جمہوریت کی جگہ ‘ہندوراشٹر’ لانا دیرینہ خواہش ہے
محمد قاسِم ٹانڈؔوی
اس وقت ملک بھر کے ستّر فِیصد سے زیادہ عوام (یہ فیصد اِحتِیاطاً لکھا گیا ہے، ورنہ فیصدی رجحانات اس سے کہیں زیادہ ہیں) بِلا اِمتیازِ قوم و ملت، مذہب و مسلک اور زبان و عِلاقائِیت سے فزوں تر ہو کر مختلف مقامات پر جس طرح پٌرامن و پٌرسکون اور جمہوری طریقوں کو اپناتے ہوئے احتجاج و مظاہرہ پر ڈٹے ہوئے ہیں، ان کے جذبات و احساسات کو پوری ملتِ ہِندیہ کی طرف سے سلام پیش کیا جانا چاہئے۔ کیونکہ جن جذبات و احساسات سے سرشار ہوکر وہ سب احتِجاجاً حکومت کے خِلاف سڑکوں پر اترے ہوئے ہیں، یقیناً ان کے اِس جذبۂ صادق اور عزمِ مصمم کے آگے جہاں حکومت کی اندرون خانے چولیں ہِلی ہوئ ہیں تو وہیں ان کے اِس احتجاج و مظاہرہ کے تسلسل سے بِلاشبہ “ہِٹلر و مسولینی اور چنگیزی” دور کا نقشہ بھی کھنچ کر سامنے آ رہا ہے اور اس نقشہ نے سِیاہ و تاریک دور کی یادیں تازہ کر کے رکھ دی ہیں.
اس لئے کہ عوام پر ڈھائے جانے والے ظلم و سِتم، حق تلفی، ڈاکہ زنی اور ان کے جائِز مطالبات کی تکمیل نہ ہونے پر جس طرح ہٹلر کے تانا شاہی دور میں کوئی شنوائی محال ہوتی تھی ٹھیک اسی طرح یہاں پر بھی ایک جمہوری اور سیکولر ملک ہوتے ہوئے اپنی مانگیں پوری کرانا یا جائز امور کی حصولیابی کےلئے اپنی آوازوں کو حکمراں طبقہ تک پہنچانا ناممکن و محال بنا دیا گیا ہے، اور کوئ طبقہ یا ادارہ ایسی آواز یا اپیلیں نہ کر سکے جن کی مکلف و مخاطب بِلاواسطہ حکمراں جماعت بنتی ہو تو اوّل انھیں طاقت کے بل بوتے دبانے یا پھر ان کو کالعدم قرار دینے کےلئے ایسے اصول و ضوابط بنا دئے گئے ہیں کہ ان اصول و ضوابط کے رہتے ہوئے آپ اپنی اپیل، آواز یا رائے کا اظہار کر ہی نہیں سکتے بصورتِ دیگر خِلاف ورزی کرنے والوں کو غدارِ وطن اور حکومت مخالِف قرار دے کر اس کا آخری ٹِھکانہ کال کوٹھری قرار دے دیا جاتا ہے، یہ حالت ہو چکی ہے.
اِس وقت ایک جمہوری، سیکولر اور گاندھی و آزاد و بِسمِل و اشفاق کے خوابوں کی سنہری سرزمین، ملکِ ہندوستان کی؛ کہ اگر وہ اور ان جیسے بےشمار مجاہدینِ آزادی بقیدِ حیات ہوتے اور اس گھٹن بھری فضا میں سانسیں لے رہے ہوتے تو وہ بھی یقیناً نادِم و پشیماں ہو کر حکومت کی زِیادتیوں کے خِلاف اٹھ کھڑے ہوتے جیسا کہ اس وقت پورا ملک سراپا احتجاج بن کر حکومت کی طرف سے پیش کردہ تین بِلوں کے خلاف سڑکوں پر ہے اور ہمارے مجاہدین آزادی اسی شوق و وَلوَلے کے ساتھ آئین و دستور کی حفاظت کرنے میں اپنی قیمتی جانوں کا نذرانہ پیش کرنے والے ہوتے جس طرح انھوں نے پہلے پیش کیا تھا اور مزید وہ سب اِس بات پر فخر محسوس کرنے والے ہوتے کہ “ہم نے کل بھی وطن کو آزاد کرایا تھا ہم آج بھی وطن کو آزاد کرائیں گے” مگر آزادی کی یہ لڑائی کل غیروں سے لڑی گئی تھی آج اپنوں سے۔کیا یہاں کوئ بتا سکتا ہے کہ ہمارے اکابرین و مجاہدین نے جس سرفروشانہ انداز سے جنگِ آزادی میں حصہ لےکر اپنی قیمتی جانوں کا نذرانہ پیش کیا تھا اور وطنِ عزیز کو گوروں کے چنگل سے آزاد کرایا تھا؛ یہ سب اسی کا صِلہ دیا جا رہا ہے؟
کیا کوئی جواب دے سکتا ہے کہ انگریز جس کی حکومت کا سورج رات دن چمکتا تھا اور اسے اس بات کا غرور تھا کہ اس کی حکومت کا سورج کبھی غروب نہیں ہوتا ہے لیکن ہمارے بزرگوں نے نہ صرف اس کے اِس غرور کو چکنا چور کیا بلکہ اسے یہاں سے بھاگنے پر بھی مجبور کیا تھا؛ تو کیا اسی لئے کیا تھا کہ تمہارے مسندِ اقتدار پر قابض ہونے کے بعد ہم کو اپنی شہریت اور حب الوطنی کا سرٹیفکیٹ دینا ہوگا؟کیا ہمارے آباؤ اجداد کا حصولِ آزادی کےلئے اپنا سب کچھ قربان کر دینے۔
اپنے جان و مال اور اہل و عیال کی پرواہ کئے بغیر میدانِ جنگ میں کود کر ظلم و اِستبداد اور ناانصافی کی چکی میں پِستی اِنسانیت کو اس ظالم و جابر قوم کے چنگل سے چھڑا کر ایک نئ زندگی کی شروعات کرانا اور مادرِ وطن ہندوستان کی خاکِ پاک کو ناپاک و نااہل قوم کے وجود سے پاک کرانا اور ان کو دیش نکالا قرار دینا، کیا انہیں منحوس و مخدوش اَیّام کےلئے تھا جن کا سامنا آج ہم مسلمانوں کے ساتھ ہر ایک سیکولر ذہن اور منصِف مِزاج ہِندوستانی کو کرنا پڑ رہا ہے؟ہے کسی کے پاس جواب کہ جس وقت اکثریتی فرقے کے لوگ برٹش گورنمنٹ کی وفاداری اور چاپلوسی ثابت کرنے میں انگریز حکمرانوں کے تلوے چاٹ رہے تھے تو اس وقت بھی ہمارے ہی اکابر و مجاہدین آزادی تھے جو پھانسی کے پھندے پر لٹک کر موت کو گلے لگا رہے تھے اور ہر ممکن وطن کو آزاد کرانے میں لگے تھے۔
اس کے باوجود آج سات دہائیوں سے زائد کا عرصہ گزرجانے کے بعد بھی ہم سے ملک کے وفادار اور اس ملک کے شہری ہونے کا ثبوت مانگا جا رہا ہے، تقسیمِ ہند کا دردناک اور انتہائی خوفناک المیہ پیش آنے کے بعد بھی ہم وطنِ عزیز کی خاک کو اپنی آنکھوں کی ٹھنڈک، سکونِ قلب اور باہمی احترام و محبت، مذہبی رواداری، برادرانِ وطن کے دکھ درد میں شانہ بشانہ کھڑے ہونے اور ہزار دقت و پریشانی برداشت کرنے کے باوجود بھی یہاں سے جانا گوارا نہیں کیا اور برابر ملک کی تعمیر و ترقی میں اہم کردار ادا کرتے رہے، اس دوران حکومتیں بھی آئیں، اقتدار بھی تبدیل ہوا مگر افسوس…!!!
مسلمانوں کے تئیں حکومتوں کا منافِقانہ رویہ بدستور رہا اور اس میں کسی قِسم کی تبدیلی نہ آ سکی اس دوران جس نے جس انداز سے چاہا ہمارے مذہبی تشخّص اور حٌبّ الوطنی کو شکوک وشبہات کی عینک لگا کر ہی پرکھا اور آزمایا۔اب موجودہ حکومت اور اس کے اڑیل روِیِّے کو ہی دیکھ لیجئے کہ وہ کسی طرح اپنے موقف پر اَٹل و بضِد ہے، اس کی ہَٹ دھرمی اور ضِدّی پَن کی اِس سے بدترین مثال اور کیا ہو سکتی ہے کہ ایک ماہ سے زائد کا عرصہ گزر چکا ہے، مگر ابھی تک حکومت کی طرف سے کوئ ایسا اِقدام ہوتا نظر نہیں آ رہا ہے جس کے بارے میں کم از کم کہا جا سکے کہ چلو حکومت و عوام کے درمیان ‘گفت و شنید’ کا سلسلہ تو جاری ہوا؟
حالانکہ یہ کوئی پہلا موقع نہیں ہے جس پر حکومت و عوام کے درمیان ٹکراؤ اور تَصادم کی نوبَت پیش آئ ہو بلکہ ہر دور میں اکثر ایسا ہوتا ہی ہےکہ حکومت کی طرف سے کوئی بِل پیش کیا گیا ہو یا کوئی پالیسی مرتّب کی ہو تو اگر وہ اپوزیشن سمیت عوام کو نامنظور ہو تو حکومتِ وقت اس پر غور و فکر کرتی ہے اور ماہرینِ قانون و اہلِ سیاست سے اس کے بارے میں صلاح و مشورہ کرتی ہے۔ اس کے بعد اس بِل یا اس پالیسی کے فوائد و نقصانات کے تمام پہلوؤں کو اجاگر کرتی ہے، ایسا متعدد بار ہوتا رہا ہے اور کسی بھی جمہوری ملک میں ایسا ہونا اس ملک کی جمہوریت اور اس کے سیکولرازم کو مضبوطی فراہم کرتا ہے۔
مگر یہاں تو معاملہ ہی بالکل چینج ہے۔ اور وہ اس لئے کہ مئی/2014ء سے مرکزی حکومت کا اقتدار زعفرانی سوچ و بچار سے ہم آہنگ پارٹی بی جے پی کو حاصل ہوا ہے اسی وقت سے ہر اس طریقِ کار کو آزمایا جا رہا ہے جہاں سے ملک کے سیکولر ڈھانچہ کو کمزور سے کمزور تر کیا جا سکتا ہو اور ہر وہ تدابیر اختیار کی جارہی ہیں جن سے ملک کا امن و امان، اس کی خوشحالی و ترقی اور سالمیت کو آگ لگا کر ایک خاص فرقے اور مذہب کی اجارہ داری قائم کر دی جائے اور ملک کے سیکولرازم کو راشٹرواد میں تبدیل کر دیا جائے جو اس کی ایک دیرینہ خواہش ہے۔
مگر سلامت رہیں قوم کی وہ تمام مائیں بہنیں جو اپنے نوزائیدہ لاڈلوں اور شِیرخوار بچوں کو گود میں لِئے، یَخ بَستہ برفانی ہواؤں اور سردی کی ٹھٹرتی راتوں میں مخلتف شہروں کے اندر کھلے میدانوں میں مردوں کے شانہ بشانہ کھڑی ہوئی حق و انصاف کی لڑائی لڑ رہی ہیں اور “این آر سی، این پی آر اور سی اے اے” جیسے سِیاہ بِلوں کے خِلاف ڈٹی ہوئی اپنی آوازوں کو مرکزی حکومت میں بیٹھے حکمرانوں کے گوش گزار کرنے کی کوشش و جستجو کرنے میں ہمہ تن مصروفِ عمل اور ان کی دیرینہ خواہش کو ملیا میٹ کرنے میں سب کچھ برداشت کر رہی ہیں۔