکر کے ساتھ بے سروسامانی کے عالم میں طاغوتی نظام کا مقابلہ شروع کیا اوراقتدار حاصل کرلیا اور محض چھ سال کی مدت میں ایک انقلاب برپا کردیا ، اور بھاری اسباب ووسائل کے بغیر ایسا اسلامی نظام قائم کیا جو اس زمانہ میں اپنی مثال آپ تھا ۔
چھ سال کی مختصر مدت میں افغان طالبان کا یہ کرشماتی انقلاب باطل طاقتوں سے دیکھا نہ گیا ، اور اس پر حملہ شروع کردیا لیکن خدا کے یہ شیر جنہوں نے جہاد کی حلاوت کو پالیا تھا اور حق کے راستہ میں جان دے دینے کو اپنا محبوب مشغلہ بنا لیا تھا ان کا جم کر مقابلہ کیا اور مسلسل بر سرپیکار رہے، آخر وہ دن آہی گیا جب ظالموں کو منہ کی کھانی پڑی اور ان شیر صفت مومنین کے سامنے گھٹنے ٹیکنا پڑا ، معلوم دنیا کی تاریخ میں کسی بھی جماعت کے ساتھ ایسی جنگ نہیں ہوئی کہ ایک طرف کا عالم یہ ہے کہ اس کے ساتھ دنیا کی تمام بڑی طاقتیں ہیں ۴۸ ممالک ہیں ،ہتھیاروں کی کمپنیاں اور گودام ہیں اور دوسری جانب ان جانباز مومنین کا حال یہ ہے کہ ان کے پاس کلمہ لاالہ الا اللہ کی طاقت ہے جس کے سہارے وہ دنیا کے سپر پاور کو چنے چبانے پر مجبور کئے ہوئے ہے ، راکٹ کا مقابلہ رائفل کی گولیوں سے کیا اور توپوں کا مقابلہ ٹوٹی ہوئی جیپ اور گاڑیوں سے کیا ، لیکن تمام بے سروسامانی کے باوجود بھی انہوں نے مصلحت کی چادر اوڑھ کر ظالموں کو بڑھنے نہیں دیا بلکہ جہاد کی روح کو اپنے اندر بسائے ہوئے ، خدا کی ذات پر نظر جمائے ہوئے حتی الامکان وسائل کا استعمال کرتے ہوئے آگے بڑھتے رہے اور اسلام کے راستہ میں آنے والی تمام رکاوٹوں کا خاتمہ کرتے رہے ، اور دنیا کو یہ سوچنے پر مجبور کر دیا کہ مادہ سے ہٹ کر ایمان کے بھی کے کوئی معانی ہیں جس کا مقابلہ اسباب ووسائل سے نہیں کیا جا سکتا ۔
اس موقع پر ہمیں یہ سوچنا ہوگا کہ آخر ہمارے اندر وہ کونسی کمی آگئی ہے کہ ہم ظلم کے خلاف آواز تک نہیں اٹھا پاتے جبکہ ہم بھی اسی دین کے ماننے والے اور اسی شریعت پر چلنے کے دعویدار ہیں ، ہم مصلحت کی چادر میں اتنا کیوں الجھ گئے کہ اس کے سوا ہمیں کچھ سجھائی ہی نہیں دیتا ، دشمن ہمارے گھروں میں آتا ہے تالے توڑتا ہے اور ہم اس کا مقابلہ کرنے کے بجائے بھاگنے کی فکر کرنے لگتے ہیں ، دنیا کی محبت نے ہمیں بالکل کھوکھلا اور بے حیثیت کر دیا ہے ، پھر بھی ہمیں گھبرانے اور پریشان ہونے کی ضرورت نہیں بلکہ یہ عزم کرنے کی ضرورت ہے کہ ہم کسی بھی موقع پر گھبرائے بغیر خدا کی ذات پر نظر رکھتے ہوئے اسلام کے راستہ میں آنے والی رکاوٹوں کو دور کریں گے اور باہر سے پہلے اپنے داخلی امور پر غور کریں گے اور حق بات کہنے کی عادت ڈالیں گے ، ظلم کے خلاف آواز بلند کریں گے ظالم خواہ اپنے قریبی ہی کیوں نہ ہوں ، اگر یہ وصف پیدا نہ ہوا اور ہم نے اپنے داخلی امور پر غور نہ کیا تو یاد رکھئے گا کہ نہ تو تقریر ہماری محافظ ہوگی اور نہ ہی تحریریں ہماری حفاظت کریں گی ۔