آواز: عوام سےایڈیٹر کے نام

2012 کا عمر بن عبدالعزیز۔۔۔

یہ ان دنوں کی بات ھے جب سید منور حسن صاحب امیر جماعت اسلامی کی زمہ داری پر فائز تھے اور منصورہ مرکز میں جماعت کے دئیے گئے چھوٹے گھر میں رہائش پزیر تھے ..انہی دنوں میں حضرت کی ایک بیٹی کی رخصتی بھی منصورہ کے اس مسافر خانے سے طے ہوئی …امیر جماعت ہونے کی وجہ سے پاکستان بھر سے سماجی وسیاسی شخصیات نے شادی کی تقریب میں شرکت کی اور بڑی پیمانے پر تحفے تحائف موصول ہوئے..

جب شادی ہو چکی تو حضرت نے جان جگر بیٹی کو مخاطب کیا اور پوچھا کہ بیٹی تجھے یہ اتنا مال اور تحفے منور حسن کی بیٹی ہونے کی وجہ سے ملے ہیں یا امیر جماعت اسلامی کی بیٹی ہونے کی وجہ سے ؟؟؟
تو بیٹی نے جواب دیا کہ یہ تو میں جماعت اسلامی کے امیر کی بیٹی تھی اسی وجہ سے لوگوں نے اتنے بڑی پیمانے پر اتنا سامان اور تحفے دئیے ہیں…

تو جناب سید منور حسن نے کہا کہ ۔۔۔

“بیٹی جب یہ جماعت کے نام کی وجہ سے آئے ہیں تو اس پر نہ میرا حق ھے نہ تیرا اور وہ سارا مال بیت المال میں جمع کرکے پرچی وصول کی جس کا تخمینہ قیمت 55 لاکھ روپے تھی”

اس کو کہتے ھیں دیانت اور امانت۔۔۔
سیف الرحمن صاحب کہتے تھے کہ جب حضرت امارت سے سبکدوش ھوئے اور کراچی جانے کے لئے سامان سفر باندھ کر روانہ ھوئے تو حضرت کی کل جمع پونچی صرف ایک بیگ ہی تھا جس میں صرف پہننے کے کپڑوں کے علاوہ کچھ نہیں تھا یہ دیکھ کر آنکھوں میں آنسوں آ گئے۔
اللہ تاحیات سلامت رکھے ایسے درویشوں کو ..

اٹھے گا پھر کوئی رومی عجم کے لالہ زاروں سے
یہ وہی آب و گل وہی تبریز ہے ساقی…

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

error: Content is protected !!