آپسی و مسلکی انتشار سے ہوامسلمانوں کا زوال، عروج کےلیےباہمی اتحاد ناگزیر: مفتی افسرعلی ندوی
بیدر: 24/جنوری ( پریس نوٹ) مفتی افسر علی نعیمی ندوی نے درگاہ اشٹور کی مسجد موقوعہ مقابر سلاطین بہمنیہ میں ”مسلمانوں کا باہمی اتحاد وقت کی اہم ضرورت“ عنوان پر خطاب کرتے ہوئے کہا کہ کسی بھی قوم کی کامیابی و کامرانی کا مدار اس کے باہمی اتحاد پر ہے، جس طرح پانی کا قطر ہ قطرہ دریا بنتا ہے، اسی طرح انسانوں کے متفق ہونے سے ایک ایسی جماعت وجود میں آتی ہے، جس پر نگاہ ڈالتے ہوئے دشمن خوف زدہ ہونے لگتا ہے، اسے متحد قوم پر غلط نظر ڈالنے کی ہمت نہیں ہوتی، قرآن نے متعدد مقامات پر مسلمانوں کو اجتماعیت کی قوت کا احساس دلایا۔
سورہٴ انفال میں ہے کہ تم اس کے ذریعہ اپنے اور خدا کے دشمنوں کو خوف زدہ کروگے، مسلمانوں کو ساتھ مل کر اجتماعی شکل میں اللہ کی رسی کو مضبوطی سے پکڑنا ہوگا اور ایک دوسرے کے ساتھ متحد ہونا ہوگا، مسلمانوں کے باہمی اتحاد کو رسول اللہ ﷺ مثال سے سمجھایا کہ مومن دوسرے مومن کے لیے عمارت کی طرح ہے جس کا بعض حصہ دوسرے بعض کو تقویت دیتا ہے، رسول اللہ ﷺ نے مسلمانوں کو ایک جسم سے تشبیہ دی ہے کہ مسلمان ایک جسم کی طرح ہے، جس طرح جسم کے ایک حصہ میں تکلیف ہوتو پورا جسم اس کی تکلیف کو محسوس کرتا ہے، اسی طرح ایک مسلمان کی تکلیف کو دوسرے مسلمان کو محسوس کرنا چاہیے، اگر جسم کی تکلیف کا احساس کسی عضو کو نہ ہو تو وہ عضو شل ہو گیا ہے۔
دشمنان اسلام عالمی سطح پر ملت کے خون سے اپنی پیاس بجھا رہے ہیں، فلسطینی مسلمانوں پر عرصہ دراز سے ظلم و زیادتی کا سلسلہ جاری ہے،عالم اسلام کے بہت سی شخصیتیں شہید کر دی گئیں، اس وقت ملک کی موجودہ حکومت ظلم و ستم پر اڑی ہوئی ہے،ایسے نازک ترین حالات میں ملت اسلامیہ کے اندر آپسی اتحاد وقت کی اہم ضرورت ہے،دین اسلام کبھی ختم نہیں ہو سکتا،چاہے باطل طاقتیں کتنا بھی زور لگا لیں، باطل طاقتیں اپنے پورے وسائل کے ساتھ مسلمانوں کو صفحہ ئ ہستی سے مٹادینے کے لیے صف آراء ہیں، آج ملت اسلامیہ تاریخ کے نازک ترین دور سے گزر رہی ہے، اس وقت ہمارے زوال کی سب سے بڑی وجہ آپسی انتشار اور مسلکی گروہ بندی ہے۔
انہوں نے مزید کہا کہ حضرت عمر ؓ نے دیکھا کہ ایک شخص مسجد نبوی میں نماز میں قرآن کی آیت پڑھی جو اس طرح نہیں تھی جس طرح حضرت عمر نے حضورؐ سے پڑھی تھی، جب وہ نماز سے فارغ ہوا تو حضرت عمر ؓ نے اس کے گلے میں چادر ڈال کر حضور کے پاس لے گئے اور کہا کہ یا رسول اللہ ﷺ یہ شخص نماز میں قرآن غلط پڑھ رہا تھا،پھر آپ نے کہا کہ اسے پڑھ کر سناؤ، اس نے سنا دی، پھر جس طرح حضرت عمرؓ کو یاد تھی اس طرح انہوں نے سنایا، اس پر نبی کریم نے فرمایا کہ اس نے بھی ٹھیک پڑھا اور تم نے بھی درست پڑھا۔ اس سے اندازہ کر لیں کی اسلام نے اختلاف کی نفی نہیں کی ہے بلکہ اس کی ضرورت کو تسلیم کرتے ہوئے اس کا احترام کیا ہے اور اسے بر قرار رکھا ہے۔ اختلاف کو اپنے سطح پر رکھا جائے، ایک دوسرے کے خلاف بیان بازی سے گریز کیا جائے،ہم اختلاف کا سلیقہ سیکھیں اگر کسی نظریہ پر ہم خوش کلامی کے ساتھ تنقید کریں تو فریق مخالف ہماری بات کو قابل غور سمجھے گا، کم از کم اس سے نفرت کی آگ نہیں سلگے گی۔ ملک کے تشویشناک حالات میں ملت کو استحکام بخشنے کے لیے اتحاد و اتفاق کے ساتھ رہیں۔