بسواکلیان میں ایس آئی او کا احتجاجی دھرنا، جے این یو طلباء پر ہوئے حملہ کی سخت مذمت
جواہر لال نہرو یونیورسٹی کے طلباء پر ہوئے حملہ کی ایس آئی او نے کی سخت الفاظ میں مذمت، وائس چانسلر سے استعفیٰ اور عدالتی تحقیقات کے ذریعے واقعہ کی جانچ کا کیا مطالبہ
بسواکلیان: 6/جنوری (وائی اے) گزشتہ شب ملک کی نامور جواہر لعل نہرو یونیورسٹی کے طلباء پر نقاب پوش بدمعاشوں نے کیمپس میں زبردستی گھس کر حملہ کیا۔اس حملہ کی مذمت اور جواہر لعل نہرو یونیورسٹی کے طلباء کے ساتھ اظہار یکجہتی کرتے ہوئے اسٹوڈنٹس اسلامک آرگنائزیشن آف انڈیا بسواکلیان یونٹ کی جانب سے شہر کے امبیڈکر سرکل پر احتجاجی دھرنا دیا۔
اس موقع پر برادر محمد نجیب الدین ضلعی صدر ایس آئی او بیدر نے کہاکہ جے این یو طلباء یونیورسٹی فیس میں اضافے کو لے انتظامیہ کے خلاف احتجاج کررہے تھے کہ بدمعاشوں کے ٹولی نے کیمپس میں گھس کر طلباء و طالبات پر لاٹھیوں سے حملہ کردیا جس کے نتیجہ میں کئی طلباء و طالبات زخمی ہوئے ہیں ۔ اس خبر کے پھیلتے ہی ملک کی دیگر یونیورسٹیوں کے طلباء نے بھی افسوس دور غصہ کا اظہار کیا اور انڈوں کے خلاف سخت کارروائی کرنے کا مطالبہ کرتے ہوئے احتجاج درج کرایا ہے۔
انہوں نے مزید کہا کہ طلباء اس ملک کا مستقبل ہیں، ان پر مظالم ہرگز برداشت نہیں کئے جائینگے۔ گزشتہ شب جے این یو طلباء پر ہونے والے مظالم کی ہم کڑی مذمت کرتے ہیں۔ انہوں نے اس میں انتظامیہ اور پولیس کی خاموشی پر بھی سوال اٹھائے اور کہا کہ ایک ملک کی نامور یونیورسٹی میں غنڈہ عناصر اپنا منہ چھپائے ہوئے کس طرح داخل ہوسکتے ہیں؟
انہوں نے طلبہ کو محفوظ سیکورٹی فراہم کرنے سے قاصر رہنے پر اخلاقی طورپر یونیورسٹی کے وائس چانسلر استعفیٰ دیں۔ ملک کے دارالحکومت دہلی جیسے مقام کی نامور نیورسٹی ہاسٹل کے اندر رہنے والے طلباء و طالبات محفوظ نہیں ہیں تو پھر یہ ملک کی انتظامیہ حکومت وقت کے ساتھ ساتھ پولیس کے ذمہ دار اہلکاروں پر بھی سوالیہ نشان ہے۔ طلبہ آخر اصل یونیورسٹی میں نہیں ہیں تو پھر کہاں محفوظ رہیں گے!
حافظ اسلم جناب نے کہاکہ ملک کی عوام مرکزی حکومت کی غلط پالیسیوں کے خلاف سڑکوں پر نکل آئی ہے۔ ملک کے تعلیمی اداروں میں طلباء پر مظالم قابل مذمت ہیں۔
برادر محمد نواز الدین نے خطاب کرتے ہوئے آزادی سے قبل ہندوستان کی تاریخ پر روشنی ڈالی۔ انہوں نے بتایا کہ 1857 کی جنگ آزادی میں سبھی مذاہب کے لوگ موجود تھے ، ہندوستان ساری دنیا میں بھائی چارہ میں اپنی منفرد پہچان رکھتا تھا ۔ جس طرح انگریزوں نے مذہب کے نام پر ہندوستانیوں میں پھوٹ ڈالی موجودہ مرکزی حکومت آج پھر وہی کام کررہی ہے ۔ 1857 سے پہلے کے حالات کا تذکرہ کرتے ہوئے انہوں نے ہندوستان میں سبھی مذاہب کے ماننے والوں کے درمیان بھائی چارے کی مثالیں پیش کیں۔
طلباء و نوجوانوں نے انقلاب زندہ باد, ہم کیا چاہتے ؟ آزادی، سیو کیمپس سیو کانسٹی ٹیوشن جیسے نعرے لگائے۔
اس موقع پر میر آصف علی اور عمر علی فیصل نے بھی اس موقع پر اظہار خیال پیش کیا۔ بلال احمد نے سارے جہاں سے اچھا ہندوستاں ہمارا، میرا ملک میرا دیش میرا یہ وطن ترانے پیش کئے ۔
احتجاجی دھرنا کے آخر میں تحصیلدار بسواکلیان کے توسط سے صدر جمہوریہ ہند کے نام ایک یاداشت روانہ کی گئی ۔ برادر اسد اللہ خان صدر مقامی نے باآواز بلند یاداشت پڑھ کر سنایا ۔ مظاہرے میں شریک ہوئے سبھی لوگوں نے آخر میں قومی گیت پڑھا۔ اس موقع پر شہر کے مختلف کالجس کے سینکڑوں طلباء اور نوجوان شریک رہے،اور جم کر نعرے بازی کی۔