شخصیاتمضامین

جہاد زندگانی میں۔۔۔

شہلا کلیم

۱۴ فروری یعنی ہندوستان میں مغلیہ حکومت کے بانی اول شہنشاہ ظہیر الدین بابر کا یوم پیدائش جس نے نازک ترین حالات میں مبتلا ہونے کے باوجود مٹھی بھر سپاہیوں کے ذریعے بر صغیر میں ایک ایسی مضبوط اور مستحکم حکومت کی بنیاد ڈالی جس کے فرمانرواں صدیوں تک اس ملک پر بڑی شان اور دبدبے کے ساتھ حکومت کرتے رہےـ
1483ء میں پیدا ہونے والے اس شیر دل جوان کی ماں پیار سے انہیں بابر (شیر) کہتی تھی ـ ظہیر الدین بابر کے والد عمر شیخ مرزا "امیر تیمور” کے پوتے تھےـ بابر باپ کی طرف سے تیمور اور ماں قتلغ نگار خانم کی طرف سے چنگیز خاں کی نسل سے تھے اس طرح ان کی رگوں میں دو بڑے فاتحین کا خون تھا۔ امیر تیمور کے بعد کیونکہ انکی وسیع سلطنت ان کے بے شمار بیٹوں اور پوتوں میں تقسیم ہو چکی تھی اس لیے بابر کے باپ عمر شیخ مرزا کو صرف فرغانہ کی چھوٹی سی حکومت مل سکی جس کا پایہ تخت اندرجان تھا اور چند دوسرے چھوٹے چھوٹے علاقے شامل تھےـ

بارہ برس کی عمر میں جبکہ خود ان کے والد کی عمر ۲۵ سال تھی اچانک باپ کا سایہ سر سے اٹھ گیاـ ان کے انتقال کے بعد محض بارہ برس کی عمر میں بمقام اندرجان حکومت فرغانہ پر تخت نشین ہوئےـ ابھی تخت نشینی کو کچھ عرصہ ہی گزرا تھا کہ چچا سلطان احمد مرزا اور ماموں محمود خاں نے شورش برپا کردی جس کی وجہ سے گیارہ برس تک پریشان رہے۔

بابر کو چچا اور ماموں سے فرصت ملی تو عمال حکومت نے بغاوتیں شروع کر دیں ـ باغیوں کی سر کوبی سے فرصت ملی تو چچا کے علاقے کا رخ کیا اور سمر قند کو بھی فتح کر لیاـ اسی دوران سمرقند میں بیماری میں مبتلا ہوئے اور مجبورا سمرقند چھوڑ کر اندرجان کیلیے روانہ ہونا پڑا لیکن راستے میں علم ہوا کہ غیر موجودگی میں بھائی جہانگیر خاں نے فرغانہ کی حکومت پر قبضہ جما لیا ہے اور اندر جان کا محاصرہ کر رکھا ہے یعنی بابر کو سمرقند بھی چھوڑنا پڑا اور اپنی حکومت بھی ہاتھ سے نکل گئی ـ لیکن اس ہمت و استقلال کا کیا کیجیے جو چین سے نہ بیٹھنے دیتا تھاـ حوصلہ مندی کا اس سے بڑھ کر ثبوت اور کیا ہو سکتا ہے کہ وہ فرغانہ کی چھوٹی سی ریاست کے ایک معمولی سے رئیس سے ترقی کرتے کرتے ایک بہت بڑی مملکت کا بادشاہ بن بیٹھےـ

ظہیر الدین بابر چاہتے تھے کہ وہ کسی طرح ہندوستان کے بادشاہ بنے لیکن نہ تو ان کی مالی حالت ایسی تھی کہ وہ اتنے بڑے ملک پر حملہ کر سکتے اور پے در پے شورشوں کے بعد نہ فوجی طاقت ہی قابل اطمینان رہ گئی تھی چنانچہ وہ ہندوستان پر حملے سے گریز کرتے رہے ـ بابر کی یہ خوش نصیبی تھی کہ انہیں زیادہ مدت انتظار نہ کرنا پڑا کیونکہ ہندوستانی حکومت کے خلاف اچانک ہندوستانی امراء اور عمال میں سخت ناگواری پیدا ہو گئی اور یہ ناگواری اس حد تک بڑھی کہ لودھی حکومت کے عمال اور امراء نے بابر کو ہندوستان پر حملے کی دعوت دے ڈالی کہ وہ انہیں ظالم حکومت سے نجات دلائے ـ حاکم پنجاب دولت خاں اور ابراہیم لودھی کے چچازاد بھائی علاءالدین کے علاوہ چتوڑ کے راجہ رانا سانگا نے بھی بابر کو ہندوستان آنے کی دعوت دی اور بابر کو ہر طرح کی مالی اور فوجی امداد کا یقین دلایا تھاـ رانا سانگا نے یہ بھی یقین دلایا تھا کہ ہندوستان کا ہر راجپوت بچہ اس معرکہ میں بابر کے ساتھ اپنی جان قربان کرنے کیلیے تیار ہےـ ان دنوں امرائے سلطنت پر سلطان کے مظالم انتہا کو پہنچ چکے تھے بابر جو ہندوستان کی حکومت کے خواب سجائے ہوئے تھے اس سنہرے موقع کو ہاتھ سے کیوں جانے دیتے چنانچہ موقع غنیمت جان کر ہندوستان پر حکومت کی تیاریاں شروع کر دیں اور پھر پشاور ، پنجاب کو فتح کرتے ہوئے دہلی کی جانب قدم بڑھائے تو پانی پت کے تاریخی میدان میں سلطان ابراہیم لودھی کے عظیم الشان لشکر سے مقابلہ کرنا پڑاـ لودھی کا لشکر اگر چہ بابر کی فوج سے دس گنا بڑا تھا لیکن اس جنگ میں بابر کی فتح اور ابراہیم لودھی کو شکست ہوئی اور اس طرح ہندوستان سے لودھی حکومت کا ہمیشہ کیلیے خاتمہ ہو گیاـ لودھی خاندان نے ہندوستان پر تقریبا ۶۸ سال حکومت کی اور ابراہیم لودھی نے ہندوستان میں بیس سال حکومت کی اور شاید لودھی خاندان کا چراغ ابھی گل نہ ہوتا اگر اس خاندان میں ابراہیم لودھی جیسا ظالم مغرور اور ناعاقبت اندیش بادشاہ پیدا نہ ہوتاـ

بابر نے پانی پت میں فتح حاصل کرنے کے بعد دہلی کو زیر کیاـ اس کے بعد آگرہ پر قبضہ جمایا اور پھر اپنی حکومت کی بنیادیں مضبوط کرنے کیلیے اپنے بیٹے ہمایوں کے ساتھ جدید فتوحات کا سلسلہ شروع کیا اور بہت کم مدت میں بہت سی ریاستوں کو فتح کرتے ہوئے رانا سانگا کو شکست دی، میوات اور چندیری کو فتح کیا، بہار اور بنگال میں فتوحات حاصل کیں ـ غرضکہ چند سال کے اندر بابر نے مغلیہ حکومت کو وسعت دے دی لیکن بابر کی عمر نے وفا نہ کی ابھی وہ مغلیہ حکومت کو مکمل طور پہ مستحکم بھی نہ کر سکے تھے کہ ۱۵۳۰ء میں ان کا انتقال ہو گیاـ بابر نے ہندوستان میں کل پانچ سال حکومت کی لیکن اس قلیل مدت میں وہ اپنے جانشینوں کیلیے بہت بڑی سلطنت چھوڑ گئے اور بابر کے بعد ان کا بڑا بیٹا نصیر الدین ہمایوں مغلیہ حکومت کے تخت پر بیٹھاـ اس طرح ہندوستان میں اس مغلیہ دورِ حکومت کا آغاز ہوا جس نے صدیوں اور سب سے طویل مدت تک ہندوستان میں پاؤں جمائے رکھے اور بالآخر اپنے آخری فرمانرواں بہادر شاہ ظفر کی انگریزوں سے شکست فاش پر اختتام کو پہنچی ـ

مغلیہ حکومت کے بانی شہنشاہ ظہیر الدین بابر محض فن سپاہ گری کے ماہر نہ تھے بلکہ موسیقی اور ادب سے بھی لگاؤ تھاـ وہ فارسی اور ترکی زبانوں کے شاعر تھے تزک بابری ان کی مشہور تصنیف ہے جس سے پتا چلتا ہے کہ وہ نہ صرف تلوار کے دھنی تھے، بلکہ قلم کے بھی بادشاہ تھے۔
اور آخری مغل بادشاہ بہادر شاہ ظفر خود ایک علم دوست بادشاہ تھے ـ شاعری میں ظفر تخلص کرتے تھے اور استاد ذوق کے بعد غالب کی شاگردی اختیار کی۔
سن 57 کا غدر اس نام نہاد بادشاہ کے دور کا سب سے بڑا اور آخری واقعہ ہےـ ۱۸۵۷ کا غدر ہندوستان کی وہ انقلابی جنگ ہے جس کو اگر منظم طریقے پر لڑا جاتا تو انگریزوں کے پاؤں اسی وقت اکھڑ گئے ہوتے لیکن افسوس یہ ہے کہ اس جنگ آزادی میں دہلی، میرٹھ، کانپور، جھانسی اور لکھنؤ کے علاوہ کسی شہر نے حصہ نہیں لیا بلکہ سارے ہندوستان نے الٹا انگریزوں کی مدد کی ـ اس لیے یہ جنگ آزادی ناکام ہو کر رہ گئی اور اس کا خمیازہ شاہی خاندان اور خصوصی طور پر مسلمانوں کو بھگتنا پڑا اور کئی مرتبہ اجڑنے والی دہلی اس بار کچھ ایسے اجڑی کہ پھر بس تو گئی مگر غالب کی دلی نہ رہی۔

مقام حیرت تو یہ ہے کہ جن شر پسندوں کا سن ستاون کے انقلاب اور جنگ آزادی سے دور کا بھی واسطہ نہیں ان کی نسلیں آج مغلیہ حکومت کو گالیاں دیتے نہیں تھکتی ـ جو ہمیشہ ان انگریزوں کے وفادار رہے جنہوں نے سونے کی چڑیا کو لوٹ کر اپنے خزانے بھر لیے اور سر زمین ہند کو کنگال کر گئے وہ اس مغلیہ حکومت کی تاریخ اپنے شامل نصاب ہونے پر شکوہ کناں نظر آتے ہیں جس حکومت نے اگر اس ملک سے لیا تو اسی کو لوٹا بھی دیا، وہ اسی خاک سے اٹھے اور اسی میں مل گئےـ مغلوں کو باہر کے لوگ اور گھس پیٹھیے جیسے القابات سے نوازنے والے تاریخ سے نابلد ناہنجازوں کو معلوم ہونا چاہیے کہ سر زمین ہند پر قدم رکھنے والی سب سے پہلی باہری قوم کوئی اور نہیں بلکہ وہ آریے تھے جنہوں نے ہند کے مقامی باشندوں کو جنگلوں کی طرف کھدیڑ دیا اور انہیں آدیواسیوں کی زندگی جینے پر مجبور کیاـ یہ وہی آریے ہیں جنہوں نے گاہے گاہے اپنے مفادات کیلیے مقامی لوگوں کو بلی چڑھایاـ مقامی لوگ قبائلی طرز زندگی کے باعث اونچ نیچ کا شکار تھے لیکن ان قدیم ہندوستانی باشندوں میں مذہبی بنیاد پر نسلی تفریق نہیں تھی جس کو آریوں نے مذہب کا رتبہ دے کر ناقابل تنسیخ بنا دیا تھاـ مذہبی پیشواؤں نے اپنے فائدے کی وجہ سے اور اپنے لیے زیادہ سے زیادہ حقوق حاصل کرنے کیلیے اس طبقاتی نظام کو مضبوط سے مضبوط کر دیاـ

ان مذہبی پیشواؤں نے سماج کو چار حصوں میں تقسیم کر دیا اور ان کے حدود بھی متعین کر دیےـ پہلی اور اعلی قسم میں برہمن میں خود یہ مذہبی پیشوا تھے جنکا رتبہ اتنا بلند تھا کہ خود شہنشاہوں کو انہیں ناراض کرنے کی ہمت نہیں تھی ـ دوسری قسم کشتوریہ تھی جس میں جنگجو لوگ شامل تھے اور انکا کام دشمن سے جنگ کرنا تھاـ تیسری قسم ویش تھی جنہیں کاشتکاری کا ذمہ سونپ دیا گیا اور چوتھی قسم میں وہ شودر تھے جنہیں کل بھی اچھوت سمجھا جاتا تھا اور یہ سلسلہ تاہنوز جاری ہےـ
اس پورے پس منظر کا خلاصہ یہ ہے کہ آزادی کے بعد سے آج تک مسلمانوں کا وجود انہی لوگوں کی آنکھوں میں کھٹکتا ہے یہ مغلوں کی تاریخ سے محض اسلیے آنکھ چراتے ہیں کیونکہ وہ تاریخ خود انہیں آئینہ دکھاتی ہےـ لیکن مقام افسوس تو یہ کہ خود ہماری قوم کے جوان یا تو اپنی ہی تاریخ سے بلکل نابلد ہیں یا پھر دوسروں کی تاریخ فراموش کرکے صرف اپنے دائرے تک محدود ہیں نتیجتا جب شر پسندوں کی جانب سے ان کی جانب انگلی اٹھائی جاتی ہے وہ کم علمی کے باعث بغلیں جھانکتے نظر آتے ہیں ـ
خود کو بابر کا جانشین سمجھنے والو!

یقیں محکم، عمل پیہم، محبت فاتح عالم
جہاد زندگانی میں یہ ہیں مردوں کی شمشیریں

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

error: Content is protected !!