ظلم اور ظالم کے خلاف محاذ پر کھڑے رہنا اسلامی تعلیمات کی بنیاد ہے: جماعتِ اسلامی
بیدر میں خصوصی اجتماع برائے نوجوانانِ اسلام ‘حالات حاضرہ اور نوجوانانِ ملت’ موضوع پر محمد آصف الدین رکن شوریٰ جماعت اسلامی ہند، کرناٹک کا ولولہ انگیز خطاب
بیدر: 20/جنوری (اے این بی) سی اے اے، این آرسی اوراین پی آر کو لے کر جاری احتجاجی مظاہروں میں حکومت کا یہ الزام کہ یہ مظاہرے صرف مسلمانوں کے ہیں اور مسلمان ہی کررہے ہیں۔ یہ خاص ایک مذہب سے جوڑنے کی کوشش کی گئی لیکن یہاں کے امن پسند عوام نے آگے بڑھ کر اسے حکومت کی ناکامی قرار دیتے ہوئے اپنے ہاتھ لیا اور یہ احتجاج کی کمان سیکولر امن پسند نوجوان ادا کر رہے ہیں۔ موجودہ حالات کے پیش نظر میڈیا کا رول بھی مایوس کن اور جانبدارانہ ہے، جبکہ بات محض ایک طبقہ کو کو ٹارگٹ بنانے کی نہیں بلکہ ملک کا دستور اور یہاں کی سالمیت خطرے میں ہے۔ اس بات کو امن پسند عوام نے بخوبی اندازہ کرتے ہوئے اس احتجاجی مظاہرے میں مزید شدت پیدا کردی ہے۔ کیا لڑکے، کیا لڑکیاں، عورتیں، بچے، مرد، بوڑھے اور نوجوانوں نے احتجاجی مظاہروں میں جان پڑتی ہے۔ بالخصوص نوجوانوں نے بڑوں کو جگا دیا ہے، ان پر بہت سارے الزامات بھی لگائے گئے لیکن اس کے باوجود نوجوانوں نے ڈٹ کر اس احتجاجی مظاہرے کو جاری رکھے ہوئے ہیں، جسے ہم سلام پیش کرتے ہیں۔ ان خیالات کا اظہار محمد آصف الدین رکن شوریٰ جماعت اسلامی ہند، کرناٹک نے ایک خصوصی اجتماع برائے نوجوانانِ اسلام بعنوان ‘حالات حاضرہ اور نوجوانان ملت’ موضوع پر مخاطب کرتے ہوئے کیا۔
اس موقع پر انہوں کہا کہ حکومت کا بننایا اقتدار کا ملنا اور ملنے کے بعد اگر حکمران عوام کی خوشحالی اور امن کی بحالی کے بجائے اپنی من مانی کرنا شروع کرتے ہیں، اناپرستی ان کے اندر آ جاتی ہے، چاہے وہ کسی بھی طرح کی ہو تو وہاں پر وہ اپنی انا پرستی میں مایوسی اور عوام سے گھبراہٹ کا شکار بن جاتے ہیں۔ انہوں نے حالیہ دنوں میں آنے والے پارلیمنٹ کے ذریعے پاس کیے جانے مختلف قوانین کے حوالے سے اس بات کا اعادہ کیا کہ اس ملک میں دلتوں، اقلیتوں، آدیواسیوں اور پچھڑوں کے مستقبل اور ان کی شناخت کے ساتھ ساتھ ان کے حقوق کا مسئلہ ہے۔ جسے دستور نے برابر اور مساوات کے ساتھ جگہ دی ہے۔ یہ تمام پر یہ قوانین کسی نہ کسی طرح زک پہنچانے کا کام کرتے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ مرکزی حکومت کے مختلف ناکامیوں کو چھپانے کے لیے اس کالا قانون سامنے لا کر بےروزگاری کا آئے دن بڑھتے جانا اور گھٹتی معیشت، تعلیم، صحت اور دیگر ضروری مسائل سے عوام کی توجہ ہٹانا چاہتی ہے اور یہاں پر عوام کے سکون و چین کی کوئی پروا نہیں ہے۔ اپنے خطاب میں انہوں نے مظاہرین کو فسادی بتانےمیڈیا کے پروپیگنڈے اور حکومت کے الزامات کی سختی کے ساتھ مذمت کرتے ہوئے کہا کہ یہ مظاہرین پُرامن ہیں۔اور ظلم کے خلاف محاذ پر کھڑے ہیں اور امن اور مساوات کے لئے اپنے احتجاج کو درج کرا رہے ہیں ان پر لگائے جانے والے تمام الزامات جھوٹے اور حکومت کی بوکھلاہٹ مظہر ہے۔
انہوں نے مختلف دانشوران کے حوالے سے یہ بات بھی ظاہر کی کہ یہ احتجاجی مظاہرے ہندوستان کی سالمیت اور اس کے دستور کو بچانے کے لیے کی جانے والی کوششیں ہیں۔ انہوں نے امرتیہ سین کے حوالے سے کہا کہ کہیں بھی مذہب کی بنیاد پر شہریت دینا خود غیر آئینی ہے۔ انہوں نے ایک اور دانشور کے حوالے سے اپنی بات کرتے ہوئے کہا کہ یہ کالا قانون ہے۔ اسے بڑے دانشوروں نے کہا ہے اور ریاست کے فلاحی کاموں میں ناکامی اور ملک میں معاشی بحران اور دیگر مسائل سے پردہ پوشی کرتے ہوئے اس قانون کولایا گیا ہے۔ اس کا الزام بھی مرکزی حکومت پر لگا رہے ہیں، جو کہ بلکل صحیح ہے۔ اپنے خطاب کے آخر میں انہوں نے گول اور رول کے متعلق کہا کہ عدل کا قیام، ظلم اور ظالم کے خلاف جمہوری معروف اور آئینی طریقے کے ساتھ ساتھ مظلوموں کے حق میں اٹھ کھڑے ہونا وقت کی اہم اور شدید ترین ضرورت ہے۔ یہ فساد نہیں یہ امن کے ساتھ ظلم کے خلاف جمہوری انداز میں کوشش ہے۔ جو ضرور انقلاب لا کر رہے گی۔ انہوں نے اس قانون کو ووٹ بینک کی سیاست قرار دیا۔
مذہب کی بنیاد پر تفریق کرنے پر جماعت اسلامی ہند کے موقف کو واضح کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ جماعت اسلامی کسی کو شہریت دینے کی قطعی خلاف نہیں ہے، لیکن جب اسے مذہب کی بنیاد بنایا جاتا ہے تو جماعت اسلامی اس کی سختی کے ساتھ نہ صرف مذمت کرتی ہے بلکہ اس پر ہونے والے پُرامن وجمہوری احتجاجوں کی پرزور تائید بھی کرتی ہے اور حکومت سے اس بات کا مطالبہ کرتی ہے کہ وہ اس قانون پر نظر ثانی کرے۔ چاہے مظلوم کسی بھی قوم، طبقے، علاقے اور زبان کا بولنے والا ہو، اُسے اسکے مذہب کی بنیاد پر تفریق نہ کیا جائے، کیونکہ یہ ہمارا ملک دستور کی بنیادی حقوق کی مضبوطی کے ساتھ چلتا ہے اور مذہب کی بنیاد پر تفریق دراصل غیر دستوری ہے۔
انہوں نے اس سلسلے میں جماعت اسلامی ہند کی جانب سے کی جانے والی مختلف کاوشوں کا تذکرہ کرتے ہوئے کہا کہ ملک بھر کے تمام ریاستوں کے چیف منسٹرس کو باضابطہ لکھے گئے کہ اس کالے قانون کی مخالفت میں اپنا احتجاج درج کریں اور اپنے موقف کا واضح اظہار کریں۔ تب جماعت اسلامی ہند کے اس مکتوب کا نہ صرف جواب دیا بلکہ اپنے طور پر ریاستی اسمبلیوں میں قراردادیں بھی پیش کرتے ہوئے انہوں نے اس اس قانون کی مخالفت کی ہے۔ جس کوجماعت اسلامی قدر کی نگاہوں سے دیکھتی ہے۔
اپنے خطاب کے آخر میں محمد آصف الدین نے اس بات کی بھی طرف توجہ دلائی کہ اب عوام یہ لڑائی اور چیالنج کو پوری طرح ایکسیپٹ کر رہی ہے اور اپنی شناخت کے ساتھ اس کے خلاف کھڑی ہے۔ انہوں نے اس قانون کو سراسر ظلم قرار دیا، ظلم کے خلاف آواز اٹھانا اسلامی نقطہ نظر سے عبادت ہے اور مظلوموں کے لیے اٹھائی جانے والی آواز دراصل ظالم کے لیے ایک زبردست خطرہ اورکسی چیلنج سے کم نہیں، جس کی آج مرکزی حکومت بوکھلاہٹ کا شکار ہوچکی ہے۔ انہوں نے ملک کے مختلف علاقوں میں خواتین کی احتجاجی مظاہروں میں شرکت نے ساری دنیا کے کو یہ پیغام دیا ہےکہ ملک کی خواتین اب بیدار ہوچکی ہیں اور جہاں خواتین اپنی بیداری کا ثبوت دیتی ہیں وہاں انقلابات کا رونما ہونا یقینی بن جاتا ہے اور کوئی بھی اندولن کو اگر اور لیکن کے ذریعے نہیں دیکھا جانا چاہیے بلکہ مصمم اور مضبوط ارادے کے ساتھ حق پر ڈٹے رہتے ہوئے انصاف کے لیے جدوجہد کو جاری رکھنا چاہیے، اوراس بات کا یقین ہو کہ قانون واپس ہونا چاہیے واپس ہو کر ہی رہے گا۔
اس خصوصی اجتماع کا آغاز حافظ محمد عبیداللہ صدیقی کی قرات کلام پاک سے ہوا۔ جناب رفیق احمد گادگی نے دعائے قنوت کے متعلق درس حدیث پیش کیا، جبکہ سورہ اعراف کی منتخب آیات پر مفتی ایوب صاحب نے درس قرآن پیش کیا۔ اجتماع کا اختتام امیر مقامی جناب محمد نظام الدین صاحب کے اختتامی خطاب پر ہوا، انہوں نے اپنے مختصر خطاب میں اسلامی اسکالرمراد ہوف مین کی زندگی کے متعلق بتایا اور انکی اسلام کے لیے کی جانے والی کوشیشوں کا تذکرہ کرتے ہوئے انکے انتقال پر دعائے مغفرت بھی کی۔ اسلامی اسکالرمراد ہوف مین کی پیدائش:1931ءمیں ہوئی۔ 1987ء سے 1994ء کے درمیان میں الجزائر اور مراکش میں جرمنی کے سفیر تھے اور اس سے پہلے برسلز میں نیٹو کے ڈائریکٹر اطلاعات تھے۔ انہوں نے 1980ء میں اسلام قبول کیا۔ انہوں نے یونین کالج نیویارک سے تعلیم حاصل کی اور پھر میونخ سے جرمن قانون میں ایم اے اور ہارورڈ یونیورسٹی سے پی ایچ ڈی کی۔ اسلام پر ان کی کتابوں میں “سفر مکہ” اور “اسلام: ایک متبادل” مشہور ہیں۔ مراد ہوف مینیورپ اور شمالی امریکا میں اکثر سفر کرتے رہتے ہیں۔ اس اجتماع میں شرکاء بالخصوص نوجوانوں کی کثیر تعداد میں شریک رہے۔ جس سے مسجد کا اندرونی حصہ مکمل طور پر پُر چکا تھا، اس موقع پر مختلف اعلانات بھی امیر مقامی نے کیا۔ دعا پراجتماع اختتام کو پہنچا۔