ضلع بیدر سے

ہمناآباد میں شہریت ترمیمی قانون اور این آر سی کے خلاف ہمہ مذہبی فقید المثال احتجاجی دھرنا

احتجاجی دھرنے میں حکومت کے خلاف شدید برہمی کا اظہار


ہمناآباد: 23/ڈسمبر(ایس آر) ہمناآباد میں شہریت ترمیمی قانون اور این آر سی کے خلاف مسلم ویلفئیر اسوسی ایشن کے ماتحت قدیم تحصیل آفس کے روبرو ہمہ مذہبی و کُل جماعتی فقید المثال احتجاجی دھرنا منظم کیا گیا۔دھرنے میں ہزاروں کی تعداد میں افرادنے شرکت کی اس احتجاجی دھرنے کی خاص بات یہ رہی کے اس میں نہ صرف مسلم تنظیموں نے شرکت کی بلکہ دلت تنظیموں کے نمائندوں نے اپنے سینکڑوں حامیوں کے ساتھ شرکت کی اور یہ پیغام دیا کے شہریت ترمیمی قانون اور این آر سی کی نہ صرف مسلمان مذمت کر رہا ہے بلکہ انکے ساتھ دیگر مذاہب کے لوگ بھی شانہ بہ شانہ اس احتجاج میں شامل ہیں۔

اس احتجاجی دھرنے کا آغاز حافظ سید عرفان اُللہ کی قرآت کلام پاک سے ہوا بعد ازاں قومی ترانہ پڑھا گیا۔دھرنے سے خطاب کرتے ہوئے مولانا محمد تصدوق ندویؔ جنرل سیکریٹری جمعیت علماء ہندنے کہا کے ہندوستان کا شہری اب بیدار ہو چکا ہے، اس ملک کے وزیر داخلہ یہ بیان دیتے ہیں کے ایک ہندوستانی کو شہریت ثابت کرنے کے لئیے آدھارکارڈ،ووٹر آئی کارڈ،نہیں چلے گا تو اس ملک میں ہونے والے انتخابات میں انہیں دستاویزات کی بنیاد پرووٹ کیسے ڈالے گئے۔

نوٹ بندی کے بعد اس مُلک کی عوام کو دوبارہ لائین میں کھڑاکرنے کی تیاری چل رہی ہے نوٹ بندی سے کوئی فائدہ نہیں ہوا ہے شہریت کو ثابت کرنے کے لئیے اس مُلک میں رشوت خوری عام ہو جائے گی۔ہند ومسلم اس ملک کی دوآنکھیں ہیں ایک آنکھ کو ختم کر کے اس ملک کو کانا کرنا چاہتی ہے حکومت اور نت نئے قانون کے ذریعہ ہندو مسلم کو آپس میں لڑوانا چاہتی ہے۔موجودہ وقت میں ہندوستان میں کئی مسائل موجود ہیں ملک کی مالی حالت خستہ حال ہوچکی ہے۔ہندوستان کی ترقی میں مسلمانوں کا اہم کردار رہا ہے اسکی قدر وقیمت ہم سے زیادہ کوئی نہیں جان نہیں سکتا کیونکہ اسکے لئیے ہمارے بزرگوں نے اپنی جان کی قربانی دی ہے۔

محمد شاہد نصیر گلبرگہ نے اپنے خطاب میں کہا کے صدیوں پرانی تاریخ کے حامل اس ملک میں نفرت کا ماحول پہلے کبھی ایسا نہیں دیکھا گیاہے ہمارے ملک کی غربت بنگلہ دیش سے بھی نیچے چلی گئی ہے مگر ہمارے ملک کے لیڈروں کو اسکی کوئی فکر نہیں ہے یہ صرف لوگوں کو آپس میں لڑانے میں مصروف ہیں۔مسلمانوں نے مولانا ابولکلام کی آواز پر اس ملک میں بسنے کا فیصلہ کیا ہے،آزادی کے بعد ڈاکٹر بی آر آمبیڈکرکی قیادت میں اس ملک میں دستور سازی کا عمل شروع کیا گیا اس دستور میں کہا گیا ہیکہ مذہب کی بنیاد پر کوئی بات نہیں کی جائیگی۔ ویر ساورکرجنہوں نے انگریزوں سے معافی منانگی تھی انکے پیروکار آج ہم سے ہندوستانی ہونے کا ثبوت مانگ رہے ہیں،اس ملک کے وزیر اعظم یہ کہتے ہیں کے ہم نے این آر سی کے بارے میں کبھی نہیں کہا ہے مگر وزیر داخلہ یہ کہتے ہیں کے پہلے شہریت کا قانون آئے گا اور بعد میں این آر سی کا عمل شروع ہوگا شہریت ترمیمی قانون اس ملک کو توڑنے والا قانون ہے۔

این آر سی کے تحت آسام میں پہلی فہرست میں 30لاکھ لو گ باہر ہوئے سپریم کورٹ کی نگرانی میں دوبارہ یہ عمل کیا گیا دوسری فہرست میں 19لاکھ لوگ باہر ہوئے جن میں 15لاکھ غیر مسلم کے نام شامل ہیں اسی کے بعد مرکزی حکومت نے شہریت ترمیمی قانون بنایا ہے،آسام میں تین ہزار لوگوں کے لئیے حراستی مرکز قائم کرنے میں 43کروڑ روپے خرچ ہوچکے ہیں،اس ملک کے مسلمانوں کو ڈرانے کی غرض سے ایسے قانون بنائے جا رہے ہیں اور اس ملک کو ہند وراشٹر بنانے کی سمت میں یہ پہلا قدم ہے۔

انہوں نے اپنے خطاب میں مرکزی حکومت کو انتباہ دیا کے اگر دستور ہند کے ساتھ چھیڑ خانی کی گئی تو وزیر اعظم کے دفتر کے روبرو احتجاج کیا جائے گا۔رمیش ڈاکوڑگی تعلقہ پنچایت صدر نے خطاب کے سلسلہ کو جاری رکھتے ہوئے کہا کے پچھلے 70سالوں میں اس ملک کے دستور کو کوئی خطرہ نہیں تھا مگر پچھلے پانچ سالوں میں خطرہ ہوا ہے،آٹھ سو سال اس ملک پر مسلمانوں نے حکومت کی ہے مسلمانوں کے دورحکومت میں کسی کے ساتھ کوئی نہ انصافی نہیں ہوئی ہے مگر آج مسلمانوں کے ساتھ اس ملک میں نہ انصافی ہو رہی ہے ڈاکٹر بی آر آمبیڈکر کے قانون کو بچانے کی سخت ضرورت ہے،پارلیمنٹ میں مرکزی حکومت نے کئی قانون بنائے جیسے ٹرپل طلاق،آرٹیکل 370،اور بابری مسجد کا فیصلہ مسلمانوں کے خلاف آنے پر بھی اس ملک کے مسلمانوں نے خاموشی اختیارکر لی تو انہوں نے سمجھ لیا کے مسلمان ڈرے ہوئے ہیں اسی لیے شہریت ترمیمی قانون بنا دیا مگر اس ملک کا مسلمان اب بیدار ہو چکا ہے۔ مسلمانوں کے ساتھ دلت برداری بھی اس احتجاج میں شامل ہے مرکزی حکومت اگلا قانون ریزویشن کے خلاف بنانے کی فراق میں لگی ہوئی ہے ایسے قانون کو روکنے کے لئیے حکمت عملی کی ضرورت ہے۔

حافظ سید کلیم اُللہ نے اپنے خطاب میں کہا کے ہندوستان کی پہچان ہمارے دستور سے ہوتی ہے دستور ہند میں سبھی مذاہب کے لوگوں کا خیال رکھا گیا ہے آج دستور ہند میں تبدیلی کی کوشش کی جارہی ہے مذہب کی بنیاد پر تفریق پھیلانے کی کوشش ہو رہی ہے اور ایک مخصوص فرقہ کو نشانہ بنایا جا رہا ہے این آر سی کو آسام میں لاگو کیا گیا اسکو تمام ہندوستان میں لاگو کرنے کی باتیں کہی جا رہی ہیں۔ صرف مسلمان ہی نہیں بلکہ غیر مسلم بھی اس متاثر ہونگے۔ہندوستان کے بنیادی مسائل سے توجہ ہٹانے کے لئیے ایسے مسائل کو کھڑا کیا جا رہا ہے۔

اس حتجاجی دھرنے سے الحاج حافظ فیاض قاسمیؔ، مفتی سُہیل عاطف قاسمیؔ، مولانا جُعیل ثاقب قاسمیؔ، مولانا سید مصباح الدین حُسامی، حافظ محمد تنویر سلمان، شیخ ذاکر حُسین، سید شان الحق بخاری، مولانا بشیر الدین نظامی نے بھی مخاطب کیا۔بعدا زاں تحصلیدا ر کے تو سط سے صدر جمہوریہ کو یاداشت روانہ کی گئی۔اس احتجاجی دھرنے کی صدرارت الحاج محمد مجید خان صدر مسلم ویلفر اسوسی ایشن نے فرمائی جبکہ سید مزمل مدرس نے نظامت کے فرائض انجام دیے۔

دھرنےکو کامیاب بنانے میں محمد افسر میاں، محمد عبدالخالد کنٹرولر، محمد عبدا لصمد، محمد افتخار احمد، محمد جمیل خان،سید یاسین علی، سید عبدالباسط عمر، محمد آرشد،محمد عبدالکریم، محمد پرویز احمد، محمد عبدالرحمن گورے میاں، نیاز یاسر،سید ابراہیم قادری، محمد عبدالماجد،مرزاواحد بیگ، سید فیاض علی،سید کلیم اُللہ سابق صدر بلدیہ،محمد مکرم جاہ،محمد نعیم باغبان، محمد ریحان،محمد عبد الکریم کمپیوٹر،محمد دستگیر،محمد عبدا لصبور مرتضیٰ،محمد رفیع،کے علاوہ دیگر اہلیان ہمناآباد نے اپنا تعاون پیش کیا۔

دھرنے کے پیش نظر تمام مسلمانان ہمناآباد نے رضا کارنہ طور پر اپنے کاروبار کو بند رکھ کر احتجاج میں شامل ہوئے۔دھرنے کو پُر امن بنانے کے لئیے محکمۂ پولیس کی جانب سے سخت ترین صیانتی انظامات کیے گئے تھے محکمۂ پولیس کے اعلی عہدیداران نے راست طور پر اسکی نگرانی کی اور دھرنے کو پر امن بنائے جانے پر تمام لوگوں کا شکریہ اداکیا۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

error: Content is protected !!