ضلع بیدر سے

موجودہ حالات میں مسلمانوں کو داعیانہ کردار اور قائدانہ رول ادا کرنا ہوگا: جماعتِ اسلامی

بیدر جماعت اسلامی کے ہفتہ واری اجتماع میں “مکی حالات اور موجودہ حالات- تقابل اور لائحہ عمل” پر الطاف امجد کا ولولہ انگیز خطاب

تاریخ اسلام کا مطالعہ کریں تو اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے مکی دور میں دو اہم چیزیں نمایاں طور پر پر دیکھنے کو ملتی ہیں، پہلی چیز دعوت اور دوسری چیز صبرواستقلال ہے، جو ایک دوسرے سے مربوط ہے۔ مکی دور میں جس وقت رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی نبوت کا اعلان کیا تھا اس سے قبل اور اس کے بعد بہت ساری معاشرتی برائیاں عروج پر تھیں۔ دورِ جاہلیت میں عورت پر ظلم و ستم اور استحصال، لڑکیوں کا زندہ درگور کرنا اور مشرکانہ رسومات، شراب و جوا اور دیگر کئی ایک برائیوں کا دور دورہ رہا۔ اگر ہم آج کے حالات پر نظر دوڑاتے ہیں تو ہمیں آج بھی اُسی قسم کی یا پھر اس سے کہیں زیادہ بڑھ کر برا ئیاں ہمارے معاشرے میں پائی جاتی ہیں۔ ان خیالات کا اظہار الطاف امجد رکن جماعت اسلامی ہند بسوا کلیان نے بیدر میں منعقدہ “مکی حالات اور موجودہ حالات۔ تقابل اور لائحہ عمل” موضوع پر خصوصی خطاب کرتے ہوئے کیا۔

موصوف مولانا سید ابوالاعلی مودودی ہال، بیدر میں اپنا خطاب جاری رکھتے ہوئے کہا کہ آج بھی عورت پر ظلم و ستم اور استحصال کیا جاتا ہے، لڑکیوں کو زندہ درگور، جنین کشی، اسقاط حمل وغیرہ برائیاں آج بھی ہمارے معاشرے میں دیکھنے کو ملتی ہیں، جو سراسر ظلم ہے۔ شراب وہ جوئے کا عام ہونا، سود کا چلن، حقوق انسانی کی پامالی، ظلم و ستم کا عروج وغیرہ آج بھی موجود و جاری ہیں۔ ایسے ماحول اور معاشرے میں بحیثیت مسلمان دعوت الی اللہ کے فریضہ کو انجام دینے کی اپنی حد المقدور کوشش جاری رکھنے کی ضرورت ہے۔ بلاشبہ اسلام کے داعی کے لیے چیلنجز اُس وقت بھی تھے اور آج بھی ہیں۔ اس میں کوئی دو رائے نہیں لیکن دعوتِ دین کے لیے جتنے وسائل اور ذرائع آج موجود ہیں شاید کی تاریخ میں کبھی اتنے ذرائع اور وسائل کسی داعی اسلام کو میسر آئے ہوں۔ بشرطیکہ ہم مخلص ہوکر دعوت دین کے لیے ان وسائل کوصحیح استعمال کیا جائے۔

انہوں نے مکی دور اور موجودہ دور کے مختلف واقعات کا بہترین تجزیہ کرتے ہوئے یہ بات ہمیں اچھی طرح سمجھ لینی چاہیے کہ دور جاہلیت ہویا دورِ علمیت، برائیوں کا معاشرے میں پنپنا اور انسانوں میں انسانیت کی عظمت کا ختم ہوجانا یہ دورِ جہالیت کی نمایاں پہچان پیش کرتا ہے۔ خطاب کے دوران انہوں نے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے دور میں پیش آنے والے مختلف واقعات کا تذکرہ کیا۔

انہوں نے دوران خطاب موجودہ حالات اور مکی حالات کا موازنہ کرتے ہوئے لائحہ عمل کے متعلق کہا کہ موجودہ حالات انقلابی اور تبدیلی کے لئے منتظر ہیں، شرط یہ ہے کہ ان حالات کا باریک بینی سے تجزیہ ہو، منظم طور پر دعوتی کام کو تیزی کے ساتھ اپنایا جائے۔ اور وہی لائحہ عمل کو اپنایا جائے جو اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنایا تھا۔ ظلم یا برائی کا جواب اچھائی اور انصاف کے ساتھ دئیے جانے کی ضرورت ہے۔ موجودہ حالات بظاہراسلام اور مسلمانوں کے لیے مخالفت میں نظر آتے ہیں، اسلاموفوبیا کا شکار اور اسلام دشمن طاقتیں بڑے منصوبہ بند اور منظم طور پر اس بات کی کوشش کررہےہیں کہ اسلام اور مسلمانوں کو نہ صرف پریشان کیا جائے، بلکہ ان کی تہذیب و تمدن اور شناخت پر بھی زبردست اور رکیک حملے بڑے منظم اور منصوبہ بند طریقے سے جاری رکھے ہوئے ہیں۔ لیکن اسلام دشمن طاقتوں کے اندر ایک قسم کی بے چینی پائی جاتی ہے وہ اب ہمارے ملک میں بڑی تیزی سے پھیل چکی ہے۔ دشمنان اسلام چاہتے یہ ہیں کہ اسلام کا غلبہ نہ ہو اورمسلمان غالب نہ ہوجائیں، جبکہ اسلام تمام ادیان پرغالب ہو کر رہے گا۔

قرآن کی آیتوں کے حوالے سے انہوں نے صبرو استقامت کے ساتھ دعوت دینے کی طرف توجہ دلائی۔ اور اپنے عائلی خاندان کو منظم اور مضبوط طور پر پیش کرنے کی تلقین کی۔ عیش وعشرت کی زندگی سے آگے بڑھ کر فکری اور عملی طور پر اپنے آپ کو تیار کرتے ہوئے امت مسلمہ کو قائدانہ رول ادا کرنا ہوگا۔

خطاب کے آخرمیں مولانا مودودی علیہ رحمہ کے حوالے سے مرجع خلائق بننے کی طرف اپنے خطاب میں پرزور تاکید کی، باطل سے بغاوت سہی لیکن حق کے لیے کمربستہ ہونا بھی مسلمانوں کا شیوا ہونا چاہیے۔ دعوت الی اللہ کی راہ میں آنے والی مختلف رکاوٹوں کے بارے میں بھی انہوں نے تذکرہ کرتے ہوئے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی سیرت سے رہنمائی کی طرف توجہ دلائی آپ صلی اللہ علیہ وسلم پر لگائے گئے بہتان تراشی اور الزامات کے حوالے سے بھی انہوں نے اپنے خطاب میں نے دعوت جاری رکھنے کے واقعات پیش کیے۔

جناب اکرم علی صاحب ناظم ضلع جماعت اسلامی ہند، بیدر نے سورہ الاعراف کی منتخب آیات کا درس قرآن پیش کرتے ہوئے کہا کہ ایمان بہت بڑی نعمت ہے اور صبر سب سے بڑی طاقت ہے اور اللہ کی مدد و استعانت اسی وقت ممکن ہے جب ایمان اور صبر کے ساتھ جدوجہد جاری رکھی جائے۔ مومنین کی صفات بتاتے ہوئے انہوں نے حکمت عملی کو اپنایا جائے اور اشتعال انگیزی سے پرہیز کرتے ہوئے صبر کے ساتھ اپنے مشن کو جاری رکھنا، مومنین کا شیوہ رہا ہے۔ انہوں نے زمین و آسمان کی ملکیت کا مالک اللہ تعالی کو قرار دینے والی آیت کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ یہ تمام چیزیں جب ملکیت خدا کی ہے تو ہم اس کے محکوم بندے ہیں اور انسانی حقوق کی جہاں کہیں پامالی ہوتی ہے تو وہاں پر اللہ تبارک تعالی کی سنت رہی ہے کہ ظالم حکمرانوں سے اقتدار چھین لیتا ہے اور جو اس کے اہل ہوتے ہیں انہیں اقتدار سے نوازتا ہے۔اپنے درسِ قرآن میں انہوں نے عزم و حوصلے کے ساتھ اللہ ہی سے مدد حاصل کرنے اور ایمانی تقاضوں کو پورا کرنے کی تاکید کی۔

تاریخ کے حوالے سے انہوں نے بتایا کہ ہمیشہ تاریخ اس بات کی شاہد ہے کہ اقلیت ہمیشہ اکثریت پراس لیے غالب ہوئی کہ وہ مخلص تھےاور ان میں للہیت پائی جاتی تھی اور اپنے مقاصد اور مشن سے وابستگی اور عملی جدوجہد کا نمونہ پیش کرتی تھی۔ خلیفۃ الارض کے حوالے سے انسان کی ذمہ داریوں کا بھی انہوں نے تذکرہ کرتے ہوئے مسلمانوں سے احکام قرآن کی طرف اپنے آپ کو رجوع کرنے کی ضرورت پر زور دیا۔

محترمہ وائفہ اشرف صاحبہ نے درس حدیث پیش کرتے ہوئے کہا کہ مومن کا سب سے بڑا کام توکل علی اللہ ہے۔ انہوں نے مومنین کی صفت بیان کرتے ہوئے کہا کہ مومن کی خوش نصیبی یہ ہے کہ وہ اللہ کے ہر فیصلے پر اور اس کی مرضی پر سر تسلیم خم کر لیتا ہے اور اس کی تقسیم پر ایمان رکھتا ہے، شکر کا پیکر اور اللہ کے فیصلوں سے ناراض نہیں ہوتا، ناراض ہونا دراصل وہ مومنین کی شایان شان نہیں اور مومن کے لیے بلاشبہ ہر حال میں اللہ کافی ہوتا ہے اور مومن کا یہ ایمان بھی ہوتا ہے کہ ہر کام اللہ ہی کے اذن سےہوتا ہے اسی لیے ہم خود کو محنت اور جدوجہد کے ساتھ رضا الہی کے لیے اپنے سارے معاملات کو اللہ کے سپرد کر دے۔ اسی وجہ سے مومن مطمئن ہوکر اپنے تمام معاملات کو اللہ کے حوالے کرتا ہے جس کی وجہ سے اس کے ایمان میں بھی بڑھوتری ہوتی ہے۔اجتماع کا آغاز تلاوت کلام پاک سے ہوا۔ جبکہ امیر مقامی نے مختلف اعلانات اور دستورِ ہند کے حوالے سے اپنے مختصر سے خطاب میں دیگر اعلانات کیے۔ اس موقع پر مرد و خواتین کی کثیر تعداد موجود تھی۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

error: Content is protected !!