ظلم پھر ظلم ہے، بڑھتا ہے تو مٹ جاتا ہے!
تحریر: محمد شفاء المصطفی شفا مصباحی
پچھلے دو دنوں سے دہلی کے نازک، شکستہ اور دل خراش مناظر دیکھ کر فرط حزن و الم اور شدتِ قلق واندوہ سے دل بجھا جارہا ہے کہ کس طرح یہ ہنستا کھیلتا شہر بے گناہوں کے خون سے لہو لہان ہو گیا اور اس کی فلک بوس عمارتیں آتش زدہ ہوکر خاکستر ہو گئیں، یہ ہولناک اور انسانیت سوز مناظر دیکھ کر آنکھوں سے خون ٹپک پڑے،مگر ان سفاک،بےحس اور شر پسند عناصر کو کچھ ترس نہ آیا،سنا ہے یہ انسانیت کے دشمن خونی درندے اب بھی اپنے ناپاک عزائم کی تکمیل اور اپنے گندے منصوبوں کی تحصیل میں ہمہ وقت کوشاں ہیں۔
بہر کیف! جو ہونا تھا ہوا اور ہو رہا ہے۔مگر ان حالات کو دیکھ کر بار بار سطح ذہن پہ یہی سوال ابھر رہا ہے کہ آخر ان دنگائیوں کو اتنی جرات وہمت کہاں سے فراہم ہو رہی ہے کہ وہ کچھ بھی کر گزرنے میں ذرہ برابر بھی باک محسوس نہیں کرتے۔ آخر وہ کون سی طاقت و قوت ہے جس نے انھیں اتنا جرات مند اور بے باک بنا دیا ہے۔جب آپ اس کا گہرائی سے جائزہ لیں گے تو یہ حقیقت پورے طور سے طشت از بام ہو جائے گی کہ یہ سب ایک منظم اور منصوبہ بند طریقے سے ہو رہا ہے،جس میں ملک کی عدلیہ اورپولیس انتظامیہ سے لے کر حکومت تک کا ہاتھ ہے اور ان دنگائیوں اور فرقہ پرستوں کو ان سب کی پوری پشت پناہی اور معاونت حاصل ہے۔ دہلی کا یہ موجودہ سانحہ کوئی نئی بات نہیں بلکہ اس طرح کے سنگین واردات اس سے پہلے بھی ہوئے اور آئے دن ہوتے رہتے ہیں،
لیکن اس طرح کے واردات اگر حکومت کے اشارے پر ہو، شرپسند عناصر کو اعیان مملکت کی پوری پشت پناہی اور معاونت حاصل ہو،ملک کی عدلیہ، پولیس انتظامیہ اور خریدار میڈیا بھی اگر جانب دارانہ و ظالمانہ رویے اختیار کرنے لگے اور ان سب پر مستزاد یہ کہ ان فسادات کو خالص مذہب و فرقہ کا رنگ روپ دے دیا جائے، تو اس وقت بات ضرور قابل تشویش ہو جاتی ہے۔کیوں کہ ایک جمہوری ملک کے لیے یہ سم قاتل سے کم نہیں۔مگر افسوس کہ موجودہ مرکزی حکومت کی ساری توجہ آج ذات وبرادری اور فرقہ پرستی ہی کے فروغ پر ہے۔یہی وجہ ہے کہ آج مسلمانوں کے خلاف فرقہ وارانہ عناصرکسی بھی قسم کے مظالم ڈھانے کے لیے بالکل مطلق العنان اور آزاد ہیں۔حکومت کے اس طرزِ عمل سے ملک کا شیرازہ منتشر ہو کر رہ گیا ہے۔
اس کی باہمی یک جہتی اور جمہوریت تار تار ہو کر رہ گئی ہے، پورا ملک باہمی منافرت،دہشت گردی اور فرقہ پرستی کا گہوارہ بن چکا ہے اورملک کا امن و امان پوری طرح غارت ہو گیاہے۔ہندوستان کے ان موجودہ حالات کی وجہ سے آج پوری دنیا میں اس کی مذمت ہو رہی ہے اور اس کے خلاف عالم گیر احتجاج ہو رہے ہیں، مگر ان سب کے باوجود مودی حکومت کے کانوں پر اب تک جوں تک نہیں رینگی ہے،مظالم ومفاسد کے خلاف حکومت وقت کی یہ مجرمانہ خاموشی آخر کس بات کی غمازی کر رہی ہے۔صرف دہلی فساد ہی نہیں بلکہ ملک بھر میں جتنے بھی فرقہ وارانہ فسادات ہوئے،ان کی رودادیں اب فرسودہ ہونے کو ہیں،مگر اب تک ان سب کے خلاف کوئی مثبت کاروائی نہیں ہوئی۔
آئے دن اشتعال انگیز تقاریراور زہر افشاں بیانات ہو رہے ہیں،مگرحکومت کا ان پر کوئی ردِعمل نہیں۔ اگر ان سارے واقعات وحادثات کے پس پشت حکومت وقت کا ہاتھ نہیں تو مجرموں کو کیفرِ کردار تک پہنچانے کے لیے اب تک کوئی لائحہ عمل تیار کیوں نہیں ہوا۔ ملکی حالات آج اس قدر نازک ہیں کہ ان کے تصور ہی سے دماغ پھٹنے لگتا ہے،مگر ان سب کے باوجود آج ہمارے وزیر اعظم خاموش تماشائی بنے کیوں بیٹھے ہیں۔ان سارے حوادث و واقعات کے خلاف نہ تو مودی جی نے اب تک کوئی مناسب اقدام کیا ہے اور نہ ہی ان کی بے حسی اور خاموشی کا سلسلہ ٹوٹتا ہے۔
اگر ان شر پسند عناصر اور فرقہ پرستوں کو ان کی تائید حاصل نہیں تو پھر یہ خاموش کیوں ہیں۔اس سے بھی زیادہ افسوس ناک امر یہ ہے کہ آج جو لوگ ملک میں بڑھتی عدم رواداری اور جمہوری نظام کے سراسر منافی اصول و قوانین کے خلاف ملک کی سالمیت اور تحفظ و بقا کی خاطر پر امن احتجاجی مظاہرے کر رہے ہیں،انھیں تو فوراً غدار وطن اور باغئ ہند قرار دے کر ان کے خلاف تحریکیں چلائی جاتی ہیں،ان پر فائرنگ اور پر تشدد وحشیانہ حملے ہوتے ہیں، ان پر آگ کے گولے داغے جاتے ہیں۔ مگر وہیں دوسری طرف شر پسند عناصر اور فرقہ پرست افراد نے دن کے اجالے میں ہمارے اس گلشن کو نذر آتش کردیا اور آنکھوں کے سامنے ہمارا آباد نشیمن تخت وتاراج کر دیا،مگر اب تک ان کے خلاف کوئی کاروائی نہیں۔
آخر یہ ظالمانہ رویہ اور سوتیلا برتاؤ کس حقیقت کی نقاب کشائی کر رہا ہے۔ کیا یہ سب اس بات کی شہادت کے لیے کافی نہیں کہ ان سب کے پس پشت حکومت کا بھی پورا ہاتھ ہے اور ظالموں کو اس کی نصرت و حمایت حاصل ہے۔لہذا اب تو یہ مسلم ہو گیا کہ حالیہ فساد ہو، یا شاہین باغ اور جامعہ ملیہ اسلامیہ پر فائرنگ ،علی گڑھ مسلم یونیورسٹی اور جے۔این۔یو کے طلبہ وطالبات پر وحشیانہ حملے ہویا پولیس انتظامیہ کے ظالمانہ رویے، ان سب کے پیچھے حکومت کا بھی پورا پورا ہاتھ ہے اور ان شر پسند طاقتوں کو اس کی پوری پشت پناہی حاصل ہے.
مگر مقام حیرت یہ ہے کہ جب اس طرح کے واقعات رونما ہوتے ہیں تو ہمارے وزیراعظم اپنا دامن یوں جھاڑتے ہیں،جیسے انھیں کچھ خبر ہی نہ ہو اور ایسے بیان دیتے ہیں کہ کسی کو گمان تک نہیں ہوتا کہ اس میں ان کا بھی ہاتھ ہوسکتا ہے،بلکہ اس قدر جھوٹی ہمدردی کا ڈھونگ رچاتے ہیں کہ گویا ایسا لگتا ہے کہ ہمارے ان مسائل کا سب سے زیادہ انھیں کو صدمہ ہے اور ہمارے سب سے بڑے خیرخواہ اور محسن وکرم فرما یہی ہیں،مگر حقیقت تو یہ ہے کہ
ہر ایک زخم پہ اس کا ہی نام ملتا ہے
وہ ایک شخص جو ملتا ہے محسنوں کی طرح
مگر کہتے ہیں نا کہ ظلم وبربریت اور جبر و استبداد کو بالآخر ختم ہو کر رہنا ہے اور اس کی جگہ ایک نہ ایک دن عدل و انصاف کی فضا قائم ہونی ہے،سو اس کے آثار نمایاں ہو رہے ہیں اور مودی جی کا اصل مکروہ چہرہ اب لوگوں کے سامنے آنا شروع ہو گیا ہے، لوگ ان کے مسموم اہداف واغراض پہچاننے لگے ہیں،بلکہ ان کے ناپاک اور گھٹیا منصوبوں کے خلاف اب بلا تفریق قوم ونسل اور بلا لحاظ مذہب و ملت سراپا احتجاج بن کر سڑکوں پر اتر آئے ہیں اور انھیں ناکام بنانے کے لیے پرزور جد وجہد کر رہے ہیں۔اور ان شاءاللہ تعالیٰ بہت جلد ان کی یہ کاوشیں بار آور ہوں گی اور ظالموں کے ناپاک عزائم خاک آلود ہوں گے۔
لہذا حکومت وقت سے اب بھی التماس ہے کہ اگر واقعی مودی جی کو ملک کے اندر بگڑتے حالات کو بدلنے کی تڑپ ہے اور ملک سے سچی محبت ہے،تو ہوش کے ناخن لے اور ان مزاحمانہ کارروائیوں پر سخت پابندی عائد کرے، اپنی اس مجرمانہ خاموشی کو مہمیز کرکے ظالموں اور مجرموں کو کیفرِ کردار تک پہنچائے، فرقہ وارانہ فسادات،زہر افشاں اور اشتعال انگیز بیانات پر قدغن لگائے اور "سب کا ساتھ، سب کا وکاس”کے نعرے کو عملی جامہ پہنائے۔ اسی میں ملک کی سالمیت اور تحفظ و بقا ہے۔ورنہ اگر ان کی مجرمانہ خاموشی،بے حسی اور سرد مہری کا سلسلہ یوں ہی قائم رہا،تو بعید نہیں کہ پورا ملک مختلف ٹولیوں میں منقسم ہوکر خانہ جنگی کا شکار ہو جائے اور اس وقت ہزاروں کوششوں کے باوجود کچھ نہ ہو سکے۔

