دہلی: بے گناہوں کے خون سے ہے لہو لہو
تحریر: وزیر احمد مصباحی، مبارک پور
24/ فروری، دن کے تقریباً دس بج رہے تھے۔احمدآباد کے موٹیرا سردار پٹیل اسٹیڈیم میں دو ملک (India & America) کے رہنماوٴں کی ایک سے ڈیڑھ لاکھ ناظرین کے سامنے “نمستے پروگرام” میں ملاقات ہونے والی تھی۔ مسٹر مودی آج صبح کے دس بجے ہی بنفس نفیس پھولوں کا گلدستہ لیے خوش آمدید کہنے امریکی صدر ڈونالڈ ٹرمپ کو Receive کرنے احمدآباد ہوائی اڈہ پہنچ چکے تھے۔مسٹر مودی کا ٹرمپ کے ساتھ لنچ کرنے،اسے محبت کی عظیم نشانی ” تاج محل” کی سیر کرانے اور گاندھی جی کی سمادھی کے لیے راج گھاٹ لے جانے وغیرہ کے سارے اوقات پہلے ہی سے متعین تھے۔ٹرمپ کے ساتھ ان کی اہلیہ میلانیہ ٹرمپ اور دوسرے درجن بھر لوگ بھی آئے تھے۔اپنی ناکامی پر پردہ ڈالنے کے لیے مودی نے پہلے ہی گجرات کی شاہراہوں کے ارد گرد اچھی خاصی لمبی دیوار بھی کھڑی کر دی تھی تا کہ ٹرمپ کے سامنے اسے شرمندگی کا احساس نہ ہو۔
اسٹیڈیم تالیوں کی گڑگڑاہٹ سے مسلسل گونج رہا تھا۔شعبدآبازی کا دور دورہ تھا۔آج دو ملک کے وزیراعظم لاکھوں ہندوستانیوں کے سامنے آپسی محبت کا ڈھونگ رچ کر الفاظ کی بازیگری سے برابر انڈیا اور امریکہ کے گہرے تعلقات سے انھیں لبھانے کا کام کر رہے تھے اور عوام تالیاں بجا بجا کر انھیں فرحت و مسرت سے ہم کنار کر رہے تھے۔۔۔۔ ہاں! مگر تصویر کا یہ دوسرا رخ بھی تو دیکھیے کہ اسی خوشی کے عالم میں خود وطن عزیز کی راجدھانی “دہلی”سلگ رہا تھا۔بھڑکتی آگ نے نے اپنی لپیٹ میں نہ جانے کتنے گھروں اور دکانوں کو دبوچ لیا تھا۔گلی گلی سے سیاہ دھواں کا تیز سیلاب آسمان کی طرف اٹھ رہا تھا۔صبح تڑکے ہی سے حالات انتہائی کشیدہ تھے۔
اقلیتی فرقوں پر بھاری فکر و غم کا بسیرا تھا۔ناامیدی و مجبوری کی گواہی ان کے جسم کے تقریبا تمام اعضا دے رہے تھے۔مسلمان گھروں میں بند ہوچکے تھے۔کچھ مسلم نوجوان اپنی ماؤں اور بہنوں کی حفاظت کے لئے گھروں کے باہر گلی محلے میں خوف کے سائے تلے کھڑے تھے۔سیاہ قانون کے بر خلاف احتجاجی دھرنوں میں شرکت کرنے والی کئی ایک خواتین لہولہان ہو چکی تھیں۔دہلی کے جعفرآباد، موج پور،بھجن پورہ،بابر پور،گوکل پوری اور چاند باغ کے کئی ایک علاقے فساد کی مکمل زد میں تھے۔چیخ و پکار،آہ و فغاں،شور و غل اور مسلسل گولی،آنسو گیس اور پتھروں کی آوازوں نے ایک عجیب سی ڈراؤنی کیفیت پیدا کر دی تھی۔آج دہلی اپنی اسی پرانی روش پر آ چکی تھی۔۔۔ جس طرح برسوں پہلے یہاں کی نیلگوں آسمان نے سسکتی رات اور غمگین صبح کی بھیانک تصویر دیکھی تھی۔
جی ہاں! آج یہاں کوئی بھی ایسا مسلمان نہ تھا جو محض بے آنسوؤں کی سوکھی سوکھی سسکیاں بھر رہا ہو۔بلکہ ہر ایک کی آنکھوں سے نہ تھمنے والا سیلاب جاری تھا۔شرپسندوں و بھگوا داریوں کی آنکھیں مذہبی منافرت کی آگ سے ایسی دہک اٹھی تھیں کہ بڑی بے رحمی سے کئی ایک قیمتی اشیا کو انھوں نے پھونک دیا تھا۔یہاں مسلم گھروں میں شاید پہلی دفعہ پانی کی جگہ پر موٹے موٹے توانا پتھروں و گولیوں کے مسلادھار بارش اور بجلی کی تیز دوڑتی روشنی کے بجائے آسمان سے باتیں کرتی آگ کی شعائیں چمک رہی تھیں۔اکثر شاہراہوں پر پولیس اہلکار اور سیکورٹی فورسز نے مکمل طور پر ناکہ بندی کر دی تھیں۔
کسی بھی میڈیا اور راہگیرکو آبادی میں قدم رکھنے نہیں دیا جا رہا تھا۔اس بیچ بھگوادھاری اور آر ایس ایس کے کارکنان کپل مشرا کی نفرت انگیز بیان سے کمک حاصل کرکے دہلی پولیس کے ساتھ اودھم مچانے میں مصروف تھے۔اب تک اس خوفناک سائے میں کتنوں کی موتیں ہوئیں اور کتنوں کو زخم لگے۔۔۔۔؟درست اندازہ نہیں لگ رہا تھا۔۔۔۔پر ۔۔۔ایک بات دہلی کی بھڑکتی آگ کے دوش پر سوار ہو کر بڑی تیزی سے ملک بھر میں گردش کر رہی تھی کہ مظاہرین کی جھڑپ کے بیچ ایک پولیس کانسٹیبل رتن لال نامی شخص کی فائرنگ کی زد میں آنے کی وجہ سے موت ہوچکی ہے اور ایک لاچار فرقان نامی مسلم نوجوان،جو اپنے اہل و عیال کے لیے چوک پر کھانا خریدنے کے لیے گیا تھا۔۔۔۔۔جام شہادت نوش کر لیا ہے۔اب تک دہلی کی سر زمین سرخ ہوچکی تھی۔۔۔۔فرقان کے بڑے بھائی نے میڈیا کے سامنے اپنی داستان غم رکھا اور بھرائی ہوئی آواز کے سہارے بمشکل اتنا بول پایا کہ”آج میری دنیا اجڑ گئی،میرے پاس کچھ نہیں بچا”۔قریب تھا کہ وہ مارے غشی کے زمین پر گر پڑے۔۔۔مگر۔۔۔پیچھے کھڑے لوگوں نے انھیں سنبھالا دیا۔
اسی شہر میں ایک کار چالک کو بھی نام بتانے پر اس کی گاڑی اور اسے بری طرح کے نقصانات کا سامنا کرنا پڑا۔اسی طرح کئی ایک اور افراد کو بھی مسلم شبیہ میں دیکھ کر موت کے گھاٹ اتار دیا گیا تھا۔یہ شرپسند افراد میڈیا والوں پر بھی مسلم گھروں میں پتھر پھینکنے یا پھر وہاں سے چلے جانے کا فرمان جاری کر رہے تھے۔پولیس دستہ قدم قدم پر ان کے ساتھ مل کر ان کی حوصلہ افزائی کرنے میں مصروف تھا۔نہ جانے اب تک کتنوں کا نشیمن پھونک دیا گیا تھا۔۔۔کتنی آرزوئیں دفن ہو چکی تھیں۔۔۔اور کتنی امنگوں حوصلوں کا دن دہاڑے خون ہو چکا تھا۔۔۔
کیا اس لیے تقدیر نے چنوائے تھے تنکے
کہ بن جائے نشیمن تو کوئی آگ لگا دے
ہاں! رات کے اس سنّاٹے میں عام آدمی پارٹی کے لیڈر امانت اللہ خان صاحب دہلی کے L G کے پاس بھی گیے تھے کہ وہ دلی کو جلنے سے بچا لیں۔۔۔۔پر ان کی وہاں ایک بات بھی نہیں سنی گئی اور L G صاحب مزے کی نیند لیتے رہے۔رات بھر شدت پسندوں کی طرف سے ہاہکار ہوتا رہا۔ایمبولینس والے برابر بچے ،بوڑھے، نوجوان اور زخمی ماؤں و بہنوں کو اٹھا کر ہسپتال لے جانے میں مصروف تھے۔ ہاں! پیٹرول پمپ کو پھونکنے کے ساتھ ساتھ ان شدت پسندوں نے بھجن پورہ میں امن و آشتی کی نشانی سید چاند بابا کے مزار میں بھی آگ لگا دی تھی۔۔۔اور اس کے سبب مزار کا ایک بزرگ خادم نے آگ کی چپیٹ میں آ کر اپنی جان تک گنوا دی۔۔۔۔آج دہلی کا جمنا پار کے علاقے کی سرزمین مسلسل بے گناہوں کے لہو سے سرخ ہوتی چلی جا رہی تھی۔۔۔پر دہلی کے وزیر اعلی اروند کیجریوال جسے مسلمانوں نے فی الحال ہی اس امید پر فتح دلایا تھا کہ وہ مظلوموں کی فریادرسی کریں گے۔۔۔۔حقیقی دنیا میں قدم رکھنے کے بجائے بس اپنی Tweet کے ذریعہ ہی لوگوں سے امن کی اپیل کر رہے تھے۔۔
جی ہاں! میں نے شام غریباں کا جو بھیانک منظر شام اور فلسطین کے سینے میں دیکھا تھا آج بالکل عین وہی خوفناک تصویر دہلی کے جمنا پار علاقے میں بھی ابھرتی دیکھی۔۔۔یقینا آج ہندوستان کا سیکولرزم بری طرح جھلس چکا تھا۔___جمہوریت کے انگ انگ پر لگائے گئے زخموں سے برابر لہو رستا چلا جا رہا تھا۔۔۔مگر۔۔۔مگر کوئی بھی مرہم پٹی کرنے والا دور دور تک نظر نہیں آ رہا تھا___میرے خیال سے شاید کہ اب یہ زخم مندمل ہونے میں کہیں ایک زمانہ نہ لگ جائے۔
یہ شرپسند عناصر جے شری رام کے نعروں میں گم ہوکر کئی ایک مسلم دکانیں نذر آتش کر چکے تھے اور اب تک برابر کرتے چلے جا رہے تھے۔۔۔ارے ہاں! یہ بھیانک تصویر تو دیکھیے ان لوگوں نے خانہ خدا کو خاص نشانہ بنایا تھا۔ایک مسجد میں تو اس طرح توڑ پھوڑ کی کہ قرآن کے اوراق وائرل ویڈیو میں زمین پر بکھرے نظر آئے۔۔۔مسجد کے میناروں پر چڑھ کر یہ زبردستی بھگوا جھنڈا لہرا رہے تھے ۔۔ایک جگہ پولیس کا یہ گھناؤنا چہرہ بھی کھل کر سامنے آیا کہ کچھ خاکی وردی والے روڈ کنارے درد و زخم سے چور پڑے چند مظلوموں سے زبردستی جے شری رام اور وندے ماترم پڑھنے کی بڑے گندے لہجہ میں فٹکار لگا رہے تھے۔
یہ منظر سچ میں گجرات ماڈل کا درست ترجمانی کر رہا تھا۔گجرات فساد کی بھیانک تصویر اب تک ہر انصاف پرور افراد کے ذہن و دماغ میں تازہ ہو چکی تھی۔سوشل میڈیا کے ناظرین اسے مودی کی زبردست اندازے پر دوسرا گجرات بنانے کی داؤ سے تعبیر کر رہے تھے۔آج پوری دنیا دہلی کی بے بسی پر آنسو بہا رہی تھی۔۔۔ہر طرف غموں کا ایک پہاڑ تھا۔۔۔مہیب سائے دہلی کی جمنا پار علاقے میں مکمل طور سے قابض تھے۔۔۔ہر ایک اپنے اپنے گھروں میں بند تھے۔۔۔ہر طرف سے رونے بلکنے اور چیخنے چلانے کی آوازیں آرہی تھیں۔کتنوں کا سہاگ اجڑ چکا تھا۔۔۔اور نہ جانے کتنوں کی خود ان کی آنکھوں کے سامنے زندگی کا سہارا ان شرپسندوں نے لوٹ لیا تھا ۔مگر افسوس!!! کہ اس وقت جہاں سیاست کے اعلی کمال سنبھالنے والے ٹرمپ خاندان کی آؤ بھگت کرنے میں تن من دھن سے مصروف تھے وہیں ملک کی مین اسٹریم میڈیا دہلی فساد کو بین الاقوامی کوریج دینے کے بجائے بس مودی و ٹرمپ کی نشست و برخواست کو ہی اجاگر کر رہے تھے۔۔۔
۔ہائے ! اب تو وہ دہلی جس کا زمانے بھر میں نام تھا۔۔۔۔وہ جل چکا ہے۔۔۔۔لٹ چکا ہے ۔۔۔۔لہو سے اس کا سینہ سرخ ہو رہا ہے۔۔۔۔اور دہلی کی آب و ہوا برابر یہ گوہار لگاتی چلی جا رہی ہے کہ
تجھ کو کتنوں کا لہو چاہیے اے ارضِ دہلی
جو تیرے عارضِ بے رنگ کو گلنار کریں
کتنی آہوں سے کلیجہ تیرا ٹھنڈا ہو گا
کتنے آنسو تیرے صحراؤں کو گلزار کریں
تیرے ایوانوں میں پرزے ہوئے پیماں کتنے
کتنے وعدے جو نا آسودۂ اقرار ہوئے
کتنی آنکھوں کو نظر کھا گئی بد خواہوں کی
خواب کتنے تیری شاہراہوں میں سنگسار ہوئے