اسلامی طرزِحکمرانی میں حاکمِ وقت ہی امن وانصاف اور مظلوموں کا ذمہ دار ہوتا ہے: جماعتِ اسلامی
بیدر میں جماعت اسلامی کے ہفتہ واری اجتماع میں حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا طرز حکمرانی پر سید ابراہیم کا خصوصی خطاب
بیدر: 2/فروری (اے این بی) اسلامی حکومت میں جو حاکمِ وقت ہوتا ہے وہ آفاقی پیغام، کام اور مقصد کو پسِ پشت نہیں ڈالتا بلکہ اولین اور ترجیحی بنیاد پر یہ کام انجام دیتا ہے۔ جبکہ عام حکمران اسلامی طرز حکمرانی کو بھلا کر مختلف اصول اور قوانین یا اپنی من پسند خواہشوں کے مطابق کی چیزوں کو اپنا مقصد یا طرزحکمرانی بنا لیتا ہے جس کی وجہ سے مسائل، مشکلات اور حق و انصاف کے بجائے ظلم ناانصافی تشدد اور مختلف دیگر ایسی برائیاں اور چیزیں معاشرے کا حصہ بنتی ہیں جس سے انسان کے لیے سوائے نقصان کے اور کچھ حاصل نہیں ہوتا۔ ان خیالات کا اظہار سیدابراھیم صدر ویلفیئر پارٹی آف انڈیا بیدر سٹی نے جماعت اسلامی ہند بیدر کے زیر اہتمام ہفتہ واری اجتماع مسجد ابراہیم مین روڈ بیدر میں خصوصی خطاب کرتے ہوئے کیا۔
انہوں نے اپنی تقریر ‘حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہٗ کا طرز حکمرانی’ پر خطاب کرتے ہوئے اسلامی طرز حکومت اور اور دیگر طرز حکومت کا سرسری جائزہ لیا، کہا کہ سیاسی قوت اس وقت بہت سارے ممالک میں ہے جبکہ سماج اپنی سماجی حقوق کو تسلیم کرتا ہے اور حکومت کے پاس وسائل کی طاقت ہوتی ہے اسی بنا پر وہ اقتدار جب حاصل کرتی ہے تو حکمران حکومت کے وسائل پر اپنے طور طریقوں سے دسترس حاصل کرتے ہیں۔ جبکہ حضرت عمر رضی اللہ تعالی عنہ نے اپنے طرز حکمرانی میں جن اہم شعبہ جات پر خصوصی توجہ دی ان میں تعلیم، صحت اور اسلام کا فروغ ہے۔ ان کے اکثر اصولِ حکمرانی کے تصورات آج تک دنیا میں نافذ ہیں۔ جس طرح سے جیل خانے، وظیفے کا تصور، بڑے بڑے شہروں میں سراۓ وغیرہ۔ آج بھی دنیا کے مختلف ممالک کی حکومتوں میں حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے طرز حکمرانی کا نمونہ پیش کرتے ہیں۔انہوں نے اس موقع پر خصوصیت کے ساتھ اسلامی جمہوریت اور طرز حکمرانی کے منفرد کرنے والے حوالہ سے بات کرتے ہوئے کہا کہ اسلامی جمہوریت میں یا طرز حکمرانی میں پیسہ، اقتدار کی خواہش، قومیت وطنیت، طاقت اور شہرت نہیں ہوتی بلکہ خدمتِ خلق اور احساسِ ذمہ داری وجوابدہی کا عنصر پایا جاتا ہے۔ اسلامی حکومت کا اصل مقصد و منصبِ حکمرانی یہی ہے۔ واضح رہے کہ ایک اسلامی حکومت کا حاکم اپنی حکومت کے ذریعہ سے بھی رضائے الہی کا حصول چاہتا ہے۔
انہوں نے اسلامی طرز حکومت پر مزید کہا کہ اسلامی حکومت میں ہونے والے فیصلے اللہ کے احکام کے مطابق ہوتے ہیں اور رسول اللہ صل اللہ علیہ وسلم کی شریعت، آیات اور احادیث کی روشنی میں ہوتے ہیں اور حاکم وقت خوف خدا کا زبردست نمونہ پیش کرتا ہے کہ وہ اسے اللہ کے ہاں جواب دینا ہے۔ یہی احساس جوابدہی اسلامی طرز حکومت میں ایک حاکم کو عدل و قسط، امن وسکون اور بہترین معاشرے کی تشکیل کا ذمہ دار قرار دیتی ہے، جب اس معاشرے میں ظلم نا انصافی بڑھتی ہے تو اس کا راست طور پر حاکم وقت جوابدہ ہوتا ہے یہ اسلامی طرز حکومت کا منفرد اور نمایاں پہلو ہے۔ اسی طرح حضرت عمر رضی اللہ تعالی عنہ مختصر سے وقت میں اسلامی طرز حکومت کا جو بہترین نمونہ ساری دنیا کے سامنے پیش کیا اور اسلامی طرز حکومت کو انسانیت کی دنیاوی اور اخروی فلاح و بہبودی اور کامرانی و کامیابی کا بہترین ذریعہ قرار دیتے ہوئے تقریبا آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہٗ نے آدھی سے زیادہ دنیا پرحکومت کی ہے۔ کیونکہ اسلامی طرز حکومت میں اللہ کی رضا اور اللہ کی زمین پر اللہ کی مرضی کے ساتھ اللہ ہی کا قانون نافذ کیا جانا اسلامی حکومت کی بنیادی اور اولین شرط ہے، جس سے انسانوں کو انسانوں کی غلامی سے آزاد کرایا جاتا ہے اور مساوات کی ایک بہترین مثال اسلامی طرز حکومت میں ملتی ہے۔ اسلامی طرز حکمرانی میں شورائیت اہم ہوتی ہے، جہاں پر مشورے سے فیصلے اور اس پر عمل ہوتا ہے۔
جہاں طاقت، شہرت اور مال کی بنیاد پر نہیں پر بلکہ خوف خدا کی بنیاد پر اس کے رتبے کا، اس کے مقام ومرتبہ کا علم صرف اللہ کو ہوتا ہے۔ جس سے حاکم وقت بھی ہو یا پھر عام رعایا، تمام مساوات کے مستحق اور برابر قرار دیے جاتے ہیں۔ اسلامی طرز حکومت میں عدل و قسط ایک بنیادی چیز ہے جس پر شورائی نظام کے ساتھ طرز حکمرانی کی جاتی ہے بلاشبہ ہر دور میں مختلف مسائل اور مشکلات اور پریشانیاں رہی ہیں اورہوتی آئی ہیں ایسے حالات میں اسلام شورائیت کے ساتھ اجتہاد کی طرف رہنمائی کرتا ہے۔ اور مشوروں کی بنیاد پر فیصلے ہوتے ہیں۔آج امت مسلمہ اور ہر انسان کویہ جاننے کی ضرورت ہے کہ خلیفتہ الارض ہونے کی حیثیت سے زمین کے تمام نعمتیں جو اللہ کی امانت ہیں اس میں خیانت کرنے کا اختیار کسی کو نہیں ہے جب خیانت ہوگی تواس سے متعلق پوچھا جائے گا جس کی ذمہ دی گئی تھی۔
انہوں نے بتایا کہ انسان اگر خلیفۃ الارض کا ایک عظیم فرض منصبی سمجھ کر اس کام کو انجام نہیں دیتا تو اسے اس کی جگہ پر دوسرے لوگوں کو کھڑا کرنے کی بات واضح طور پر سورہ توبہ کی آیات ہمیں ملتی ہے اور یہ انبیائی اور بڑے شرف کا کام ہے۔ شعوری طور پر بالخصوص مسلمانوں کو خلیفۃ الارض ہونے کا فرض احساس ذمہ داری کے ساتھ شعوری طور پر انجام دینے کی ضرورت ہے۔ اسی لیے جب فرد اپنے اوپر اللہ کے قوانین کو نافذ کر لے گا تو وہ اپنے گھریلو، سماجی، سیاسی، معاشی، معاشرتی اور دیگر تمام شعبہ زندگی میں اللہ کی مرضی کولاگو کرنے اور اس پر چلانے کا اہل ہوگا اور خوف خدا اسی کا مظہر ہو گا۔اس بات کی طرف توجہ دلائی کہ اسلام اصل میں اجتماعیت اور سماجی قوت کے ساتھ ہماری طاقت بنتی ہے تو سیاسی طاقت خودبخود رونما ہوتی ہے جس سے اقتدار کا حصول ہوتا ہے جب اقتدار ملے گا تو کا قیام عدل وقسط حکومت کے ذمہ ہوگا یہی اسلامی طرز حکمرانی ہے اور یہی حاکم وقت یا اسلامی حکومت کا حاکم اعلی کو اختیار دیا گیا ہے۔ یہ حکومت بظاہر نہیں چلتی بلکہ انسانوں کے اندر انفرادی طور پر ان کی کامیابی کا ضامن بھی بنتی ہے نہ صرف دنیا کو بدلنے کا ایک مظہر ہے بلکہ دلوں اور دماغوں کو تک بدل کر رکھ دیتی ہے جس سے ایک صحت مند اور برائیوں سے پاک معاشرے کی تشکیل ممکن ہے کیونکہ یہی الہی ہے ہدایت کے مطابق معاشرے کی تشکیل کا کام اسلامی طرز حکومت کے حکمرانوں کو کرنا ہوتا ہے یہی ان کی سب سے بڑی ذمہ داری ہے۔
ایک آیت کے حوالے سے انہوں نے اپنے خطاب کے آخر میں کہا کہ جو خلیفۃ الارض ہے وہ اپنی طاقت حیثیت اور اسباب پر بھروسہ نہیں رکھتے بلکہ ہلکے ہو یا بوجھل اللہ کی راہ میں نکلتے ہیں جد وجہد کرتے ہیں اور کامیابی ان کی ختم جومتی ہے اسی لیے واضح طور پر یہ تاریخ ملتی ہے کہ اکثریت پر اقلیت ہی کا غلبہ ہوا کیونکہ انہوں نے للہیت، عزم اور حوصلے کے ساتھ اور حق کی جانب کھڑے رہے تھے اس موقع پرانہوں مومنین میں احساس کمتری کی سختی کے ساتھ تردید کی کہ ایک مومن یا پر اسلامی طرز حکومت کا نمونہ پیش کرنے والی قوم میں احساس کمتری نہیں ہونی چاہیے۔
اس موقع پر جناب محمد نظام الدین صاحب امیر مقامی جماعت اسلامی ہند شہر بیدر نے حالیہ بجٹ 2020 کے متعلق مختلف باتیں بڑی وضاحت کے ساتھ اپنے اختتامی خطاب میں رکھی اور انہوں نے بجٹ کے سلسلہ میں یہ بات بھی بتائی کہ اعتدال پر مبنی بجٹ کی اسلام تاکید کرتا ہے۔ اسی لیے نہ تو اسلام زیادہ فضول خرچی کی حمایت کرتا ہے اور نہ ہی بخل سے کام لینے کے احکامات ہمیں ملتے ہیں۔ جبکہ اعتدال کے ساتھ خرچ کی تعلیم اور اسلامی طرز حکومت میں دیکھنے کو ملتے ہیں۔ اجتماع کا آغاز قرآن کلام پاک کی تلاوت سے ہوا جسے جناب محمد مشتاق صاحب پیش امام مسجد ھذا اور محمد فضل احمد صاحب نے منتخب مضمون پیش کیا۔ جبکہ قاری وخطیب سید سلام اللہ صاحب نے سورہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی منتخب آیات 29 سے38 کا درس قرآن ان پیش کیا۔ مختلف اعلانات اور اختتامی خطاب کے بعد امیر مقامی کی دعا پر یہ اجتماع اپنے اختتام کو پہنچا۔ کثیرتعدادمیں وابستگان جماعت اور دیگر افراد موجود رہے۔