ضلع بیدر کو NPR-NRC-CAA پرڈراور خوف کی فضا سے باہر آنے کی ضرورت
محمدیوسف رحیم بیدری
سی اے اے، این آرسی اور این پی آر کی مخالفت کو لے کر ملک بھر میں ہند و، مسلم، دلت،اوبی سی، لنگایت، سکھ، یعنی پورا بھارت دیش سڑکوں پر آچکاہے۔ کیا بیدر ضلع بھی بھارت کے کندھے سے کندھا ملاکر کھڑا ہے؟اس کاجائزہ لینے کی ضرورت ہے۔ ضرورت اسلئے بھی ہے کہ سی اے اے، این آرسی اور این پی آر ملک کے دستور اورخود ملک اور ملک کے شہریوں کے خلاف ایک سازش ہے۔ دوسری بات یہ کہ آزادی کے 70سال بعد پہلی دفعہ ایک ایساکالاہی نہیں نہایت ہی شرمناک قانون بنایاگیاہے کہ جس میں کسی کو شہریت دینے کی بنیاد اس کے (۱) مظلوم ہونے (۲)مخصوص مذہبی اقلیت ہونے (۳) کسی مخصوص قطعہ کے ہونے سے لازم کردیاگیاہے۔اور یہ تینوں باتیں ہندوستان کے دستور میں نہیں ملتیں۔ یعنی دستور مخالف قانون بناکر اس کو فوری لاگو کرنے کی حکومت ہند کی کوشش ایک بڑی سازش اور جمہوریت کوتوڑنے اور اس کو برباد کرنے کی سعی ہے۔
تیسری بات یہ کہ اس کے لئے مسلمانوں کانام اچھالاگیاہے، جو سوائے ووٹ بینک کی پالیسی کے کچھ نہیں ہے۔ اگر سی اے اے واپس لیاجاتاہے تب بھی وہ اپنے ”مخصوص ہندتواووٹ بینک“ کو اپنے تک محدودرکھیں گے۔ اور اگر سی اے اے اور این آرسی بزورنافذ کیاجاتاہے تو ملک میں انارکی پھیلے گی، غریب پر مصیبتوں کے پہاڑ ٹوٹ پڑیں گے، شہریت کے حصول کے نام پر جگہ جگہ عوام کاغصہ، غیرشہری، پناہ گزیں، شرنارتھی وغیرہ کاالزام لگاکر لوگوں کوگھروں سے اٹھوانے کاعمل پولیس پر قہر بن کرٹوٹ پڑسکتاہے۔
کیونکہ لوگ نہیں چاہیں گے توہ ڈی ٹینشن کیمپ جیسی خطرناک جگہ پر قید سے بدتر زندگی گذاریں۔ پولیس والوں پر حملہ، افسران پر چاقواور پٹرول وغیرہ چھڑک کر انھیں آگ لگانے جیسے واقعات عام ہوسکتے ہیں۔ اسی کے پیش نظر مقتدرہ مخصوص طاقتوں پر اپوزیشن ہی نہیں پڑھنے لکھنے اور سوچنے سمجھنے والوں کا الزام ہے کہ اس سے ملک دوبارہ تقسیم ہوگا اور یہی کام کے لئے فسطائی طاقتیں پوری طرح تیار ہوچکی ہیں۔ ان کاقلعہ قمع کرنا ضروری ہے۔ عوام اس کے لئے اٹھ کھڑے ہوں۔
خیر ہم بیدرضلع کی طرف آتے ہیں۔ بیدر مستقر پر اب تک 13/ڈسمبر، 23/ڈسمبر کو دوبڑے احتجاج ہوچکے ہیں۔ اس کے بعد کوئی ایسا مظاہرہ دیکھنے کونہیں مل رہاہے۔ اس کا سبب پولیس کی جانب سے رکاوٹ کا الزام ہے۔ بسواکلیان میں بھی اب تک دوبڑے پروگرام ہوچکے ہیں۔ کل 8/جنوری کوصر ف خواتین کااحتجاج منظم کیاگیاتھاجس میں ہزاروں کی تعداد میں خواتین شریک رہیں۔ یہ تعداد ضلع بیدر کی اب تک کی سب سے بڑی تعداد رہی ہے۔ ہمناآباد میں ایک بڑ اپروگرام ہواہے اور چھوٹے چھوٹے روزہ رکھنے وغیرہ پروگرام بھی جاری ہیں۔
چٹگوپہ میں ایک پروگرام ہواہے۔ اوراد(بی) جیسے دوردراز تعلقہ میں بھی 13/ڈسمبر کو احتجاج منظم کیاجاچکاہے۔بگدل، راجیشور اور کمٹھانہ میں بھی ایک ایک احتجاج درج کیاجا چکاہے۔ اس کے بعد چراغوں میں روشنی نہیں ہے۔ لوگوں کو تعجب ہے کہ بھالکی سیاسی بصیرت رکھنے والوں کا تعلقہ ہوتے ہوئے بھی وہاں سے کوئی آواز CAA-NRC-NPRکے خلاف نہیں اٹھی۔ جبکہ وہاں کے رکن اسمبلی کانگریس پارٹی کے ایشور کھنڈرے ہیں۔ اتنا ہی نہیں وہ ریاستی کانگریس پارٹی کے کارگذار صدر بھی ہیں۔
بی جے پی الزام لگارہی ہے کہ ہندوستان بھر میں کانگریس سی اے اے مخالف مظاہروں کی پشت پناہی کررہی ہے اور بھالکی ہی نہیں ضلع بیدر کے کسی بھی مقام پر کانگریس کا وہ رول نہیں ہے جو اقلیتیں، دلت اور اوبی سی چاہتی ہیں۔ کانگریس ان پروگراموں سے دور دور ہی ہے۔ اورکئی ایک مقامات پر لوگوں نے کانگریس کے ایم ایل ایز وغیرہ کو پروگراموں میں آنے پر جھڑکابھی ہے۔ جس سے پتہ چلتاہے کہ عوام خود بھی کانگریس سے دور ہے۔ لیکن ہماراسوال وہیں ہے کہ بیدر ضلع کے اور کون سے مقامات ہیں جو ملک کے حالات کو محسوس کرتے ہوئے ان کے ساتھ ہیں یا نہیں ہیں؟
بھالکی، کے بعد ہلسور بھی ایک اچھا مقام ہے جہاں مسلمانوں کی تعداد بھی ہے۔ یہاں سے کوئی آواز سی اے اے اور دیگر قوانین کے خلاف نہیں اٹھی۔ کمال نگر، سنت پور اوراد، بھاتمرہ، کھٹک چنچولی، منہلی، منااکھیلی، اشٹور، مالیگاؤں، جنواڑہ، ان تمام سے ہٹ کر املاپور جو ہمیشہ ہی سیاسی طورپر آگے آگے دکھائی دینے والا دیہات ہے وہ بھی خاموش ہے۔ چٹہ میں بھی ایسی کوئی سرگرمی نہیں ہے۔ نرنہ میں بھی قابل نوجوان ہیں۔ وقتافوقتا کئی ایک مسائل پر آواز اٹھاتے ہیں لیکن سی اے اے پر یہ آواز خاموش ہے۔
بیمل کھیڑا، ہلی کھیڑ(بی)،مرکندہ، کھینی رنجہول،ہچک نلی، چانگلیر، مندکنلی، منگلگی، تالمڑگی،باوگی، کڑقاسم پور،ہڈگی،مرکھل، مہکر، بہرنلی، تھانہ کشنور، گڑھی کشنور،مالچاپور،مین کھیرا، سندن کھیرا، اوراد(بارہ ہلی)،گادگی، حمیلہ پور،ہپل گاؤں، مٹالہ، کوہ نور، تڈولہ، رائے کڑگی، نندگاؤں، وغیرہ ایسے کئی دیہات ہیں جہاں کی خاموشی لوگوں کی سمجھ سے باہر ہے۔اور ایسے اہم دیہاتوں میں کانگریس اور جنتادل (یس)کاسکہ چلتاہے۔ ایک صحافی نے بتایاکہ سی اے اے اور این آرسی پر خود کانگریس عوام کو خاموش کررہی ہے۔ اس الزام میں پوراسچ نہ ہولیکن کچھ نہ کچھ سچائی ضرورچھپا ہے۔ یہ بھی ممکن ہے کہ کوئی خوف ہو، لیکن اس خوف کی فضا سے ضلع بیدر کے دلتوں، اقلیتوں اور اوبی سی کو نکلنے کی ضرورت ہے۔ اب دیکھنایہ ہے کہ بیدر ضلع میں یہ اونٹ کس کروٹ بیٹھتاہے؟